یہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سب سے پہلی بیوی اور رفیقہ حیات ہیں یہ خاندان قریش کی بہت ہی باوقار و ممتاز خاتون ہیں ان کے والد کا نام خویلد بن اسد اور ان کی ماں کا نام فاطمہ بنت زائدہ ہے ان کی شرافت اور پاک دامنی کی بنا پر تمام مکہ والے ان کو ،،طاہرہ،، کے لقب سے پکارا کرتے تھے انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے اخلاق و عادات اور جمال صورت و کمال سیرت کو دیکھ کر خود ہی آپ سے نکاح کی رغبت ظاہر کی چنانچہ اشراف قریش کے مجمع میں باقاعدہ نکاح ہوا یہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بہت ہی جاں نثار اور وفا شعار بیوی ہیں اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو ان سے بہت ہی بے پناہ محبت تھی چنانچہ جب تک یہ زندہ رہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور یہ مسلسل پچیس سال تک محبوب خدا کی جاں نثاری و خدمت گزاری کے شرف سے سرفراز رہیں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی ان سے اس قدر محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اپنی محبوب ترین بیوی حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،حضرت خدیجہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا، ج۴،ص۳۶۳ والاستیعاب ،کتاب النساء ۳۳۴۷،خدیجہ بنت خویلد،ج۴،ص۳۷۹)
اس بات پر ساری امت کا اتفاق ہے کہ سب سے پہلے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی نبوت پر یہی ایمان لائیں اور ابتداءِ اسلام میں جب کہ ہر طرف آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مخالفت کا طوفان اٹھا ہوا تھا ایسے خوف ناک اور کٹھن وقت میں صرف ایک حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی ہی ذات تھی جو پروانوں کی طرح حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر قربان ہورہی تھیں اور اتنے خطرناک اوقات میں جس استقلال و استقامت کے ساتھ انہوں نے خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اس خصوصیت میں تمام ازواج مطہرات پر ان کو ایک ممتاز فضیلت حاصل ہے۔
ان کے فضائل میں بہت سی حدیثیں بھی آئی ہیں چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ تمام دنیا کی عورتوں میں سب سے زیادہ اچھی اور باکمال چار بیبیاں ہیں ایک حضرت مریم دوسری آسیہ فرعون کی بیوی تیسری حضرت خدیجہ چوتھی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہن۔
ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام دربار نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) یہ خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہیں جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے پاس ایک برتن میں کھانا لے کر آرہی ہیں جب یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے پاس آجائیں تو ان سے ان کے رب عزوجل کا اور میرا سلام کہہ دیجئے اور ان کو یہ خوشخبری سنا دیجئے کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بنا ہے جس میں نہ کوئی شور ہوگا نہ کوئی تکلیف ہوگی۔
(صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ،رقم ۳۸۲۰،ج۲،ص۵۶۵)
سرکار دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کی وفات کے بعد بہت سی عورتوں سے نکاح فرمایا لیکن حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی محبت آخرِ عمر تک حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے قلب مبارک میں رچی بسی رہی یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد جب بھی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے گھر میں کوئی بکری ذبح ہوتی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے یہاں بھی ضرور گوشت بھیجا کرتے تھے اور ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم باربار حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ذکر فرماتے رہتے تھے ہجرت سے تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر پا کر ماہ رمضان میں مکہ مکرمہ کے اندر انہوں نے وفات پائی اور مکہ مکرمہ کے مشہور قبرستان حجون (جنت المعلی) میں خود حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کی قبر انور میں اتر کر اپنے مقدس ہاتھوں سے ان کو سپرد خاک فرمایا اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے انکی نماز نہیں پڑھائی حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات سے تین یا پانچ دن پہلے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے چچا ابو طالب کا انتقال ہوگیا تھا ابھی چچا کی وفات کے صدمہ سے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم گزرے ہی تھے کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوگیا اس سانحہ کا قلب مبارک پر اتنا زبردست صدمہ گزرا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس سال کا نام ،،عام الحزن،، (غم کا سال) رکھ دیا۔
تبصرہ:۔
حضرت اُم المومنین بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی مقدس زندگی سے ماں بہنوں کو سبق حاصل کرنا چاہے کہ انہوں نے کیسے کٹھن اور مشقت کے دور میں حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا اور سینہ سپر ہو کر تمام مصائب و مشکلات کا مقابلہ کیا اور پہاڑ کی طرح ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رہیں اور مصائب و آلام کے طوفان میں نہایت ہی جاں نثاری کے ساتھ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی دلجوئی اور تسکین قلب کا سامان کرتی رہیں اور ان کی ان قربانیوں کا دنیا ہی میں ان کو یہ صلہ ملا کہ رب العلمین کا سلام ان کے نام لے کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوا کرتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ مشکلات و پریشانیوں میں اپنے شوہر کی دلجوئیاں اور تسلی دینے کی عادت خدا کے نزدیک محبوب و پسندیدہ خصلت ہے لیکن افسوس کہ اس زمانے میں مسلمان عورتیں اپنے شوہروں کی دلجوئی تو کہاں؟ الٹے اپنے شوہروں کو پریشان کرتی رہتی ہیں کبھی طرح طرح کی فرمائشیں کر کے کبھی جھگڑا تکرار کر کے کبھی غصہ میں منہ پھلا کر۔
اسلامی بہنو! تمہیں خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ اپنے شوہروں کا دل نہ دکھاؤ اوران کو پریشانیوں میں نہ ڈالا کرو بلکہ آڑے وقتوں میں اپنے شوہروں کو تسلی دے کر ان کی دلجوئی کیا کرو۔
Post a Comment