حضرت بی بی لُبَیْنَہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا





    یہ ایک لونڈی تھیں ابتداء اسلام ہی میں اسلام کی حقانیت کا نور انکے دل میں چمک اٹھا اور یہ اسلام کے دامن میں آگئیں کفار مکہ نے ان کو ایسی ایسی درد ناک تکلیفیں دیں کہ اگر پہاڑ بھی ان کی جگہ پر ہوتا تو شاید لرز جاتا مگر اس پیکر ایمان کے قدم نہیں ڈگمگائے خود حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب تک دامن اسلام میں نہیں آئے تھے اس لونڈی کو  اتنا مارتے تھے کہ مارتے مارتے خود تھک جاتے تھے مگر حضرت لبینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اف نہیں کرتی تھیں بلکہ نہایت ہی جرات واستقلال کے ساتھ کہتی تھیں کہ اے عمر! تم جتنا چاہو مجھ غریب کو مار لو اگر خدا کے سچے رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو خدا ضرور تم سے انتقام لے گا ۔
تبصرہ:۔حضرت لبینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی اس ایمانی تقریر کی جہانگیری تو دیکھو کہ ابھی حضرت لبینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے زخم نہیں بھرے تھے کہ اسلام کی حقانیت نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس طرح دبوچ لیا کہ وہ بے اختیار دامن اسلام میں آگئے اور زندگی بھر اپنے کئے پرپچھتاتے رہے اور حضرت لبینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جیسی غریب و مظلوم لونڈیوں کے سامنے شرم سے سر نہیں اٹھا سکتے تھے اور ان کمزوروں اور غریبوں سے معافی مانگا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جن کو یہ گرم گرم جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر وزنی پتھر رکھا ہوا دیکھ کر حقارت سے ٹھو کر مار کر گزرتے تھے تھوڑے دن نہیں گزرے کہ امیر المومنین ہوتے ہوئے اپنے تخت شاہی پر بیٹھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ سیدنا و مولانا بلال یعنی بلال تو ہمارے آقا ہیں اور بلال کی صورت کو کمال ادب اور محبت کے ساتھ دیکھ کر زبان حال سے بھرے مجمعوں میں یہ کہا کرتے تھے کہ۔

بدر اچھا ہے فلک پر نہ ہلال اچھا ہے 
چشم بینا ہو تو دونوں سے بلال اچھا ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post