نظم

*لمحے*
_مبشر عارفی_

میں لمحوں سے اکثر
یہی پوچھتا ہوں
کہاں تم کو ڈھونڈوں
اے گزرے لمحے
سڑک کے کنارے
گلی کے نکڑ پر
ندی کی طرف یا
پربت شیکھر پر
میں جب ڈھونڈتا ہوں
ترا کوئی پتا تو
یہ چلتے ٹھہرتے
جو لمحے ہیں سارے
یوں روٹھتے ہیں
بکھرے ہیں ایسے کہ کوئی
ٹوٹی ہو موتی کی مالا
میں اکثر صبح کو
ندی کے کنارے
کبھی شام کو
یوں ہی بیٹھے اکیلے
یہی سوچتا ہوں
کہ شائد کوئی
اجنبی سے شہر میں
میں پھر رہا ہوں
یونہی دوپہر میں
درختوں کے پتے
مرجھا رہے ہوں
یا پھر سرمئی سے
صبح کے اجالوں
میں کئی پھول اپنی
قباؤں کے اندر
کھڑے سر جھکائے
شرما رہے ہوں
کسی رہ گزر کے
اک ویران گھر میں
کوئی ایک جادوئی ایسی جگہ ہو
جہاں پر یہ گزرے
لمحات سارے
قرینے سے طاقوں پہ
ایسے سجے ہوں
کہ جیسے فتح پر کسی کی بدی پر
قطاروں میں لاکھوں
دیے جل رہے ہوں
میں راتوں کو اکثر
یہی سوچتا ہوں
کہیں دور جنگل کے
اگلے کنارے
بھٹکتے ہوئے کچھ
بھولے مسافر
اپنوں سے میلوں کی دوری پہ آکر
لمحوں کو بیٹھے
یوں گن رہے ہوں کہ
جیسے صبح کے اجالوں کے آگے
ان لمحوں کی کوئی بھی
قیمت نہیں ہے
کہ جس دم کوئی ایک
جگنو کی مشعل
چمک کر اندھیرے میں گل ہو گئی ہو
میں راتوں میں اکثر یہی سوچتا ہوں
اگر کوئی لمحہ
سچ مچ ٹھہرتا
تمام ایک لمحوں
میں یہ چند لمحے
بڑے خوب ہوتے
وہ پل کہ جس دم
سورج کی کرنیں
درختوں کے پتوں کو
یوں چھو رہی ہوں
جسے دیکھ کر ایک لمحے کو دل میں
عجب سی مسرت
خوشی ہو رہی ہو
یا جس دم ہو نظروں
کا ہلکا سا سنگم
اور نظریں
دوبارہ جدا ہو رہی ہوں
جب
کوئی دکھی ماں بچے سے مل کر
آنچل کے پلو سے آنکھیں چھپائے
بچے کا بوسہ لئے جارہی ہو
میں راتوں کو اکثر
یہی سوچتا ہوں

Post a Comment

Previous Post Next Post