حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کے ادب و احترام کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے ایمان کی جان سمجھتے تھے۔ بلکہ وہ چیزیں کہ جن کو آپ کی ذات والا سے کچھ تعلق و انتساب ہو ان کی تعظیم و توقیر کو بھی اپنے لئے لازم الایمان جانتے تھے۔ اسی طرح تابعین اور دوسرے سلف صالحین بھی آپ کے تبرکات کا بے حد احترام اور ان کا اعزاز و اکرام کرتے تھے۔ اس کی چند مثالیں ہم ذیل میں تحریر کرتے ہیں جو اہل ایمان کے لئے نہایت ہی عبرت خیز و نصیحت آموز ہیں۔
(۱)حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ٹوپی میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چند مقدس بال سلے ہوئے تھے۔ کسی جنگ میں ان کی ٹوپی سر سے گر پڑی تو آپ نے اتنا زبردست حملہ کر دیا کہ بہت سے مجاہدین شہید ہو گئے۔ آپ کے لشکر والوں نے ایک ٹوپی کے لئے اتنے شدید حملہ کو پسند نہیں کیا۔ لوگوں کا طعنہ سن کر آپ نے فرمایا کہ میں نے ٹوپی کے لئے یہ حملہ نہیں کیا تھا بلکہ میرے اس حملہ کی یہ و جہ تھی کہ میری اس ٹوپی میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے موئے مبارک ہیں مجھے یہ اندیشہ ہو گیا کہ میں ان کی برکتوں سے کہیں محروم نہ ہو جاؤں اور یہ کفار کے ہاتھوں میں نہ پہنچ جائیں اس لئے میں نے اپنی جان پر کھیل کر اس ٹوپی کو اٹھا کر ہی دم لیا۔(1) (شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۲)حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہما حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے منبر شریف پر جس جگہ آپ بیٹھتے تھے خاص اس جگہ پر اپنا ہاتھ پھرا کر اپنے چہرے پر مسح کیا کرتے تھے۔ (2) (شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۳)حضرت ابو محذورہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ جو صحابی اور مسجد حرام کے مؤذن ہیں ان کے سر کے اگلے حصہ میں بالوں کا ایک جوڑا تھا۔ جب وہ زمین پر بیٹھتے اور اس جوڑے کو کھول دیتے تو بال زمین سے لگ جاتے تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ آپ ان بالوں کو منڈواتے کیوں نہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ان بالوں کو منڈوا نہیں سکتا کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے ان بالوں کو اپنے دست مبارک سے مسح فرما دیا ہے۔(3)
(شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۴)حضرت ثابت بنانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت انس بن مالک صحابی رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے یہ فرمائش کی کہ یہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقدس بال ہے میں جب مر جاؤں توتم اس کو میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ چنانچہ میں نے ان کی وصیت کے مطابق ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور وہ اسی حالت میں دفن ہوئے۔(1) (اصابہ ترجمہ انس بن مالک)
اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز اموی خلیفہ عادل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چند موئے مبارک اور ناخن دکھا کر لوگوں سے وصیت فرمائی کہ ان تبرکات کو آپ لوگ میرے کفن میں رکھ دیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (2)(طبقات ابن سعد جلد۵ص۳۰۰)
(۵)حضرت امام شافعی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے مجھ کو چند گھوڑے عنایت فرمائے تو میں نے عرض کیا کہ ایک گھوڑا آپ اپنی سواری کے لئے رکھ لیجئے توآپ نے فرمایاکہ مجھ کوبڑی شرم آتی ہے کہ جس شہرکی زمین میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آرام فرمارہے ہیں اس شہر کی زمین کومیں اپنی سواری کے جانور کے کھروں سے روندواؤں۔(چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی زندگی بھر مدینہ ہی میں رہے مگرکبھی کسی سواری پرمدینہ منورہ میں سوار نہیں ہوئے۔ ) (3) (شفاء شریف ج۲ص۴۴)
(۶)حضرت احمد بن فضلویہ جن کا لقب زاہدہے، یہ بہت بڑے مجاہد تھے اور تیراندازی میں بہت ہی باکمال تھے۔ ان کا بیان ہے کہ جب سے مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے کمان بھی اُٹھائی ہے۔ اس وقت سے میں کمان کا اتنا ادب و احترام کرتا ہوں کہ بلا وضو کسی کمان کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ (1)
(شفاء شریف جلد ۲ ص ۴۴)
(۷)حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے سامنے کسی نے یہ کہہ دیا کہ ''مدینہ کی مٹی خراب ہے ''یہ سن کر حضرت امام موصوف نے یہ فتویٰ دیا کہ اس گستاخ کو تیس درے لگائے جائیں اوراس کو قید میں ڈال دیا جائے اور یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کو قتل کر دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہے کہ مدینہ کی مٹی اچھی نہیں ہے۔(2)(شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۸)ایک دن سقیفۂ بنی ساعدہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ رونق افروز تھے۔ آپ نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ہمیں پانی پلاؤ۔ چنانچہ حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک پیالہ میں آپ کو پانی پلایا۔ حضرت ابوحازم کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضرت سہل بن سعد کے یہاں مہمان ہوئے تو انہوں نے وہی پیالہ ہمارے واسطے نکالا اور برکت حاصل کرنے کے لئے ہم لوگوں نے اسی پیالے میں پانی پیا۔ اس پیالہ کو حضرت عمر بن عبدالعزیز اموی خلیفہ عادل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت سہل بن سعد سے مانگ کر اپنے پاس رکھ لیا۔ (3)
(صحیح مسلم جلد۲ ص۱۶۹ باب اباحۃ النبیذالذی الخ)
(۹)جب بنوحنیفہ کا وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو اس وفد میں حضرت سیار بن طلق یمامی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے اپنے پیراہن شریف کا ایک ٹکڑا عنایت فرمائیے میں اس سے اپنا دل بہلایا کروں گا۔ حضور نے ان کی درخواست منظور فرما کر ان کو پیراہن شریف کا ایک ٹکڑا دے دیا۔ ان کے پوتے محمد بن جابر کا بیان ہے کہ میرے والد کہتے تھے کہ وہ مقدس ٹکڑا برسہا برس ہمارے پاس تھا اور ہم اس کو دھوکر بغرض شفاء بیماروں کو پلایا کرتے تھے۔(1) (اصابہ ترجمہ سیار بن طلق)
Post a Comment