کرناٹک میں نئی شاعری۔۔۔۔۔علیم صبا نویدی کی نئی کتاب Karnatak Me Nayi SHayeri Aleem Saba Navidi Ki Nayi Kitaab

ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی 

زبیدہ ڈگری کالج جئے نگر ،پوسٹ بکس نمبر 6
شکاری پور ،شیموگہ 577427(کرناٹک)

 کرناٹک میں نئی شاعری۔۔۔۔۔علیم صبا نویدی کی نئی کتاب

علیم صبا نویدی جنوب کے اُفق ادب پر چمکنے والا وہ ستارہ ہے جس کی چمک کا ہر کوئی قائل ہے۔ علیم صبا نویدی در اصل ایک مسلسل ادبی فتوحات اور نت نئی تخلیقی کاوش اور تدوینی سعی کا نام ہے۔ان کے کام کرنے کی رفتار کو دیکھ کر اس لئے بھی حیرت ہوتی ہے کہ ان کے عمر کے بیشتر لوگ یا تو اپنے کاموں یا کارناموں کی فہرست سازی میںمصروف ہوجاتے ہیں یا پھر دنیا کی ناقدری کے گلے کو اپنا وظیفہ بنا لیتے ہیں۔ایک علیم صبا نویدی ہیں کہ ان کی ایک کتاب پریس سے نکلتی نہیں ہے کہ دوسری اشاعت کے لئے پریس پہنچ جاتی ہے ۔فی الوقت جنوب بالخصوص تمل ناڈو اور کرناٹک میں جس تندہی سے تصنیف و تالیف کا کام علیم صبا نویدی اور حافظ کرناٹکی انجام دے رہے ہیں اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔
’’کرناٹک میں نئی شاعری‘‘ علیم صبا نویدی صاحب کی تازہ ترین کتاب ہے جس میں کرناٹک کے کئی اہم شعرا کی شاعری کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں نعت گو شعرا کو شامل کیا گیا ہے اور ان کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔حافظ کرناٹکی کی نعتیہ شاعری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے علیم صبا نویدی صاحب نے اسے بچوں اوربزرگوں  کے لئے یکساں دلچسپ قرار دیا ہے۔اور یہ بات بہت حد تک درست ہے۔یوں بھی حافظ کرناٹکی اردو کے ان نعت گو شعرا میں شامل ہیں جن کے نعتیہ شاعری کے مخزونے کا مقابلہ ہر کوئی نہیں کرسکتا ہے۔انھوں نے شمعِ ہدیٰ،’’نورِ وحدت‘‘،’’شانِ مدینہ‘‘،’’یادِ نبیؐ‘‘،’’اللہ جمیل‘‘،’’آئینۂ جمال‘‘،’’اللّھم صلّ‘‘،’’اللّھم بارک‘‘، وغیرہ بہت ساری حمد و نعت کی کتابیںاوردو زبان و ادب کو دی ہیں۔ نعتیہ شاعری کے باب میں راہی فدائی کا ذکر بھی خصوصیت سے کیا گیا ہے۔ راہی فدائی بھی قلم گوید قسم کے قابل فخر شاعر و ادیب ہیں اور کسی نہ کسی حد تک ان پر بھی بسیار نویسی کا فارمولہ صادق آتا ہے۔ ریاض احمد خمارؔ بھی اچھے نعت گو شاعر ہیں مگر اردو مرکز( اگر کوئی اردو مرکز ہے تو) سے دور ہونے کی وجہ سے نمایاں نہیں ہوسکے ہیں۔   
کتاب کا دوسرا باب کرناٹک کے رباعی گوشعرا کے مطالعے پر مشتمل ہے۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس باب میں حافظ کرناٹکی نام شامل نہیں ہے۔ جب کہ پوری اردو دنیا میں رباعیوں کا جتنا بڑا خزانہ ان کے پاس ہے اس کی مثال 

