ابن تیمیہ اوراس کی معنوی اولاد یعنی فرقہ وہابیہ قبر انور کی زیارت سے منع کرنے کے لئے بخاری کی اس حدیث کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَسْجِدِ الرَّسُوْلِ وَمَسْجِدِ الْاَقْصٰی.(2)
کجاوے نہ باندھے جائیں مگر تین ہی مسجدوں یعنی مسجد حرام و مسجد رسول و مسجد اقصیٰ کی طرف۔ (بخاری جلد۱ ص۱۵۸ باب فضل الصلوٰۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ)
اس حدیث کا سیدھا سادہ مطلب جس کو تمام شراح حدیث نے سمجھا ہے یہی ہے کہ تمام دنیامیں تین ہی مسجدیں یعنی مسجدحرام،مسجدرسول،مسجداقصیٰ ایسی مساجد ہیں جن کو تمام دنیا کی مسجدوں پر اجروثواب کے معاملہ میں ایک خاص فضیلت حاصل ہے۔ لہٰذا ان تین مسجدوں کی طرف کجاوے باندھ کر دور دور سے سفر کرکے جانا چاہیے لیکن ان تین مسجدوں کے سوا چونکہ دنیا بھر کی تمام مسجدیں اجروثواب کے معاملہ میں برابر ہیں۔
اس لئے ان تین مسجدوں کے سوا کسی دوسری مسجد کی طرف کجاوے باندھ کر دور دور سے سفر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس حدیث کو مشاہدہ مقابر کی طرف سفر کرنے یا نہ کرنے سے تو کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگر اس بات کو عالموں کی زبان میں سمجھنا ہو تو یوں سمجھئے کہ اس حدیث میں اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ مستثنیٰ مفرغ ہے اور'' مستثنیٰ مفرغ'' میں ''مستثنیٰ منہ'' ہمیشہ وہی مقدر مانا جائے گاجو مستثنیٰ کی نوع ہو مثلاً''مَا جَاءَ نِیْ اِلَّا زَیْدٌ''میں لفظ جِسْمٌ یا حَیْوَانٌ کو مستثنیٰ منہ مقدر نہیں مانا جائے گا اور اس عبارت کا مطلب ''مَاجَاءَ نِیْ جِسْمٌ اِلَّا زَیْدٌ''یا''مَاجَاءَ نِیْ حَیْوَانٌ اِلَّا زَیْدٌ'' نہیں مانا جائے گا بلکہ اس کا مطلب یہی مانا جائے گا کہ ''مَا جَاءَ نِیْ رَجُلٌ اِلَّا زَیْدٌ'' تو اس حدیث میں بھی ''مستثنیٰ منہ'' بجز لفظ ''مسجد'' اور کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا لہٰذا حدیث کی اصل عبارت یہ ہوئی کہ ''لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلٰی مَسْجِدٍ اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ '' یعنی تین مسجدوں کے سوا کسی دوسری مسجد کی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں۔
چنانچہ اس حدیث کی بعض روایات میں یہ لفظ آیابھی ہے۔مثلاًایک روایت میں یوں آیا ہے کہ لاینبغی للمطی ان یشد رحالہ الی مسجد یبتغی فیہ الصلاۃ غیر المسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ ومسجدی ھذا(1)(قسطلانی و عمدۃ القاری) یعنی سواریوں پر کجاوے کسی مسجد کی طرف بقصد نماز نہ باندھے جائیں سوائے مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ اور میری اس مسجد کے۔
ملاحظہ فرمائیے کہ اس حدیث میں مستثنیٰ منہ ذکرکر دیا گیاہے اور وہ اِلٰی مَسْجِدٍ ہے بہر حال وہابیہ خذلہم اﷲ نے عداوت رسول میں اس حدیث کا مطلب بیان کرنے میں اتنی بڑی جہالت کا ثبوت دیا ہے کہ قیامت تک تمام اہل علم انکی اس جہالت پر ماتم کرتے رہیں گے۔
Post a Comment