غزل

*غزل*

مرکزِ قول و عمل کا دائرہ ہوجاونگا
صحبتِ صالح ملی تو پارسا ہوجاونگا

قرض ہوں دنیا ترا کچھ یوں ادا ہوجاونگا
چھوڑ کر تنہا تجھے اک دن ہوا ہوجاونگا

حل نہ ہو پائےگا ایسا مسئلہ ہو جاونگا
یادِ ماضی سن ترا میں سلسلہ ہوجاونگا

دوریاں دراصل اپنے پن کا اک احساس ہیں
دوریاں کم ہوگئیں تو میں جدا ہوجاونگا

ایک دوجے کا ہم اپنے پاس کچھ ایسے رکھیں
تم بنو منزل مری میں راستہ ہوجاونگا

مامتا مجھ پر لٹاتی رہ تو ورنہ زندگی
طفل کی مانند تجھ سے میں خفا ہوجاونگا

غربت و افلاس کے مارے ہووں کے حق میں گر
کیا عجب ہووے جو انکا آسرا ہوجاونگا

پتھروں سے آئینے ہیں ٹوٹتے راہی مگر
پتھروں کو توڑ دے وہ آئینہ ہو جاونگا 

۔۔۔۔۔۔۔داکٹر یاسین راہی

Post a Comment

Previous Post Next Post