*اسدالدین اویسی!زمانہ یادرکھے گا تری جرأت کے افسانے*
از: *مولانا حشم الدین رضوی الثقافی*
*نوٹ:جو لوگ اویسی صاحب کو بی جے پی کا ایجنٹ کہنے میں لگے ہیں،انھیں چاہیے کہ یہ مضمون پڑھ کر اپنا محاسبہ کریں۔*
*(سیف اصدق)*
قطع نظراس کے کہ مجلس اتحادالمسلمین کے صدراور حیدرآباد کے ایم پی بیرسٹراسدالدین اویسی سیاست میں کتنے کامیاب ہیں اورسیاست میں وہ کس حد تک آگے جائیں گے لیکن ان کی جرأت ،عزم واستقلال،ان کے انداز تخاطب ،ان کی عالی ہمتی اور بے خوفی کوبے اختیار سلام کرنے کو جی چاہتاہے کہ اللہ تعالی اس گئے گذرے عہدمیں بھی ایسے جواں مردوں کو رکھے ہوئے ہیں جو حق کی بات ظالموں کے سامنے کہنے میں کسی طرح کی جھجھک اور عار محسوس نہیں کرتے اور نبی ﷺ کے قول ’ افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر‘کہ سب سے عظیم جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہہ دیناہے‘کے صحیح مصداق ہیں۔جنھوں نے ہرموقعے اور ہرموڑ پراسلام کا دامن تھام رکھاہے اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کو پس پشت ڈال دیاہے۔
مثال کے طورپر تبدیلی مذہب کے عنوان پر لب کشائی کرتے ہوئےبیرسٹر محترم پارلیمنٹ میں اس طرح گویاہوتے ہیں '’یہ بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے لوگ آپ کے لوگ ہیں ہم ان سے ڈرنے والے نہیں۔ہم اپنے مذہب پرچلیں گے۔ ہمیں جتنافخر ہندوستانی ہونے پرہے اتنا فخرمسلمان ہونے پر بھی ہے۔نہ عیسائی ڈریں گے نہ مسلمان ڈریں گے۔آپ لاکھ کوشش کرلیجئے ہم اپنا مذہب تبدیل کرنے والے نہیں ہیں۔ملک کوبچاناہے ملک کومضبوط کرنا ہے تو اپنے جوکروں کو روکو،اپنے چمچوں کو روکو تب ملک بچے گا ۔شکریہ‘۔
پارلیمنٹ کے اند ر موصوف کی حق گوئی و بے باکانہ للکار آئے دن مشاہدہ میں آتی رہتی ہے۔ اور ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ آپ کے خیالات وافکار کو اپنی ترجمانی سے تعبیرکرتاہے۔
رجت شرماکے ساتھ انٹرویومیں یوں کہتے ہیں’ملک سے ہمارانہ کوئی جھگڑا ہے اور نہ ہوگا ان شاء اللہ تعالی۔ یہ ملک ہمارا تھاہمارا ہے اور ہمارارہے گا۔اس ملک کیDiversity (تنوع) ہی اس کی طاقت ہے۔ ایک لڑکی کے اس سوال پر کہ سارے دہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہوتے ہیں کے جواب میں نہایت سادگی کے ساتھ جواب دیتے ہوئے یوں لب کشاہوتے ہیں’ مہاتما گاندھی کو جس نے مارا وہ مسلمان تھا کیا؟ اندرا گاندھی کو جس نے مارا وہ مسلمان تھاکیا؟بابری مسجد کو جس نے شہید کیاوہ مسلمان تھا کیا؟دہلی کی سڑکوں پر سکھوں کی گردنیں کاٹنے والے مسلمان تھے کیا؟گجرات کے گلی چوں میں لوگوں کو قتل کرنے والے مسلمان تھے کیا؟ میری بہن !میں آپ سے گذارش کررہاہوں کہ آپ ایسامت سوچئے۔برائی برائی ہوتی ہے اس کو آپ مذہب کے نقطہ نظر سے مت دیکھئے۔ماوواد سے ہماراکیاتعلق ہم تو ہر تشد د کی مذمت کرتے ہیں‘ ۔ یا دارالسلام کے جلسے میں یہ کہناکہ’ اصل گھرواپسی تو اسلام کی طرف آنا ہے کیوں کہ ہربچہ فطرت اسلام پرپیداہوتاہے‘۔ جس کی وجہ باطل عناصر میں خوب کھلبلی مچی.
