تفسیراشرفی ایک مطالعہ Tafseer e Ashrafi Ek Mutaliya

تفسیراشرفی ایک مطالعہ

تفسیراشرفی ایک مطالعہ Tafseer e Ashrafi Ek Mutaliya

غلام ربانی فدا



قرآن کریم اللہ رب العٰلمین کی وہ عظیم کتاب ہے جو اس نے اقوام عالم کی ہدایت ورہنمائی کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی، رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ نبوت کی حیات طیبہ قرآن کریم کی عملی تفسیر ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وفرامین بھی قرآن کریم کی تفسیر ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو معلم قرآن بنایا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفسیر قرآن کا علم اپنے صحابہ کو دیا اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس علم کو تابعین کو سکھایا اس طرح تفسیر قرآن اور علوم قرآن کا علم برابر منتقل ہوتا رہا چنانچہ ہر دور میں ربانی علماء اس علم کی تدوین وترتیب اورنشرواشاعت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ قدیم وجدید دور میں پیدا ہونے والے فتنوں اور غیر اسلامی افکار ونظریات نے اس علم کو غبار آلود کرنے کی ہر چند کوشش کی مگر یہ علم کسی بھی طرح کے فتنے سے متاثر ہوئے بغیر اپنی اصل پر قائم رہا اور قیامت تک قائم رہے گا کیوں کہ قران کریم، تفسیر قرآن اور علوم قرآن کا محافظ اللہ رب العٰلمین ہے۔ 
تفسیرقرآن کریم اور تعلیمات قرآن کریم کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے علماء حق نے اس علم کو غیر عربی زبانوں میں منتقل کرنے کا اہم کام انجام دیا، برصغیر خصوصا ًمتحدہ ہندستان میں اس کام کی ابتداء  امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے کی، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اپنے وقت کی رائج زبان فارسی میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا تاکہ عام انسانوں کا رشتہ وتعلق اللہ کی کتاب سے براہ راست قائم ہو جائے۔اس دور کے علماء سوء اور باطل پرستوں نے شاہ صاحب کی بے پناہ مخالفت کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے اور یہ انقلابی سلسلہ برابر چلتا رہا پھر اردو زبان کا دور آیا تو حضرت شاہ صاحب کے صاحبزادوں شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین رحمہما اللہ نے اردو زبان میں لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کیا اور پھر ان کے شاگردوںاور دیگر علما نے ان ہی ترجموں کو بنیاد بناکر مزید آسان زبان میں ترجمہ قرآن اور مختصر حواشی اور مفصل تفاسیر مرتب کیں۔
تفسیراشرفی ایک مطالعہ Tafseer e Ashrafi Ek Mutaliya
تفسیراشرفی ایک مطالعہ Tafseer e Ashrafi Ek Mutaliya

تفسیراشرفی یہ تفسیر ، مختصر اور جامع ترین تفسیر ہے۔ جس میں سید المفسرین رئیس المحققین حضورشیخ الاسلام والمسلمین علامہ سیدمحمدمدنی میاں اشرفی دام فیوضہم نے ہر صفحہ کے اہم مضامین کی تبویب فرمائی اور اہم مضامین کو مختصر الفاظ میں اجاگر فرمادیا۔ اکثر وہ مضامین نمایاں فرماتے ہیں جو اکثر تفاسیر میں نظر نہیں آتے، اس کے علاوہ تصوف کے اہم نکات بھی بیان فرمائے ہیں۔
۲۔ انداز محققانہ ہے۔ نہ کسی کی تقلید ناکسی سے مرعوبیت۔
۳۔ تفسیر کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ مفسر اپنی وسعت معلومات ،علوم نقلیہ وعقلیہ پر اپنی دست رسی کاپورا پورا استعمال کرتا ہے ،افکار قدیمہ وجدیدہ کا جامع ہے اور علوم شرعیہ کی پوری معلومات رکھتا ہے اور تمام طرح کی کتب تفسیر سے واقف ہے۔ 
۴۔ علم کلام وتصوف کے معارف تفسیری کا استیعاب بہتر انداز میں فرمایا ہے۔
۵۔ ادبی ولغوی نکات کو حسب موقع اجاگر فرمایا ہے اور اس کے ذریعہ آیت کریمہ کے معنی کی وضاحت فرمائی ہے۔
۶۔ دور جدید کے مسائل کی وضاحت بحسن وخوبی فرمائی ہے۔
۷۔ مذہب سلف کا دلیل وبرہان سے برترواعلی ہونا ثابت کیا ہے۔
۸۔ کارآمدنوٹس بھی شامل ہیں۔ 
۹۔ انداز بیاں دل نشیں اور وجد آفریں ہے۔
۰۱۔ تفسیر کا مطالعہ بیدار مغز قاری کو عجیب احساسِ سرور عطا کرتا ہے ،قرآن کے ندرت خیال اور حسنِ بیان کا گرویدہ کرلیتا ہے اور اس پر قرآن کی عظمت کا پورا پورا اثر ہوتا ہے۔ 
۱۱۔ اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا ، تاویلات، بے جا بحث اور کٹ حجتی سے مکمل احتراز کرنا اور مختلف آرا میں سے کسی ایک راے کے حق میں بے جا تعصب کا مظاہرہ نہ کرنا۔