ملنی ناممکن ہے۔ اس باب میں ایک فراموش کردہ شاعر ضمیر عاقل شاہی کی رباعیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور باالخصوص ان کی خمریات سے متعلق رباعیوں کا ذکر دلچسپی سے کیا گیا ہے۔ ان کی ایک رباعی ملاحظہ فرمائیے:
واعظ جو تو کہتا ہے خبردار نہ پینا۔یہ کیوں نہیں کہتا زنہار نہ جینا
    یہ فرق بھلا میں تجھے اب کیسے بتاؤں۔پینا ہے تو جینا ہے، جوجینا ہے تو پینا
رباعیات کے باب میں مظہرمحی الدین ،راہی قریشی،سید احمد نثار، راہی فدائی اور اکرم نقاش کی رباعیوں پر اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ احساس دلایا گیا ہے کہ رباعی گوئی کے معاملے میں ریاست کرناٹک کی زمین بہت زرخیز ہے۔
علیم صبا نویدی نے اردو کے اور مغربی شاعروں کے حوالے دے کر محمود ایاز کی نظموں کوان کے مد مقابل رکھ کر مطالعے کا جو کھم نہیں اٹھایا ہے۔ نہیں تو ہمیں بھی معلوم ہوجاتا کہ آخر ایاز صاحب کی کون کون سی نظمیں ہیں جو مغربی شعرا کے کن کن معرکتہ الآرا نظموں کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہے۔ اور یہ کہ ان کی کن کن نظموں میں مغربی شعرا کے ٹکڑے بطور اقتباسات کے پیوند ہو کر کام کرتے ہیں ۔اس کے باوجود یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ انہوں نے حتی المقدور کرناٹک میں جدید اردو نظم کا ایک مبہم سا خاکہ کھینچ کر اہل فکر و دانش کو اس طرف متوجہ ہونے کی دعوت دی ہے۔حیرت ہے کہ علیم صبا نویدی نے ساجد احمد اور سلمان خمار کو نظم کے باب میں شامل تو کیا ہے مگر غزل کے باب میں فراموش کردیا ہے۔ جب کہ ان دونوں شاعروں کی پہلی پہچان غزل ہی ہے ۔
یہ تو ہوئی اس کتاب سے متعلق ایک واجبی سی رائے ،اصل چیز یہ ہے کہ علیم صبانویدی نے ’’نئی نظم کا سفر‘‘کے عنوان سے جو مقدمہ لکھا ہے وہ قابل توجہ ہے۔انہوں نے اس مقدمہ میں نئی نظم کے سفر سے متعلق کافی معلومات فراہم کی ہیں اور نظمیہ شاعری میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا بھی ذکر ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نظمیہ شاعری میں ہئیتی تجربے کے حوالے سے بھی کافی معلوماتی گفتگو کی ہے،جاننے والے لوگ جانتے ہیں کہ علیم صبا نویدی کو نت نئے تخلیقی تجربے سے کچھ زیادہ ہی لگاؤ ہے اس لئے اس مضمون نما مقدمے کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس کتاب’’یعنی کرناٹک میں نئی شاعری‘‘ کا مقدمہ بلکہ یوں کہیں کہ دیباچہ خلیل مامون نے بڑی محبت سے تحریر کیا ہے اور عنوان بھی بہت پیارا لگایا ہے ۔’’لہریں خوشبو کی‘‘۔
خلیل مامون صاحب نے لکھا ہے کہ ان دونوں نے ادب کو جز وقتی کام بنا لیا ہے۔ اس لئے علیم صبا نویدی کا دم غنیمت ہے۔کیوں کہ وہ ادب کے کل وقتی قلم کار اور فن کار ہیں ،وہ لکھتے ہیں کہ:
’’علیم صبا نویدی ایسے ادیب ہیں جو گزشتہ چھ دہائیوں سے اردو ادب کو سمجھنے اور سمجھا نے کی سعی میں مشغول و مصروف ہیں۔ علیم صبا نویدی ادب کے ایسے انتھک سپہ سالار ہیں جو گھڑی بھر کے لئے بھی ادب کو چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں، ان کے لئے اردو ادب ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے‘‘۔
