در منقبت سیدنا ابو الحسین احمد نوری قدس سرہ الشریف کہ
وقت مسند نشینی حضرت ممدوح در ۱۲۹۷ھ عرض کردہ شد
برتر قیاس سے ہے مقامِ ابُوالحسین
برتر قیاس سے ہے مقامِ ابُوالحسین
سدرہ سے پوچھو رفعتِ بامِ ابُوالحسین
وارستہ پائے بستۂ دامِ ابُوالحسین
آزاد نار سے ہے غلامِ ابُوالحسین
خطِ سیہ میں نورِ الٰہی کی تابشیں
کیا صبحِ نُور بار ہے شامِ ابُوالحسین
ساقی سُنا دے شیشۂ بغداد کی ٹپک
مہکی ہے بُوئے گُل سے مدامِ ابُوالحسین
بُوئے کباب سوختہ آتی ہے مے کشو
چھلکا شرابِ چشت سے جامِ ابُوالحسین
گلگوں سحر کو ہے سَہَر سوزِ دل سے آنکھ
سلطانِ سہرورد ہے نامِ ابُوالحسین
کرسی نشیں ہے نقش مُراد اُن کے فیض سے
مولائے نقش بند ہے نامِ ابُوالحسین
جس نخلِ پاک میں ہیں چھیالیس ڈالیاں
اِک شاخ ان میں سے ہے بنامِ ابُوالحسین
مستوں کو اے کریم بچائے خمار سے
تا دور حشر دورئہ جامِ ابُوالحسین
اُنکے بھلے سے لاکھوں غریبوں کا ہے بھلا
یاربّ زمانہ باد بکامِ ابُوالحسین
میلا لگا ہے شانِ مسیحا کی دِید ہے
مُردے جِلا رہا ہے خرامِ ابُوالحسین
سرگشتہ مہر و مہ ہیں پَر اب تک کھلا نہیں
کس چرخ پر ہے ماہ تمامِ ابُوالحسین
اتنا پتہ ملا ہے کہ یہ چرخ چنبری
ہے ہفت پایہ زینۂ بامِ ابُوالحسین
ذرّہ کو مہر، قطرہ کو دریا کرے ابھی
گر جوش زن ہو بخشش عامِ ابُوالحسین
یحیٰی کا صَدقہ وارثِ اقبال مند پائے
سجادئہ شیوخ کرامِ ابُوالحسین
انعام لیں بہارِ جِناں تہنیت لکھیں
پھولے پھلے تو نخلِ مرامِ ابُوالحسین
اﷲ ہم بھی دیکھ لیں شہزادہ کی بہار
سُونگھے گلِ مراد مشامِ ابُوالحسین
آقا سے میرے ستھرے میاں کا ہوا ہے نام
اس اچھے ستھرے سے رہے نامِ ابُوالحسین
یاربّ وہ چاند جو فلکِ عزّ و جاہ پر
ہر سیر میں ہو گام بگامِ ابُوالحسین
آؤ تمہیں ہلال سپہر شرف دکھائیں
گردن جھکائیں بہر سلامِ ابُوالحسین
قدرت خدا کی ہے کہ طلاطم کناں اٹھی
بحر فنا سے موج دوامِ ابُوالحسین
یاربّ ہمیں بھی چاشنی اس اپنی یاد کی
جس سے ہے شکّریں لب و کامِ ابُوالحسین
ہاں طالِع رضاؔ تِری اﷲ رے یاوری
اے بندئہ جدود کرامِ ابُوالحسین
٭…٭…٭…٭…٭…٭
Post a Comment