یہ زمانہ جاہلیت میں بہت بڑی مرثیہ گو شاعرہ تھیں یہاں تک کہ ،،عکاظ،، کے میلے میں ان کے خیمے پر جو سائن بورڈ لگتا تھا اس پر ،،ارثی العرب ،، (عرب کی سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ) لکھا ہوتا تھا یہ مسلمان ہوئیں اور حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دربار خلافت میں بھی حاضر ہوئیں ان کی شاعری کا دیوان آج بھی موجود ہے اور علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خنساء کا مثل پیدا نہیں ہوا ان کے مفصل حالات علامہ ابو الفرج اصفہانی نے اپنی کتاب ،،کتاب الاغانی،، میں تحریر کئے ہیں یہ صحابیت کے شرف سے سرفراز ہیں اور بے مثال شعر گوئی کے ساتھ یہ بہت ہی بہادر بھی تھیں محرم ۱۴ھ میں جنگ قادسیہ کے خوں ریز معرکہ میں یہ اپنے چار جوان بیٹوں کے ساتھ تشریف لے گئیں جب میدان جنگ میں لڑائی کی صفیں لگ گئیں اور بہادروں نے ہتھیار سنبھال لئے تو انہوں نے اپنے بیٹوں کے سامنے یہ تقریر کی کہ۔
،،میرے پیارے بیٹو! تم اپنے ملک کو دوبھر نہ تھے نہ تم پرکوئی قحط پڑا تھا باوجود اس کے تم اپنی بوڑھی ماں کو یہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا۔ خدا کی قسم! جس طرح تم ایک ماں کی اولاد ہو اسی طرح ایک باپ کی بھی ہو میں نے کبھی تمہارے باپ سے بد دیانتی نہیں کی نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا لو جاؤ آخر تک لڑو،،۔
بیٹوں نے ماں کی تقریر سن کر جوش میں بھرے ہوئے ایک ساتھ دشمنوں پر حملہ کردیا جب نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو حضرت خنساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا کہ الٰہی عزوجل! تو میرے بچوں کا حافظ و ناصر ہے تو ان کی مدد فرما۔
چاروں بھائیوں نے انتہائی دلیری اور جاں بازی کے ساتھ جنگ کی یہاں تک کہ چاروں اس لڑائی میں شہید ہوگئے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس واقعہ سے بے حد متاثر ہوئے اور ان چاروں بیٹوں کی تنخواہیں ان کی ماں حضرت خنساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو عطا فرمانے لگے ۔
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الخاء ۳۳۵۱،خنساء بنت عمرو السلمیۃج۴،ص۳۸۷)
تبصرہ:۔خواتین اسلام! خدا کے لئے حضرت خنساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا دل اپنے سینوں میں پیدا کرو اور اسلام پر اپنے بیٹوں کو قربان کر دینے کا سبق اس دین دار اور جاں نثار عورت سے سیکھو جس کے جوش اسلام و جذبہ جہاد کی یاد قیامت تک فراموش نہیں کی جاسکتی (رضی اﷲ تعالیٰ عنہا)