موصوف کے روز مرہ کے ٹی وی ڈبیٹ اور انٹرویو کو دیکھ کر بے اختیار دعانکل جاتی ہے کہ اسد! اللہ تجھے سلامت رکھے۔ تو اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کا جانباز اور حقدار ترجمان ہے۔تو نے ہرجگہ اور ہرموقع پر اسلام اور اس ملک کے دستور کی وکالت کی ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کی ہے۔
تین طلاق کےمخالف 28 دسمبر 2017 کو پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والےپہلے ٹرپل طلاق بل کا اسدالدین اویسی نے جس ہمت وپامردی اور دلائل وبراہین کے ساتھ رد کیاتھاوہ قابل دید وقابل ملاحظہ ہے۔انھوں نے خوب جم کرمخالفت کی اور دلائل وبراہین سے مدلل گفتگو کی اور بہرحال ان کی آواز آسمان والے کے یہاں سنی گئی اور بل راجیہ سبھا میں پاس نہ ہو پایا۔ موصوف اس دن تن تنہامورچالیے ہوئےتھے۔اور انھوں نے اپنے جلسوں میں اپنے اس اکیلے پن کا باربار اظہار بھی کیاجس نے ہر مرد مومن کے دل پر اثر کیا..
اور پھر آج بتاریخ 27 دسمبر 2018 کو اسدالدین اویسی نے جس طرح سے بل کو مسترد کیا کی اس کی داد دیے بغیر نہیں رہاجاسکتا۔ بیرسٹر نے آئین ہند کا حوالہ دے کر اسے مذہبی آزادی میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ میں ایک باپ، ایک بھائی، ایک چاچا ااور بیٹا ہونے کے ناطے اس ایوان کے ذریعےحکومت کو بتانا چاہتاہوں کہ ہندوستان کی صد فیصد مسلم خواتین اس بل کی پرزور مخالفت کرتی ہیں اور اسے ریجکٹ کرتی ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ آئین ہند کی دفعات 14؍15؍26؍اور 29کے تحت جو مذہبی آزادی کی گارنٹی دی گئی ہے یہ بل ان کے خلاف ہے اس لیے میں اس کی مخالفت کرتا ہوں۔ انھوں نے اپنے نرالے اور پرجوش انداز میں آگے کہاکہ :اس حکومت کی وہ کون سی مجبوری ہے کہ یہ ہم جنسی اور زناکاری کو جرم کی فہرست سے نکال دیاگیاپر آپ اس کی مخالفت نہیں کرتے لیکن آپ ٹرپل طلاق کے خلاف ہیں اور اسے قابل سزاجرم اس لیے سمجھتے ہیں کیو ں کہ یہ مسئلہ ہم سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون آئین کے خلاف ہے اورمختلف قوانین اور نقطہائے نظر کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر قانون کو کچھ قانون کی کتابیں پڑھنے کا بھی مشورہ دے ڈالا تاکہ انھیں کچھ مبادیات قانون معلوم ہو جائیں.. سابری مالامندر کا حوالہ دیتے ہوئےجب وہ یہ سوال پوچھ رہے تھے تو منظر دیدنی تھا:کہ کیاآپ کا عقیدہ تو آپ کا ہوگااور میراعقیدہ میرانہیں ہوگا؟ انھوں نے یہ سوال بھی چست کرنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھاکہ ہمارے ملک میں طلاق کے قانون میں اگر کوئی ہندو طلاق دیتا ہے تو اسے ایک سال کی سزا کیوں ہے، اور مسلمان کو تین سال کی سزا کیوں؟ کیا یہ آرٹیکل 14 کا غلط استعمال نہیں ہے؟ انہوں نے اس موقع پر ایم جے اکبر کے خلاف گزشتہ دنوں چھڑی می ٹو مہم کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کے ان کے ساتھ نرم رویے کا بھی خوب استہزاء کیا اور مرکزی وزیر مختار عباس نقوی پر بھی طنز کسا۔ انہوں نے ببانگ دہل یہ بھی کہاکہ طلاق کے تعلق سے حکومت کے ارادے نیک نہیں ہےاور یہ بھی کہا کہ جب سپریم کورٹ نے کہدیا ہے کہ اس سے شادی نہیں ٹوٹتی تو پھر آپ کس بات کی سزا دے رہے ہیں؟ انہوں نے کہاکہ ٹرپل طلاق بل کامقصد صرف مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے اور انہیں جیل بھیجوانا ہے۔ انہوں نے سائرہ بانو کے تعلق سے کہا کہ وہ تو بی جے پی میں چلی گئی آپ کی حکومت نے اس کےلیے کیا کیا؟ شادی ایک معاہدہ ہے کو مبرہن کرتے ہوئے مسٹر اویسی نے نہایت شاندار تجویز پیش کی۔حکومت کے اٹارنی جنرل کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کے برے عزائم کو بے نقاب کیا۔
موصوف اویسی جی نے اپنی گفتگو میں ایوان زیریں اندر قرآن کے حوالے سے باتیں پیش کرنے والوں اور والیوں کو دعوت توحید وختم نبوت بھی دے ڈالا۔اورپھر اختتام تو اتناشانداررہا کہ بس کیا پوچھنا۔انھوں نے اخیرمیں کہاکہ میڈم! میں آپ کے واسطے سے حکومت کو یہ بتاناچاہتاہوں کہ آپ کے قانون سے ، آپ کے دباؤ سے ، آپ کے زور سے،آپ کے جبر سے ہم اپنے مذہب کو نہیں چھوڑیں گے۔جب تک دنیاباقی رہے گی ہم مسلمان بن کر شریعت پر چلتے رہیں گے ۔ ہم اس بل کو ریجیکٹ کرتے ہیں۔
واہ اویسی صاحب! آپ نے اس ایوان بھی اسلام کی حقانیت کا ببانگ دہل اعلان کیا اور واقعی حق اداکردیا۔ اور مجھے اور مجھ جیسے کروڑوں لوگوں کا یہ یقین ہے کہ جب تک آپ جیسے باہمت اور سمجھدار اور غیور مسلمان اس ملک میں اور ایوانوں میں موجود رہیں گے اسلام کی آواز کو دبایانہیں جاسکے گا ۔ ان شاء اللہ
دعاگو ہوں کہ اللہ آپ کو قدم بقدم ترقی دے اور ہندوستان کی سیاست کے آسمان کا چمکتاماہتاب اور دمکتاآفتاب بنائے اور ہرطرح دشمنوں کے شرورفتن سے محفوظ رکھے۔اقبال مرحوم نے آپ ہی جیسے لوگوں کے لیے کہا تھا:
آئین جوان ِمرداں حق گوئی وبے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
کسی اورشاعر کے یہ اشعاربھی ایسے ہی جانبازوں اور باہمت وباغیرت لوگوں کے لیے کہے گئے ہیں:
سفینہ جو اپنا جلانے چلا ہے
وہ دین نبی کو بچانے چلا ہے
اسے دیکھ کر تو فرشتے ہیں حیران
وہ اپنے لہو میں نہانے چلا ہے
وہ راہ خدا میں پلٹ کے نہ دیکھے
وہ سب کچھ تو اپنا لٹانے چلا ہے
وہ خالد کا وارث وہ طارق کا ثانی
سبق وہ شجاعت کا پڑھانے چلا ہے
بہا کر لہو اپنے قلب و جگر کا
وہ گلشن نبی کا سجانے چلا ہے
بہت ہیں پریشاں یہ ظالم یہ جابر
وہ ظلم و ستم کو مٹانے چلا ہے
عزائم ہیں اس کے پہاڑوں سے اونچے
وہ مغرور سر کو جھکانے چلا ہے
جو بندوں کو رب سے نہ ملنے کبھی دے
وہ دیوار باطل گرانے چلا ہے
وہ قرآن کا داعی وہ دین کا سپاہی
خلافت کا منظر دکھانے چلا ہے
ستارے بھی تکتے ہیں راہیں جو اس کی
حجازیؔ بھی پلکیں بچھانے چلا ہے