خوشی کی زندگی سے آشنائی ہو نہیں سکتی

خوشی کی زندگی سے آشنائی ہو نہیں سکتی
غموں کی قید سے جب تک رہائی ہو نہیں سکتی
یہ روٹی دال ہی کافی ہے ہم جیسے فقیروں کو
غذا اپنی کبھی بھی مرغ و ماہی ہو نہیں سکتی
بری لت ہے ہمیں سچ بولنے کی‘ اس لیے شاید
امیرِ شہر تک اپنی رسائی ہو نہیں سکتی
ضروری ہے کہ ہو کردار بھی مومن صفت ورنہ
فقط یہ سجدہ ریزی پارسائی ہو نہیں سکتی
فریب و مکر سے جو کام لیتے ہیں زمانے میں
ہماری ان سے ہرگز آشنائی ہو نہیں سکتی
ہمارا رابطہ ہے اس قدر مضبوط آپس میں
ہمارے بیچ حائل کوئی کھائی ہو نہیں سکتی
جو خود ناآشنا ہیں راہِ منزل سے سعیدؔ اب تک
کبھی ان سے ہماری رہنمائی ہونہیں سکتی
سعیدرحمانی

Post a Comment

Previous Post Next Post