نگری نگری گھوم کے دیکھا سارے جگ کا ایک سا حال
دکھ تو سنبھالے راج سنگھاسن‘ سکھ کا پڑا ہے جیسے کال
کھوٹ کپٹ ہیں دل میں کتنے اور چہرے پر کیسے خول
لوگ بھریں بہروپ ہزاروں‘ ہم جانیں پر سب کا حال
جب سے تجھ سے بچھڑا گوری دکھ ہے سایہ بن کر ساتھ
نرکھ بنی یہ دھرتی ساری جیون ہے اب اک جنجال
ہم تو ٹھہرے رمتے جوگی در در ڈھونڈیں سچا پیار
کیا کیا مانگیں جگ کے باسی اپنا تو بس ایک سوال
سانجھ سویرے پیپل نیچے او متوالی نار نہ آ
میری تپسّیا بھنگ نہ کردے اک دن ناگن جیسی چال
ڈوب کے ان نینوں میں دیکھوں تو کیا جانے کس کا روپ
چاندسے مکھڑے پراو گوری گھونگھٹ مت شرما کے ڈال
سید شکیل دسنوی مرحوم
Post a Comment