محترم مبشر عارفی صاحب کی نظم عنوان "لمحے"

*محترم مبشر عارفی صاحب کی نظم عنوان "لمحے" پر لکھی گئی ہے۔۔۔*
*میں نے نظم ایک... دو.... سہ بار پڑھی*
*پڑھتی رہی*
*اٹکتی رہی*
*آگے بڑھتی رہی*
*اس نظم کے اندر کئی سطریں ایسی ہیں جو دل کو گرفت لیتی ہیں۔۔۔ تخیل کا عالمانہ رنگ ذہن کو متوجہ کرتا ہے۔ ویسے بھی یہ صنف مجھے باقی اصناف کے مقابلے میں زیادہ متاثر کرتی ہے*
*آسانی سے سمجھنے کے لئے میں نے  نظم کو کئی حصے میں تقسیم کیا ہے تا کہ سمجھ سکوں تمام کڑیاں ایک دوسرے سے مربوط ہیں کہ نہیں؟؟؟*
*نظم کا خاصہ یہ ہوتا کہ اس کی ہر سطر اور ہر کڑی ایک دوسرے سے متصادم ہوتی ہیں*
*روانی اور نغمگی کے باوجود بھی  "لمحے" کے لئے چند لمحے نکالنے ہی پڑے کہ غور و فکر سکوں نظم کہ بنت کیا ہے اور شاعر کہنا کیا چاہ رہا ہے*
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*لمحے*
_مبشر عارفی_

میں لمحوں سے اکثر
یہی پوچھتا ہوں
کہاں تم کو ڈھونڈوں
اے گزرے لمحے!!!!

سڑک کے کنارے
گلی کے نکڑ پر *(لفظ نکر پر ثقالت محسوس ہو رہی ہے)*
ندی کی طرف یا
پربت شیکھر پر
میں جب ڈھونڈتا ہوں
ترا کوئی پتا تو
یہ چلتے ٹھہرتے
جو لمحے ہیں سارے
یوں روٹھتے ہیں
بکھرے ہیں ایسے کہ کوئی
ٹوٹی ہو موتی کی مالا.

میں اکثر صبح کو
ندی کے کنارے
کبھی شام کو
یوں ہی بیٹھے اکیلے
یہی سوچتا ہوں
کہ شائد کوئی
اجنبی سے شہر میں
میں پھر رہا ہوں.

یونہی دوپہر میں
درختوں کے پتے
مرجھا رہے ہوں
یا پھر سرمئی سے
صبح کے اجالوں
میں کئی پھول اپنی
قباؤں کے اندر
کھڑے سر جھکائے
شرما رہے ہوں.
*(ویسے تو یہ کڑی خوب صورت ہے مگر مربوط نہیں معلوم ہو رہیں۔۔  )*

"کسی رہ گزر کے
اک ویران گھر میں
کوئی ایک جادوئی ایسی جگہ ہو
جہاں پر یہ گزرے
لمحات سارے
قرینے سے طاقوں پہ
ایسے سجے ہوں
کہ جیسے فتح پر کسی کی بدی پر
قطاروں میں لاکھوں
دیے جل رہے ہوں"
*(پوری نظم میں سب سے خوب صورت اور تصوراتی کڑی ہے یہ۔۔  شاعرانہ رنگ، فہم کی عام سطحی سے مبرا )*

میں راتوں کو اکثر
یہی سوچتا ہوں
کہیں دور جنگل کے
اگلے کنارے
بھٹکتے ہوئے کچھ
بھولے مسافر
اپنوں سے میلوں کی دوری پہ آکر
لمحوں کو بیٹھے
یوں گن رہے ہوں کہ
جیسے صبح کے اجالوں کے آگے

ان لمحوں کی کوئی بھی
قیمت نہیں ہے۔ *( شاعر نے خوب منظر کشی کی ہے جیسے گاؤں سے بہت دور گھنے  پیڑ کے نیچے اکیلا آدمی تاش کے پتے پھینک رہا ہو جسے دنیا کی رنگ رلیوں سے کوئی مطلب ہی نہیں"اپنوں سے میلو دور۔۔۔۔ "۔۔۔ پرانے منظر کو لفظی جاما پہنا کر منفرد ہی کر دیا)*

کہ جس دم کوئی ایک
جگنو کی مشعل
چمک کر اندھیرے میں گل ہو گئی ہو

میں راتوں میں اکثر یہی سوچتا ہوں

اگر کوئی لمحہ
سچ مچ ٹھہرتا
تمام ایک لمحوں
میں یہ چند لمحے *( ایک لمحہ ٹھہرتا تو تمام لمحوں میں یہ چند لمحے بڑے خوب کیسے ہوتے ؟؟؟؟ یہاں تضاد سے کام لیا گیا ہے)*
بڑے خوب ہوتے.

وہ پل کہ جس دم
سورج کی کرنیں
درختوں کے پتوں کو
یوں چھو رہی ہوں
جسے دیکھ کر ایک لمحے کو دل میں
عجب سی مسرت
خوشی ہو رہی ہو
یا جس دم ہو نظروں
کا ہلکا سا سنگم
اور نظریں
دوبارہ جدا ہو رہی ہوں *(دل کو چھونے والی سطر)*
جب
کوئی دکھی ماں بچے سے مل کر
آنچل کے پلو سے آنکھیں چھپائے
بچے کا بوسہ لئے جارہی ہو *(اس سطر سے یقین نہیں ہوتا کہ کسی شاعرہ کا نہیں بلکہ کسی شاعر کا کلام ہے۔۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے  اس سطر پر قلم چلاتے ہوئے شاعر بھی کسی زندہ لمحے کو جی رہا ہے)*
میں راتوں کو اکثر
یہی سوچتا ہوں

*میں سمجھتی ہوں کہ الفاظ کے زرا سی رد بدل کے ذریعہ نظم کو مربوط کیا جا سکتا ہے ورنہ نظم ایک قرات میں نظم اچھی تو لگتی ہے مگر کوئی پیغام یا کوئی معنی قاری اخز نہیں  کر سکتا۔۔۔۔ اس نظم میں سب زیادہ مشکل پیدا کرنے والی بات "میں راتوں کو اکثر یہی سوچتا ہوں" ہے۔ شاعری میں حسیت سے موثر خوبی ہے لیکن محض جزبات سے کام لینا عقلمندی نہیں۔۔۔۔ قارئین میری طرح نظم کو توڑ کر پڑھیں پھر اس کی تشریح کریں تو بات بنتی ہے۔۔۔ شاعر عالمانہ سوچ کے حامل بھی ہیں لفاظی بھی ۔۔۔ ان کے ہاں تصوف کی بھی کمی معلوم نہیں ہوتی۔ میں نے آپ کا ایک افسانہ اور ایک جامع تبصرہ پڑھا ہے جو ادبی کہکشاں کی جانب سے نکلنے والی کتاب میں شامل ہے  اور  کی ان دو تخلیق سے آپ کی خوبیوں کا اندازہ لگتا ہے کہ آپ میں کئی کئی صلاحیتیں موجود ہیں بس آپ خود کو پہچانیں۔۔ اور اپنے قارئین  کو مستفیض  کریں۔۔۔۔ اس پیاری سی نظم کے لئے ڈھیروں مبارک باد قبول فرمائیں*

*"زارا طیب قاسمی "*

Post a Comment

Previous Post Next Post