Qamar Sewani Ki Rubayiat Ka Fikr Wa Fan قمر سیوانی صاحب کی رباعیات کا فکر وفن

ڈاکٹر سید غلام ربّانی ایازؔ 

E.A.C ,colony
Behind Colle ctorate
Raipur-492001(C-H)
    

         قمر سیوانی صاحب کی رباعیات کا فکر وفن 

لفظیات کا تجزیہ کرنے سے فکروفن کا بخوبی اندازہ لگ جاتا ہے۔ہندی الفاظ کے استعمال سے رباعیات کا ہندوستانی رنگ اُبھرتا ہے ۔اضافت سے تحریر میں موسیقی پیدا ہوتی ہے ۔عطف سے فارسیت کی غمازی ہوتی ہے ۔بہر کیف ان سب کے واجب استعمال سے رباعیات کی رنگا رنگی میں اضافہ ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قمرؔ سیوانی بزرگ اور کہنہ مشق، قابل احترام رباعی گو شاعر ہیں۔ انہیں زبان و بیان پر بلا کا عبور حاصل ہے اوروہ قادر الکلام شاعر بھی ہیں۔چونکہ صنف رباعی ان کا محور ہے ،ان کے فکروفن کی حمایت نامور مشاعرو نقاد ناوک حمزہ پوری کے علاوہ پروفیسر شکیل الرحمٰن ،ڈاکٹر ظفر کمالی، پروفیسر سید طلحہ رضو ی برقؔ،شین حیات، ڈاکٹر ارشد احمد جیسے قابل اعتبار ادبی شخصیتوں نے کُھلے دل سے کی ہے ۔یہی نہیں ان کے فن کے اعتراف میں کئی مشہور و معروف ادبی رسائل میں گوشے شائع ہورہے ہیں ۔دلی مبارک باد
موصوف کا عالیشان سوانحی خاکہ اور بیالیس رباعیات کا غائر مطالعہ کرنے کے بعد دل پوچھ اُٹھا کہاں تھے؟ بے شک وہ بلند مرتبہ قادر الکلام رباعی گو شاعر ہیں۔ محترم جناب محمدبدرالدین صاحب کا تخلص قمرؔ سیوانی ہے۔ان کے والد بزرگوار مرحوم جناب حافظ قمر الدین تھے۔ موصوف کی تاریخ پیدائش ۶؍ فروری ۱۹۳۸ء؁ ۔شاعری کی ابتدا ۱۹۵۵ء؁ یعنی صرف ۱۷؍ سال کی عمر میں کی ،اپنے زمانے کے بی،اے۔بی۔ایڈ ہیں اور انگریزی اُستاد کے طور ملازمت سے سبکدوش ہو کر بھی درس و تدریس میں مشغول ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے غالبؔ کی رباعیات،فراق گورکھ پوری کے علاوہ W.B.YeatsکےCloth of Heavenکا بھی گہرا مطالعہ کیا ہوگا کیونکہ ان تینوں کی جھلک موصوف کی پہلی ہی رباعی میں صاف نظر آتی ہے:۔
تاروں سے بھرا آئے کہاں سے آنچل۔آنکھوں کے لئے مانگے یہ کس سے کاجل
کنگن اُسے جذبات کا پہنا ئے کون۔غالبؔ کی طرح کون سنوارے یہ غزل
بہر حال رباعی میں صرف چار مصرعے ہوتے ہیں۔ ان کا رباعی کے مخصوص اوزان میں سے کسی ایک وزن پر ہونا لازم ہے۔ رباعی کا مخصوص بحر مہرج 
ہے۔لیکن زحافت کی وجہ سے کل چوبیس اوزان نکلتے ہیں ۔رباعی در اصل فارسی 

