*رسموں کےشکنجے میں*
سمدھن صاحبہ نے فون پہ سلطانہ بیگم کو خوشخبری سنائی " مبارک ہو آپا جان .آپ نانی بننے والی ہیں! " جواباً انہوں نے بھی مبارکباد دی. زہرہ سے بات کر کے دعائیں دیں. اور فون رکھ دیا. خوشی تو انہیں بھی بہت ہورہی تھی کہ اللہ تعالی بیٹی کو اولاد کی نعمت سے نوازنے والا تھا. لیکن ساتھ ہی انکی تفکرات میں اضافہ بھی ہوگیا.!
ابھی 4 ماہ قبل ہی زہرہ کا بیاہ ہوا تھا. معیاری شادی کے سبھی تقاضے پورے کئے تھے .جس کے لئے قرض کا سہارا بھی لینا پڑا تھا. وہی قرض ادا کرنے کی فکر شب وروز ستا رہی تھی کہ اب ایک اور نئی فکر دامن گیر تھی.!
بیٹی پہلی بار تخلیق کے مراحل سے گزرنے والی تھی اور اس دوران ڈاکٹرز سے چیک اپ ، دوائیں ، متعدد بار اسکیننگ اور پھر ڈلیوری کا خرچ.....! نارمل ہو تو اللہ کا شکر ورنہ 50 ہزار روپئے سیزرین کے.! سلطانہ بیگم کا دل بیٹھ گیا.
فاروق صاحب گھر آئے تو انہیں خوشخبری سنائی اور اپنی تفکرات اور ممکنہ اخراجات کا ذکر بھی کردیا. وہ خوش ہوئے اور انہیں تسلی دی " ہوجائے گا. بیگم! اللہ مسبب الاسباب ہے. تم فکر نہ کرو. میں سیٹھ صاحب سے ایڈوانس دینے کی گزارش کرتا ہوں. اور تم بھی کچھ اخراجات میں کٹوتی کرو. میں اپنی ایک دو دوائیاں بھی چھوڑ دیتا ہوں. ویسے اللہ کے فضل سے مزاج میں بہتری ہے. پھر کیوں فضول دوائیں لی جائیں. ڈاکٹروں کا بس چلے تو عمر بھر دوائیں کھلاتے رہیں.! " انہوں نے مسکرا کر کہا مگر سلطانہ بیگم انکا درد جانتی تھیں. تین ماہ پہلے انہیں ہلکا سا ہارٹ اٹیک ہوا تھا. وہی علاج جاری تھا اور دوائی لینا لازمی تھا. مگر اب کفایت شعاری کے خیال سے وہ ایسا کہہ رہے تھے. سلطانہ بیگم نے ہمت بندھائی " آپ دوائیں قطعی نہیں چھوڑیں گے. ڈاکٹر کی ہدایت ہے کہ اب کوئی لاپرواہی نہیں ہونی چاہئے. " " ٹھیک ہے بھئی. جو حکم سرکار کا " وہ مسکرا دیئے .سلطانہ بیگم کچن میں چلی گئیں. اور پھر سے سوچ میں غرق ہوگئیں.
تین بیٹیوں کے بیاہ کے بعد مالی طور پر وہ لوگ بہت کمزور ہوگئے تھے. فاروق صاحب 20 سال سعودی عربیہ میں بطور سیلز مین ملازم رہے. ایسی فراخدستی نہ رہی جو عموماً این آر آئیز کی ہوا کرتی ہے. بھرا پورا کنبہ تھا. والدین ، اہلیہ اور پانچ بچے..! جو بھی کمایا وہ بس ضروریات کی تکمیل کے لئے کافی تھا. بچوں کی تعلیم وتربیت اور بیاہ کی ذمے داریاں نبھائیں. پھر صحت جواب دینے لگی. بلڈ پریشر اور شوگر کے عارضے نے کمزور کردیا تو مجبوراً وطن لوٹ آئے اور یہاں اب ایک کپڑے کی دکان پر ملازم تھے.
جیسے تیسے گزر بسر ہورہی تھی. زہرہ کی شادی کے بعد سوچا تھا کہ قرض کی ادائیگی کسی طرح ہوجائے تو سکون کی سانس لیں. مگر ایک اور کٹھن مرحلہ باقی تھا.
وہ پھر سے حتی الامکان کفایت کرکے بچت کی کوشش کرنے لگیں. اور فاروق صاحب نے دوائیاں لینا ترک کردیا.اس طرح تقریباً 2 ہزار کی بچت وہ ہر ماہ کر لیتے. سلطانہ بیگم بھی مجبور تھیں . بیٹی کو سسرال میں طعنے نہ سننے پڑیں اسلئے ضروری تھا کہ سارا خرچ اٹھانے کے لئے تیار رہیں
زہرہ کی ساس رسم ورواج کی پاسداری کرنا جیسے فرض اولین سمجھتی تھیں. اور آرزو ، ارمان پورے کرنے کی بھی بڑی شوقین تھیں. لہذا حکم صادر ہوگیا کہ " بہو. ہمارے یہاں ستواسہ لانے کا رواج ہے. کہہ دینا اپنی امی سے! "
زہرہ حسب دستور میکے آگئی تھی. نعمان بھی اکثر آجاتے. داماد کی خاطر تواضع کے خیال سے پکوان بھی لوازمات سے بھرپور ہوتا. جتنی بچت ہوتی اس سے زیادہ خرچ ہوجاتا. اب ستواسے کا سنکر دونوں اور پریشان ہوگئے. کسی طرح یہ رسم بھی نبھا دی. فاروق صاحب کے سیٹھ نے خاصی منت سماجت کے بعد ایڈوانس دیا. زہرہ کا سیزرین ہی ہوا. پھر چھلے کی تقریب کے بعد جب وہ سسرال گئی تواس وقت تک ایک لاکھ روپئے کا مزید قرض فاروق صاحب کے سر پر تھا.!
اسی فکر میں انکی صحت پر برا اثر پڑتا گیا. دوائیاں اور ڈاکٹر سے چیک اپ کا سلسلہ پہلے ہی ختم ہوچکا تھا. ایک رات شدید ہارٹ اٹیک سے وہ جانبر نہ ہوسکے اور رسم ورواج کے شکنجے نے ایک بیٹی کے باپ کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا...!!!
*رخسانہ نازنین*
*بیدر*
*کرناٹک*
Post a Comment