حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضۂ مقدسہ کی زیارت سنت موکدہ قریب واجب ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾ (1)
اور اگریہ لوگ جس وقت کہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں آپ کے پاس آجاتے اور خداسے بخشش مانگتے اوررسول ان کے لئے بخشش کی دعا فرماتے تو یہ لوگ خدا کو بہت زیادہ بخشنے والا مہربان پاتے۔( نساء)
اس آیت میں گناہگاروں کے گناہ کی بخشش کے لئے ارحم الراحمین نے تین شرطیں لگائی ہیں اول دربار رسول میں حاضری۔ دوم استغفار۔ سوئم رسول کی دعائے مغفرت۔اور یہ حکم حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری دنیوی حیات ہی تک محدود نہیں بلکہ روضہ اقدس میں حاضری بھی یقینا دربار رسول ہی میں حاضری ہے۔ اسی لئے علماء کرام نے تصریح فرما دی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار کا یہ فیض آپ کی وفات اقدس سے منقطع نہیں ہوا ہے۔ اس لئے جو گناہگار قبر انور کے پاس حاضر ہو جائے اور وہاں خدا سے استغفار کرے اور چونکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تو اپنی قبر انور میں اپنی امت کے لئے استغفار فرماتے ہی رہتے ہیں۔ لہٰذا اس گناہگار کے لئے مغفرت کی تینوں شرطیں پائی گئیں۔ اس لئے ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کی ضرور مغفرت ہو جائے گی۔
یہی و جہ ہے کہ چاروں مذاہب کے علماء کرام نے مناسک حج و زیارت کی کتابوں میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ جو شخص بھی روضہ منورہ پر حاضری دے اس کے لئے مستحب ہے کہ اس آیت کو پڑھے اور پھر خدا سے اپنی مغفرت کی دعا مانگے۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ کے علاوہ بہت سی حدیثیں بھی روضہ منورہ کی زیارت کے فضائل میں واردہوئی ہیں جن کوعلامہ سمہودی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب''وفاء الوفا'' اور دوسرے مستند سلف صالحین علماء دین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے۔ ہم یہاں مثال کے طور پر صرف تین حدیثیں بیان کرتے ہیں۔
(۱) مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتِیْ(1)(دار قطنی و بیہقی وغیرہ)
جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔
(2) مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ وَلَمْ یَزُرْنِیْ فَقَدْ جَفَانِیْ(2)(کامل ابن عدی)
جس نے بیت اﷲ کا حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا۔
(۳) مَن زَارَ نِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ فَکَاَنَّمَا زَارَنِیْ فِیْ حَیَاتِیْ وَمَنْ مَّاتَ بِاَحَدِ الْحَرَمَیْنِ بُعِثَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (3)(دار قطنی وغیرہ)
جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری حیات میں میری زیارت کی اور جو حرمین شریفین میں سے ایک میں مر گیا وہ قیامت کے دن امن والوں کی جماعت میں اٹھایا جائیگا۔
اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مقدس زمانے سے لے کر آج تک تمام دنیا کے مسلمان قبر منور کی زیارت کرتے اور آپ کی مقدس جناب میں توسل اور استغاثہ کرتے رہے ہیں اور ان شاء اﷲ تعالیٰ قیامت تک یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا۔
چنانچہ حضرت امیر المؤمنین علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وفات اقدس کے تین دن بعد ایک اعرابی مسلمان آیا اور قبر انور پر گر کر لپٹ گیا پھر کچھ مٹی اپنے سر پر ڈال کر یوں عرض کرنے لگا کہ
یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے جو کچھ فرمایا ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا جس میں اس نے ارشاد فرمایا: وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْظَّلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ...الخ (1) تو یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)میں نے اپنی جان پر (گناہ کرکے )ظلم کیا ہے اس لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں تا کہ آپ میرے حق میں مغفرت کی دعا فرمائیں۔ اعرابی کی اس فریاد کے جواب میں قبر انور سے آواز آئی کہ ''اے اعرابی! تو بخش دیا گیا۔'' (2)(وفاء الوفا جلد۲ ص۴۱۲)
ضروری تنبیہ
ناظرین کرام یہ سن کر حیران ہوں گے کہ میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ گنبد خضرا کے اندرمواجہہ اقدس اوراس کے قریب مسجدنبوی کی دیواروں پرقبرانورکی زیارت کے فضائل کے بارے میں جو حدیثیں کندہ کی ہوئی تھیں، نجدی حکومت نے ان حدیثوں پرمسالہ لگوا کر ان کو مٹانے کی کوشش کی ہے اگرچہ اب بھی اس کے بعض حروف ظاہر ہیں۔ اسی طرح مسجد نبوی کے گنبدوں کے اندرونی حصہ میں قصیدہ بردہ شریف کے جن اشعار میں توسل واستغاثہ کے مضامین تھے ان سب کومٹادیاگیاہے۔باقی اشعارباقی گنبدوں پر اس وقت تک باقی تھے۔ میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ جولائی ۱۹۵۹ء کا واقعہ ہے اسکے بعد وہاں کیا تبدیلی ہوئی اس کا حال نئے حجاج کرام سے دریافت کرنا چاہیے۔
Post a Comment