شعراء کی دین ہے۔ ان ہی کی ایجاد کردہ دو بیتی اور رباعی ترانہ بھی اردو میں مروج ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ رباعی کے چوبیس اوزان میں سے کس وزن پر ہے۔یہ بھی غیر ضروری ہے کہ رباعی کے چار مصرعے ہم وزن ہیں۔وزن مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ تیسرا مصرع ہم قافیہ ہو یا مختلف ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ماہرین کی رائے رباعی کے چار مصرعوں کا چوبیس اوزان میں سے کسی ایک پر ہونا ضروری ہے، لیکن عہد حاضر کے رباعی گو اس اُصول کے پابند نہیں نظر آتے۔پھر بھی رباعی کے چار مصرعے چوبیس اوزان پر ہونا درست ماناجاتا ہے۔ جس رباعی کے چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوں، اُسے رباعی ترانہ کہتے ہیں ۔رباعی کی طرح قطعہ، نظم کی وہ قسم ہے جس میں کوئی بات بیان کی جاتی ہے۔ یہ رباعی سے بالکل الگ ہے۔
موصوف کی رباعیات میں خوشنما لفظی آہنگ یا ترنم کے ساتھ رس دار معنویت بھی ہے۔ جذبہ اور احساس کی تصویر کشی کافی دلکش ہے،جو فن کارانہ کمال کا عمدہ نمونہ ہے۔ رباعی گوئی ایک تخلیقی کام ہے۔ اس کے لئے کافی سوچ و چارکی ضرورت ہوتی ۔سخن کی کاری گری شاعر کے ہنر کا مظاہرہ کرتی ہے۔ زیر نظر رباعیات میں نہ صرف شاعرکی اچھی سوچ بلکہ پر کشش شخصیت بھی اُبھر کے آتی ہے۔ شاعر کی شائستہ اور شاعرانہ زبان دل کو چھوتی ہے۔ شاعر نے غالبؔ کی طرح رباعیات کو سجانے سنوارنے میں پوری کوشش کی ہے ۔خونِ جگر سے رباعیات لکھنے میں کافی کامیاب نظر آتے ہیں۔
اس اثنا میں یہ بتانا ضروری ہے کہ فی زمانناً امجدؔحیدر آبادی کو عظیم ترین رباعی گو مانا گیا ہے ۔فراق گورکھ پوری ہندوستانی مزاج میں روپ کے نام سے اچھی رباعیاں لکھیں ۔رباعی نہایت مشکل فن ہے غزل تو کوئی بھی شاعر کہہ سکتا ہے۔لیکن صرف قدر الکلام شاعر ہی رباعی کی طرف راغب ہو تاہے۔ رباعی کا مزاج اورموضوع الگ ہے۔ اس کے لوازمات و بحوربھی پہلے سے ہی مقرر ہیں۔آج جب ہر طرف غزل کا دوردورہ ہے ۔اگر کبھی کبھار کہیں سے رباعی پڑھنے کا موقع ملتا ہے تو صحرا میں بادِ نسیم کا خوشگوار احساس ہوتا ہے ۔اُستاد شعراء کو چاہئے کے زیادہ سے زیادہ رباعیات لکھیں تاکہ صرف رباعیات کا نیا دور شروع ہو جائے۔ عہد ماضی میں ناوک حمزہ پوری، نریش کمار شادنے رباعی کو مقبول عام بنانے کی بھر پور کوشش کی تھی۔حافظ کرناٹکی آج بھی بچوں بچوں تک رباعی کو پہنچانے میں کوشاں ہیں۔    

