اُس شہرِ دلنواز کی ہے آرزوئے دید

اُس شہرِ دلنواز کی ہے آرزوئے دید
ملتی ہے جس سے گلشنِ فردوس کی نوید
منزل کی جستجو میں جو رہتا ہے سرگراں
ملتی ہے کامیابی کی اک دن اسے کلید
راحت کا کوئی لمحہ ملے بھی تو کیوں ملے
ٹھہرا ہوا جو شہر میں ہے موسمِ شدید
طاری کبھی میں کرتا نہیں خود پہ یاسیت
تکلیف میں بھی رکھتا ہوں راحت کی میں امید
ظلم و ستم کی زد میں ہے ملت کا فرد فرد
ایسی فضا میں دوستو! کیوں کر منائیں عید
مہنگائیاں جو چھونے لگیں آسمان کو
باقی کہاں غریب میں اب قوتِ خرید
یہ قافیہ ہے تنگ بہت اس لیے سعیدؔ
ممکن نہ ہوسکا کہ کہوں شعر کچھ مزید

سعیدرحمانی

Post a Comment

Previous Post Next Post