یہ سردار مکہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیٹی اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بہن ہیں ان کی ماں ،،صفیہ بنت عاص،، ہیں جو امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی ہیں حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نکاح پہلے عبید اﷲ بن حجش سے ہوا تھا اور میاں بیوی دونوں اسلام قبول کر کے حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے تھے مگر حبشہ جا کر عبیداﷲبن حجش نصرانی ہو گیا اور عیسائیوں کی صحبت میں شراب پیتے پیتے مرگیا لیکن ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے ایمان پر قائم رہیں اور بڑی بہادری کے ساتھ مصائب و مشکلات کا مقابلہ کرتی رہیں جب حضور اکرم صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو ان کے حال کی خبر ہوئی تو قلب نازک پر بے حد صدمہ گزرا اور آپ نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ان کی دلجوئی کے لئے حبشہ بھیجا اور نجاشی بادشاہ حبشہ کے نام خط بھیجا کہ تم میرے وکیل بن کر حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ میرا نکاح کر دو نجاشی بادشاہ نے اپنی لونڈی ،،ابرہہ،، کے ذریعہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا پیغام حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا جب حضرت بی بی ام حبیبیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے یہ خوشخبری کا پیام سنا تو خوش ہو کر ابرہہ لونڈی کو انعام کے طور پر اپنا زیور اتار کر دے دیا پھر اپنے ماموں زاد بھائی حضرت خالد بن سعید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنے نکاح کا وکیل بنا کر نجاشی بادشاہ کے پاس بھیج دیا اورا نہوں نے بہت سے مہاجرین کو جمع کرکے حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ کر دیا اور پنے پاس سے مہر بھی ادا کر دیا اور پھر پورے اعزاز کے ساتھ حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بھیج دیا اور یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مقدس بیوی اور تمام مسلمانوں کی ماں بن کر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے خانہ نبوت میں رہنے لگیں یہ سخاوت و شجاعت دین داری اور امانت و دیانت کے ساتھ بہت ہی قوی ایمان والی تھیں ایک مرتبہ ان کے باپ ابو سفیان جو ابھی کافر تھے مدینہ میں ان کے گھر آئے اور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے بستر پر بیٹھ گئے حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ذرا بھی باپ کی پروا نہیں کی اور باپ کو بستر سے اٹھادیا اور کہا کہ میں ہرگز یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ ایک ناپاک مشرک رسول صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے اس پاک بستر پر بیٹھے اسی طرح ان کے جوش ایمانی اور جذبہ اسلامی کے واقعات عجیب و غریب ہیں جو تاریخوں میں لکھے ہوئے ہیں بہت ہی دین دار اور پاکیزہ عورت تھیں بہت سی حدیثیں بھی یاد تھیں اور انتہائی عبادت گزار اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بے انتہا خدمت گزار اور وفادار بیوی تھیں ۴۴ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اور جنت البقیع کے قبر ستان میں دوسری ازواج مطہرات کے خطیرہ میں مدفون ہوئیں۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۴۰۳ و مدارج النبوت،ج۲،ص۴۸۱)
تبصرہ:۔اﷲاکبر!حضرت بی بی ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زندگی کتنی عبرت خیز اور تعجب انگیز ہے سردار مکہ کی شہزادی ہو کر دین کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر حبشہ کی دور دراز جگہ میں ہجرت کر کے چلی جاتی ہیں اور پنا ہ گزینوں کی ایک جھونپڑی میں رہنے لگتی ہیں۔ پھر بالکل ناگہاں یہ مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے کہ شوہر جو پردیس کی زمین میں تنہا ایک سہارا تھا۔ عیسائی ہو کر الگ تھلگ ہوگیا اور کوئی دوسرا سہارا نہ رہ گیا مگر ایسے نازک اور خطرناک وقت میں بھی ذرا بھی ان کا قدم نہیں ڈگمگایا اور پہاڑ کی طرح دین اسلام پر قائم رہیں۔ اک ذرا بھی ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا نہ انہوں نے اپنے کافر باپ کو یاد کیا نہ اپنے کافر بھائیوں بھتیجوں سے کوئی مدد طلب کی خدا پر توکل کر کے ایک نامانوس پردیس کی زمین میں پڑی خدا کی عبادت میں لگی رہیں یہاں تک کہ خدا کے فضل و کرم اور رحمت للعالمین کی رحمت نے ان کی دستگیری کی اور بالکل اچانک خداوند قدوس نے ان کو اپنے محبوب کی محبوبہ بی بی اور ساری امت کی ماں بنا دیا کہ قیامت تک ساری دنیا ان کو ام المومنین (مومنوں کی ماں) کہہ کر پکارتی رہے گی اور قیامت میں بھی ساری خدائی خدا کے اس فضل و کرم کا تماشا دیکھے گی۔
اے مسلمان عورتو! دیکھو ایمان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے اور خدا پر توکل کرنے کا پھل کتنا میٹھا اور کس قدر لذیذ ہوتا ہے؟ اور یہ تو دنیا میں اجر ملا ہے ابھی آخرت میں ان کو کیا کیا اجر ملے گا؟ اور کیسے کیسے درجات کی بادشاہی ملے گی؟ اس کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ہم لوگ تو ان درجوں اور مرتبوں کی بلندی و عظمت کو سوچ بھی نہیں سکتے اﷲ اکبر! اﷲاکبر۔
Post a Comment