  اب قمرؔ سیوانی کی سوچ کی طرف نگاہ ڈالیں ۔شاعر پہلے ہی اپنی بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی کا رونا روتا ہے۔ مزدور کو حقیر نہ سمجھنے کو کہتا ہے کیونکہ وہ چھوٹا ہو کر بھی بڑا کام کرتا ہے۔بہتے دریا کا پیاسا رہنا بھی عجیب بات ہے ۔جدوجہد کا اعتراف کرتا ہے۔قنوطیت سے آگے رجائیت کی طرف دیکھنے کا عادی بناتا ہے۔ ہر تاریک پہلو کے پیچھے روشن پہلو ہوتا ہے ۔کبھی شاعر اپنی خواہشات کا ذکر کرتا ہے تو کبھی ان کی پوری ہونے کی دعا بھی مانگتا ہے ۔وقت بھی مرہم کا کام کرتا ہے ۔جو گہرے سے گہرے زخم کو بھی سکھا دیتا ہے۔ ہنر مندی کا اعتراف کرتا ہے ۔عداوت بُری چیز ہے۔ اس کو دل میں جگہ نہیں دینی چاہئے ۔زندہ رہنے کے لئے خود کی حفاظت بے حد ضروری ہے ۔انسان کو ہر حال میں خوش رہنا چاہئے ،اسلاف کی پاسداری رکھنی چاہئے۔شاعر کو دنیا کی بے اعتنائی کا افسوس بھی ہے کہ اس کی اٹوٹ محنت اسے شہرت نہیں دے سکی۔ وہ اس مقام پر نہیں پہنچ پایا، جہاں اُسے ہونا چاہئے تھا۔صرف سوچنے سے آدمی کبھی بڑا ہو نہیں سکتا۔ اس کے لئے کڑی محنت درکار ہوتی ہے ۔غفلت کی نیند سے بیداری اچھی چیز ہے۔ شعور آجائے تو ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ جوش کے ساتھ ہوش کا ہونا لازم ہے۔ انگاروں پر چلنے سے جینے کا سلیقہ آتا ہے۔ بات تقدیر سے نہیں تدبیر سے بنتی ہے۔ ہر رُکاوٹ کو اُمید کی کرن دور کر سکتی ہے۔درد مند انسان ہی طوفان میں دیا جلاتا ہے۔ ہر خواب کی اپنی تعبیر ہوتی ہے۔ شک یقین کو کمزور کرتا ہے۔
اگر ہم شاعر کی فن کاری پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ قمر ؔسیوانی موصوف نے تشبیہات،استعارات اور تمثیلات کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ اس سے دلی جذبات اور قلبی واردات کی اچھی نقاشی ہو جاتی ہے ۔اس سے مشکل خیالات کو اظہار کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ زندگی کی حقیقتوں کی آئینہ داری اچھی طرح ہوتی ہے ، اس سے معنی آفرینی ،اختصار، جامعیت اور بلاغت پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا قمر ؔسیوانی نے بھی ان زیورات سے اپنے کلام کو آراستہ پیراستہ کیا ہے ۔موصوف نے اپنے فکر و نظر،جذب و اثر کی گہرائی اور گیرائی کو لطیف و جمیل انداز میں ظاہر کیا ہے۔
ان کے یہاں ہندی الفاظ کی بھرمار ہے۔مثلاً تاروں ،آنچل، کاجل، کنگن، برسات، پھول، ساون، سوچ، سمندر، ٹھوکر،سڑک، پون، رتھ، انگاروں، سانچے، سہارا، چٹان، ہتھیار، گھر،دریا،سانچہ،چکر ۔
اصناف :۔چاک،سخن،حسن،تخیل، زنجیر پا زندانِ مسائل، غمِ حالت، درد جگر،قلبِ مضطر، دامانِ گل، دورِ رواں، صبحِ حسیں، سرمایۂ غم، دستارِ خودی، غمِ دل، میدانِ عداوت ،ضمیرِ غیرت۔
تشبیہات:۔ اس وقت نظراٹھی ہے بادل کی طرح۔کانٹوں کی طرح چبھتی ہے بادل کی کرن
لڑتا ہوں ہواؤں سے چراغوں کی طرح 
ستعارات:۔
مہتاب کے دریا کا کنارا رکھئے 
سورج کی ہتھیلی پہ ستارا رکھئے
آنکھوں کی حویلی میں نظارہ رکھئے
جذبات کے چہرے کا نہ بدلے تیور
آنکھوں کی زنجیر ہے دل سوز پون
حالات کی گردش کا کرم رہنے دے
آئینے کے سینے میں جو تصویریں ہیں
ہر خار سے بوئے گل ِتر نکلے گی
عطف:۔ ارمان و تمنا کا جہاں خالی ہے 
اب کل بیالیس رباعیات میں سے چند پسندیدہ رباعیات پیش کروں گا جن کو پڑھ کر آپ بھی شاعر کی زیادہ سے زیادہ رباعیات پڑھنے کے لئے راغب ہوں گے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے زنجیر پا
زندانِ مسائل ہے سیاست کی فضا 
اس دور میں ہم جیسے غریبوں کا قمرؔ
جینے کی دعا ہو گی پھانسی کی سزا
٭
محنت سے قمرؔ نام بڑا کرتے ہیں
غربت میں بھی اکرام بڑا کرتے ہیں
مت دیکھ حقارت سے مزدوروں کو
چھوٹے ہیں مگر کام بڑا کرتے ہیں
٭
میدان میں تلوار زبان کھولتی ہے
منجدھار میں پتوار زبان کھولتی ہے
ہو تم کو اگر ذوقِ سماعت تو سنو 
تنہائی میں دیوار زباں کھولتی ہے
٭
کب کام ہوا ہے کسی رہبر سے
منزل کا پتہ مجھ کو ملا ٹھوکر سے
آئینہ قمرؔ کا م نہ آیا میرے
مشکل مری آساں ہوئی پتھر سے
٭
تحریر کے رہروکا قدم ٹوٹ گیا۔ جو عزمِ سفر کا تھا بھرم ٹوٹ گیا
 سچائی رقم کرنے کا جب وقت آیا۔ اسی وقت ہی منصف کا قلم ٹوٹ گیا
مندرجہ بالا نمونۂ کلام سے آپ کو قمرؔ سیوانی کی فکروفن کا نادازہ لگ ہپی گیا ہوگا۔ یہ بھی پتہ لگ گیا ہوگا کہ موصوف کس طرح شگفتہ مزاجی، شاعرانہ زبان اور نرم لہجے میں اپنے احساسات، جذبات،تجربات اور مشاہدات کو بڑی آسانی سے بیاں کرتے جاتے ہیں ۔ ان کے کلام کی ضرور پزیرائی ہو گی اور انہیں وہ فضلیت اور شہرت حاصل ہو گی، جس کے وہ آرزومند اور مستحق رہے ہیں۔٭٭٭ 



Post a Comment

Previous Post Next Post