یہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے سب سے پیارے خادم حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماں ہیں ان کے پہلے شوہر کا نام مالک تھا بیوہ ہوجانے کے بعد ان کا نکاح حضرت ابو طلحہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوگیا۔
(الاستیعاب ،کتاب کنی النساء،باب السین ۳۵۹۷،ام سلیم بنت ملحان،ج۴،ص۴۹۴)
یہ رشتہ میں ایک طرح سے رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی خالہ ہوتی تھیں اور ان کے بھائی حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ ایک جہاد میں شہید ہوگئے تھے ان سب باتوں کی وجہ سے رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان پر بہت مہربان تھے اور کبھی کبھی ان کے گھر بھی تشریف لے جایا کرتے تھے بخاری شریف وغیرہ میں ان کا ایک بہت ہی نصیحت آموز اور عبرت خیز واقعہ لکھا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت ام سلیم کا ایک بچہ بیمار تھا جب حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ صبح کو اپنے کام دھندے کے لئے باہر جانے لگے تو اس بچہ کا سانس بہت زور زور سے چل رہا تھا ابھی حضرت ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مکان پر نہیں آئے تھے کہ بچہ کا انتقال ہوگیا حضرت بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سوچا کہ دن بھر کے تھکے ماندے میرے شوہر مکان پر آئیں گے اور بچے کے انتقال کی خبر سنیں گے تو نہ کھانا کھائیں گے نہ آرام کر سکیں گے اس لئے انہوں نے بچے کی لاش کو ایک الگ مکان میں لٹا دیا اور کپڑا اوڑھا دیا اور خود روزانہ کی طرح کھانا پکایا پھر خوب اچھی طرح بناؤ سنگار کر کے بیٹھ کر شوہر کے آنے کا انتظار کرنے لگیں جب حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رات کو گھر میں آئے تو پوچھا کہ بچہ کا کیا حال ہے؟ تو بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہہ دیا کہ اب اس کا سانس ٹھہر گیا ہے حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مطمئن ہو گئے اور انہوں نے یہ سمجھا کہ سانس کا کھنچاؤ تھم گیا ہے پھر فوراً ہی کھانا سامنے آگیا اور انہوں نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا پھر بیوی کے بناؤ سنگار کو دیکھ کر انہوں نے بیوی سے صحبت بھی کی جب سب کاموں سے فارغ ہو کر بالکل ہی مطمئن ہوگئے تو بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ اے میرے پیارے شوہر! مجھے یہ مسئلہ بتایئے کہ اگر ہمارے پاس کسی کی کوئی امانت ہو اور وہ اپنی امانت ہم سے لے لے تو کیا ہم کو برا ماننے یا ناراض ہونے کا کوئی حق ہے؟ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں امانت والے کو اس کی امانت خوشی خوشی دے دینی چاہے شوہر کا یہ جواب سن کر حضرت ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ اے میرے سرتاج! آج ہمارے گھر میں یہی معاملہ پیش آیا کہ ہمارا بچہ جو ہمارے پاس خدا کی ایک امانت تھا آج خدا نے وہ امانت واپس لے لی اور ہمارا بچہ مرگیا یہ سن کر حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چونک کر اٹھ بیٹھے اور حیران ہو کر بولے کہ کیا میرا بچہ مر گیا؟ بی بی نے کہا کہ ،،جی ہاں،، حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم نے تو کہا تھا کہ اس کے سانس کا کھنچاؤ تھم گیا ہے بیوی نے کہا کہ جی ہاں مرنے والا کہاں سانس لیتاہے؟ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بے حد افسوس ہوا کہ ہائے میرے بچے کی لاش گھر میں پڑی رہی اور میں نے بھر پیٹ کھانا کھایا اور صحبت کی ۔ بیوی نے اپنا خیال ظاہر کر دیا کہ آپ دن بھر کے تھکے ہوئے گھر آئے تھے میں فوراً ہی اگر بچے کی موت کا حال کہہ دیتی تو آپ رنج و غم میں ڈوب جاتے نہ کھانا کھاتے نہ آرام کرتے اس لیے میں نے اس خبر کو چھپایا حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ صبح کو مسجد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم میں نماز فجر کے لیے گئے اور رات کا پورا ماجرا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے عرض کردیا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے یہ دعا فرمائی کہ تمہاری رات کی اس صحبت میں اﷲ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرمائے اس دعائے نبوی کا یہ اثر ہوا کہ اسی رات میں حضرت بی بی ام سلیم کے حمل ٹھہر گیا اور ایک بچہ پیدا ہوا جس کانام عبداﷲ رکھاگیا اور ان عبداﷲ کے بیٹوں میں بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے۔
تبصرہ:۔مسلمان ماؤں اور بہنو! حضرت بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے صبر کرنا سیکھو اور شوہر کو آرام پہنچانے کا طریقہ اور سلیقہ بھی اس واقعہ سے ذہن نشین کرو اور دیکھو کہ بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کیسی اچھی مثال دے کر شوہر کو تسلی دی اگر ہر آدمی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے تو کبھی بے صبری نہ کریگا اور دیکھو کہ صبر کا پھل خداوند کریم نے کتنی جلدی حضرت بی بی ام سلیم کو دیا کہ حضرت عبداﷲ ایک سال پورا ہونے سے پہلے ہی پیدا ہوگئے اور پھر ان کا گھر عالموں سے بھر گیا۔
Post a Comment