میں فکر کے صحرا میں ہوں برسوں سے رمیدہ

میں فکر کے صحرا میں ہوں برسوں سے رمیدہ 
ہر صبح مری زیست کی ہے شام گزیدہ

یہ بھی ہے عنایت مرے احباب کی جس سے
حالات نظر آتے ہیں اب مجھ سے کشیدہ 

وہ سر جو بلندی کی حدیں ناپ رہا تھا
جب وقت پڑا اس پہ تورہتا ہے خمیدہ

اب حرفِ صداقت نہ لکھا جائے گا مجھ سے
اس شہرِ ستمگر نے کیا دست بریدہ

اس ذات کی عظمت کا مظاہر ہے زمانہ
رہتے ہیں سبھی جس کی حضوری میںخمیدہ

وہ مجھ سے خفا رہتا ہے ہر وقت سعیدؔ اب
لکھتا نہیں میں اس کے لیے کوئی قصیدہ
سعید رحمانی

Post a Comment

Previous Post Next Post