بلاشبہہ مومن کا دل ہی اللہ تعالیٰ کی کتاب کی عمدہ ترین تفسیر اور اس کو سمجھنے کا کامیاب ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ جب ایک بندہ مومن تدبر و انہماک اور نہایت عاجزی اور خشوع کے ساتھ اپنے دل کی پراگندگی کو دور کرتے ہوئے انتہائی یکسوئی کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے رشد و ہدایت کی درخواست کرتے ہوئے دست بہ دُعا ہوتا ہے، اورساتھ ہی ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کو پیش نظر رکھتے ہوئے شانِ نزول کو اس کے ساتھ جوڑ دیتا ہے تو لامحالہ اس وقت وہ قرآن کریم کے حقیقی فہم کو پالیتا ہے۔ اس کے بعد اگروہ تفسیر کی کسی خاص کتاب کا مطالعہ کرتا بھی ہے تو وہ صرف اور صرف اس لیے ہوتا ہے کہ کسی مشکل لفظ کے معنی یا کسی مبہم ترکیب کو سمجھے یا پھر قرآن کے فہم اور اس کے معانی کے ادراک کے لیے اپنی علمی صلاحیت وثقاہت کو بڑھائے۔ گویا کہ قرآن فہمی کے مذکورہ طریقے کو اختیار کرنے کے بعد کتبِ تفسیر کا مطالعہ فہم قرآن میں ممدو معاون کے طور پر ہوتا ہے۔ ایسی قرآن فہمی پھر اس شخص کے لیے اس نور کی مانند بن جاتی ہے جو کہ ہمیشہ اس کے دل کی دنیا کو منور کیے رکھتا ہے، اور اس کی کرنوں کی بدولت اس کو دنیا اور آخرت دونوں میں روشنی نصیب ہوجاتی ہے۔
حضور شیخ الاسلام نے اپنے اس طرز تفسیر اور اسلوب قرآن فہمی میں دسیوں بار علماے کرام اور مفسرین عظام کی عظمت اور ان کی علمی کاوشوں کا اعتراف کیا ہے۔ ان کے اس اسلوب تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان تب ہی قرآن میں سے قیمتی جواہرات کو حاصل کرسکے گا جب وہ مختلف تفسیری بحثوں میں الجھنے کے بجاے، ان قیل و قال کو چھوڑ کر آزاد اور صاف ستھرے ذہن کے ساتھ قرآنی علوم و معارف کے بحر زخار میں غوطہ زن ہوجائے۔ اگر ہم اس اسلوب تفسیر اور قرآن فہمی کے وہ ۱صول مدنظر رکھیں جنھیں ہم عشق رسولﷺ کہتے ہیںاور پھران کے تفسیرکا مطالعہ کریں تو ان کی تفسیری کاوشوں کو ان کا عملی نمونہ پائیں گے۔
آسان اور سلیس عبارت کا استعمال ، واقعات اور قصص کے حوالے سے تحقیقی انداز بیان، مفردات قرآن کی لغوی تحقیق ، عملی زندگی سے معانی قرآن کا ربط و تعلق،آیات کے متعلق احادیث نبوی کا بیان ، آیات کریمہ سے دروس و نصیحت کا استنباط، فقہی اور فروعی مسائل میں متوازن اور معتدل منہج، اغلاط اور شبہات پر تنبیہ اور ان کا مدلل جواب، اور تحریر میں وہ ساحرانہ اثر اور مٹھاس جوکہ عقل ،جسم اور روح کو بیک وقت اپیل کرتی ہے اور جس کا پایا جانا ایک ولی اللہ اور ایک بلندوبالا روحانی مقام پر فائز شخصیت ہی کی تحریروں میں ممکن ہے۔حضور شیخ الاسلام کا اسلوبِ تفسیر ان تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post