اس میںکوئی شبہ نہیں ہے کہ اردو ادب کے لئے یہ ایک مثبت بات ہے کہ ابھی بھی اس کے پاس علیم صبا نویدی جیسے سپہ سالار موجود ہیں، مجھے یہ بات کہنے میں تأمل نہیں ہے کہ علیم صبا کے کاموں سے زیادہ مجھے ان کا خلوص متاثر کرتا ہے۔ ایسا مخلص انسان بہت کم دیکھنے میں آیا ہے جس نے سچ مچ اردو زبان وادب کی ترقی اور فروغ کو ہی اپنی زندگی کی ڈور بنا لیا ہے۔پروفیسر شارب رودولوی نے اپنے دیباچے میں علیم صبا نویدی کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ:
علیم صبا نویدی اردو کے بزرگ ادیبوں اور شاعروں میں ہیں اور اردو  تحقیق و تنقید میں اپنا ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ان کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے جنوبی ہند کے گمنام اور گوشہ نشین ادیبوں اور شاعروں کو ادبی تاریخ کا حصہ بنایا اور مختلف علاقوں کے ادبا و شعرا کو متعارف کرانے کا کام کیاہے۔
علیم صبا نویدی کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔وہ جس دلچسپی سے تحقیق و تدوین کے کام انجام دیتے ہیںاور ’’تاریخِ ادب اور تمل ناڈو‘‘جیسی قاموسی کتاب پیش کر کے اردو دنیا کو متحیر کر دیتے ہیں ۔اسی لگن سے نت نئے ہئیتی تجربے کر کے اپنی تخلیقی زرخیزی کا ثبوت بھی پیش کرتے رہتے ہیں اور مختلف علاقوں اور ریاستوں کے ادبا و شعرا کو بھی متعارف کرانے کا مخلصانہ کارنامہ انجام دینے میں کسی قسم کی بخالت سے کام نہیں لیتے ہیں۔پروفیسر صغیر افراہیم نے علیم صبا نویدی کے کاموں اور کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے بجا لکھا ہے کہ:
’’اردو شعروادب خصوصاً کرناٹک کی سرگرمیوں کو احاطۂ میں تحریر میں لیتے ہوئے علیم صبا نویدی نے ایک طرح کا نوعی انقلاب برپا کیا ہے۔ تحقیق و تدوین کا میدان ہویا تنقید و تجزیہ کی صورت ِ حال وہ اپنی خداداد صلاحیت سے کام لے کر نئی نئی نگارشات سے قارئین کو متعارف کراتے رہتے ہیں۔ان کی تخلیقی،تحقیقی اور تنقیدی قوت اور روانی طبع کا اندازہ ’’کرناٹک میں نئی شاعری‘‘سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے‘‘۔
تیسرا باب غزلوں پر مشتمل ہے۔اس باب میں کرناٹک کے آٹھ غزل گو شعرا کی غزلوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ ریاست کرناٹک کے حوالے سے جو شعرا غزلیہ شاعری کی نمائندگی کرتے ہیں اور جو آج کے اہم اردو غزل گو شعرا میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ان میں سے کئی شعرا کے نام شامل نہیں ہیں۔مثلاً محمود ایازِساجد حمید، خالد سعید، شائستہ یوسف اور حافظ کرناٹکی وغیرہ۔ غزل کے باب میں خمار قریشی،انور مینائی، راہی قریشی، راز امتیاز، خلیل مامون،حسنیٰ سرور، شکیل مظہری وغیرہ کا مطالعہ علیم صبا نویدی نے محبت اور دلچسپی سے پیش کیا ہے۔ ان شعرا کے ایک ایک اشعار حاضر ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ان کی غزل گوئی کس نوعیت اور معیار کی ہے۔ ویسے میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایک دو کیا آٹھ دس اشعارکے دیکھنے سے بھی کسی غزل گو شاعر کی غزلیہ شاعری کا معیار متعین کرنا ممکن نہیں ہے۔پھر بھی ایک ایک شعر تواضع کے لئے حاضر ہے:
بناکے بھیس فقیروں کا ہم بھی دیکھیں گے
گلی کا چاند دریچے سے جھانکتا کب ہے (خمار قریشی)
آنگن ہے انتظار کا صحرا بنا ہوا
دہلیز پر چراغ سسکتا ہے دیر سے (راہی قریشی)      
بیچ جنگل میں مل گیا تالاب 
چاند بن کر اُتر گئے ہم لوگ (راز امتیاز)
کوئی نہ آئے نہ دیکھنے مجھ کو
میں عجب کائنات میں گم ہوں (خلیل مامون)
موسم کے زخم کھلنے لگے شاخ شاخ پر 
پیڑوں سے ان کی سبز قبا کون لے گیا (حسنیٰ سرور)
دشتِ غربت میں جب میں تنہا تھا
کون تھا اے شکیلؔ تب دل میں (شکیل مظہری)
اس کتاب کا چوتھا باب ’’کرناٹک میں اردو نظم ‘‘کے لئے مختص ہے۔اس باب میں علیم صبا نویدی نے اختصار مگر جامعیت سے کرناٹک میں جدید نظم گو شاعروں کا مطالعہ پیش کیا ہے اور ان کی نظموں کی خصوصیت کو اجاگر کیا ہے۔ محمود ایاز کی نظموں سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے علیم صبا نویدی نے لکھا ہے کہ:
’’محمود ایاز کی نظمیں نہ صرف اردو کے پایہ کے نظم گو شعرا کی نظموں کے ساتھ رکھی جا سکتی ہے بلکہ بعض نظمیں مغربی شعرا کی معرکتہ الآراکی ہم پلّہ قرار دی جاسکتی ہے ،ان کے یہاں شبلی، کیٹس، ٹی ایس ایلٹ وغیر ہم کی نظموں کے جو اقتباسات کے رنگ جھلکتے ہیں وہ ان کے کثیر مطالعے کا اثر ہے‘‘۔
سچ یہ ہے کہ علیم صبا نویدی کے کاموں اور کارناموں سے صرف نظر کرنا اردو کے کسی قاری ،ناقد،دانشور اور طالب علم کے بس کی بات نہیں ہے۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اس طرح کے کاموں اور کارناموں کی انجام دہی میں ان کے لائق و فائق صاحب زادی ڈاکٹر جاوید ہ حبیب کا خاص رول ہے۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر جاویدہ حبیب حتیٰ المقدور اپنے والد محترم کے آرام اور ان کی صحت کا خیال رکھتی ہوں 
گی۔ان کی پوری کوشش ہوتی ہوگی والد محترم جن کاموں کے پیچھے جنون کے ساتھ لگے ہوئے ہیں وہکسی بھی طرح تکمیل کو پہنچ جائے تاکہ ان کے صحت پر کوئی اثر نہ پڑے اور اس کے لئے وہ ان تمام وسائل کا استعمال کرتی ہوں گی۔ ایسے بہت کم ادیب و شاعر ہوئے ہیں جنھیں خدا نے ایسی اولاد بخشی ہے جو اپنے والد کی ادبی میراث کو اپنی میراث سمجھتی ہو اور اس کی حفاظت کے لئے ہمہ دم اور ہمہ تن تیار رہتی ہو۔مجھے امید ہے کہ جب تک اردو زبان و ادب میں علیم صبا نویدی کا نام زندہ رہے گا ڈاکٹر جاویدہ حبیب کا نام بھی تابندہ رہے گا۔ 
٭٭٭ 

 کرناٹک میں نئی شاعری۔۔۔۔۔علیم صبا نویدی کی نئی کتاب Karnatak Me Nayi SHayeri Aleem Saba Navidi Ki Nayi Kitaab
 کرناٹک میں نئی شاعری۔۔۔۔۔علیم صبا نویدی کی نئی کتاب Karnatak Me Nayi SHayeri Aleem Saba Navidi Ki Nayi Kitaab

Post a Comment

Previous Post Next Post