قمرؔسیوانی:روایتی قدروں کا پاسدار Qamar Sewani Riwayati Qadarun Ka Paasdar

 ڈاکٹر ارشاد احمد

  قمرؔسیوانی:روایتی قدروں کا پاسدار 


 محمد بدر الدین متخلص قمرؔ اردو شاعری کی دنیا میں ممتاز، معتبر اور منفرد مقام و مرتبہ کے حامل ہیں۔ان کی شاعری تقریباً پچاس برسوں کی طویل مدت پر محیط ہے۔ انہوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن صنف ِ رباعی میں ان کی فن کارانہ صلاحیت ،رفعت و بلندی پر پہنچتی نظر آتی ہے۔انھوں نے صنف ِ رباعی میں رنگا رنگ نقش و نگار بنائے ہیں ،اپنے تجربات و مشاہدات کے جلوے بکھیر ے ہیں اور زبان و بیان کے نئے نئے تجربے کیے ہیں ۔
معمر اور کہنہ مشق شاعر قمرؔ سیوانی کا تعلق بہار کے اس خطے سے ہے جس کی پہچان علمی، ادبی اور فکری سطح پر نمایاں رہی ہے۔ جہاں ماضی میں علامہ جمیل مظہری، رضا نقوی واہیؔ، سید حسن عسکری، جوہر ؔسیوانی اورکوثرؔ سیوانی جیسی ذہین و فطین ہستیاں علم وادب کی شمع روشن کی وہیں زمانہ ٔ حال میں سید حسن عباس، ظفر کمالی، حسنی مثنیٰ، شہاب الدین ثاقب ؔ، فاروق سیوانی،ڈاکٹر ریاض احمد،صابر علی سیوانی،فہیم جوگا پوری ،غوث سیوانی اور قمرؔ سیوانی جیسی نابغۂ روزگار اور شعروادب کی دنیا میں نہایت فعال شخصیات کی موجودگی اس خطے کو رونق بخش رہی ہے ۔
بزرگ شاعر قمرؔ سیوانی کا شمار قادر الکلام اور با کمال شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کی شروعات غزل سے کی    ؎
کہتے ہیں قمرؔ جس کو غزل کا ہے اسیر
اس کے علاوہ نظم،قطعہ،حمد و نعت اور سہرا نویسی میں بھی اپنے فکر و فن کے جوہر دکھلائے ہیں۔کلام کی طباعت و حفاظت کے تئیں عام طور پر لا پرواہ اس عظیم شاعر کا پہلا مجموعہ ٔ  کلام ’’رباعیاتِ قمرؔ‘‘ ۲۰۱۱ء میں بعض خاص شاگردوں اور دوستوں کے اصرار ِپیہم پر اور تاکید ِ مسلسل کے بعد زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آیا۔ ادھر سیوان کے شعرا میں رباعی جیسی مشکل صنف کی طرف رغبت بڑھی ہے۔یکے بعد دیگرے رباعیات کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ’’رباعیاتِ قمرؔ‘‘منفرد اور خاص مقام کی حامل ہے۔
قمرؔ سیوانی کے فکروفن اور شعروسخن پر گفتگو کرنے سے قبل ان کی شخصیت کے چند دلچسپ پہلوؤں کا تذکرہ بر محل معلوم ہوتا ہے۔ ان سے میرے ذاتی تعلقات ایک عشرے سے بھی کم ہیں۔ لیکن شعروادب کے حوالے سے میں انھیں طالب علمی 
کے زمانے سے جانتا ہوں۔جب کبھی دوستوں کے درمیان اردو شاعری پر گفتگو ہوتی تو قمرؔ سیوانی صاحب کا ذکرِ خیر کسی نہ کسی حوالے سے ضرور ہوتا اور ان کی شاعری کے امتیازات و مختارات پر گھنٹوں بحث ہوتی۔ خالص ہند اسلامی تہذیب کے پروردہ قمرؔ سیوانی میں لسانی عصبیت بالکل نہیں ہے۔اردو ان کی مادری زبان ہے ۔ ہندی ذوقی زبان ہے اور انگریزی علمی زبان ہے۔ اسی زبان نے روزی روٹی بخشی۔ وہ تمام عمر بچوں کو انگریزی پڑھاتے رہے ۔ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں ۔ ضعیف العمری کے باوجود سیوان کی ادبی اور ثقافتی پروگراموں میں ان کی شرکت ناگزیرمانی جاتی ہے۔بیشتر محفلوں کی مسندِ صدارت پر جلوہ افروز رہتے ہیں۔ وہ اردو ہندی اور بھوجپوری شعرا وادبا کے درمیان یکساں طور پر مقبول ہیں۔ سرکاری سطح پر منعقد ہونے والی محفلوں میں بھی صدر یا مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیے جاتے ہیں۔ غیر مسلم ناظرین بھی انھیں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔کئی مبتدی اور منتہی شعرا کیذہنی ،شعری اور ادبی آبیاری کرنے والے قمرؔسیوانی قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کے علم بردار ہیں۔ اپنے کلام کی حفاظت کے تئیں لاپرواہ لیکن متشاعروں کو کلام تقسیم کرنے میں خاصے فراخ دل جناب قمرؔسے لاتعداد حضرات نے کسب ِ فیض کیاجن میں کئی لوگوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی‘ لیکن  انھوں نے کبھی اپنا احسان نہیں جتایا اور نہ ہی صلے کی اُمید کی۔کبھی طبیعت زیادہ بیزار ہو تی تو بس اتنا کہا کہ    ؎
تم کیسے بنے اہل قلم بھول گئے۔تھے کس کے پسِ پردہ قدم بھول گئے 
دنیا ے ظرافت میں قدم رکھتے ہی۔استاد کا فیضان ِ کرم بھول گئے
آج بھی قمرؔ سیوانی سے متعدد شعرا مشورۂ سخن کرتے ہیں۔ وہ بلا تفریق سبھوں کی مدد کرتے ہیں۔ شرافت ِنفس،نفاست ِطبع اور لہجے میں شیرینی کے باعث اپنے ہم عصروں میں منفرد و ممتاز ہیں۔ مہمان نوازی سرشت میں شامل ہے ،ان کی طبیعت قلندرانہ ہے، بقول ظفر کمالی    ؎
سیوان میں اردو کا قلندر ہے وہی۔ رہبر ہے وہی فن کا سکندر ہے وہی
پیاسے ہو سخن کے تو قمرؔ کو ڈھونڈو۔وہ پیاس بجھائے گا سمندر ہے وہی
قمرؔسیوانی نے اپنے کلام کی اشاعت کے لیے رسائل و جرائد میں ارسال کرنے سے گریز کیا ،کبھی کبھی بھیج بھی دیا تو اشاعت پر توجہ نہ دی۔ ایک بار
’’آج کل‘‘ میں ان کی غزل مع تصویر شائع ہوئی تو میں نے انھیںمبارک بادی۔ انھوں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ’’کس بات کی مبارک باد؟‘‘میں نے بتایا کہ آپ کی غزل ’’آجکل‘‘ میں شائع ہوئی ہے۔تب تک انھیںعلم نہیں تھا کہ ان کی غزل شائع ہوئی ہے  ؎
اعزاز کی توقیر کی خواہش نہ ہوئی ۔اخبار میں تصویرکی خواہش نہ ہوئی
میں مست رہا اپنی گمنامی میں۔خودکو تشہیر کی خواہش نہ ہوئی
اردو شعرا نے صنف رباعی پر کم توجہ دی ہے۔بیشتر شعرا نے غزل، قصیدہ اور مثنوی کو ہی اپنی جولان گاہ بنایا ہے ۔اردو میں ایک بھی شاعر ایسا نہیں ہے جسے مکمل طور پر رباعی کا شاعر کہہ سکیں۔ اکثر شعرا نے دوسری اصناف پر طبع آزمائی کرتے ہوئے چند رباعیاں لکھی ہیں۔قمرؔ سیوانی کا بھی شمار ایسے شعرا میں ہوتا ہے۔ 

شاعری میں اصلاح کی شروعات مولانا حالیؔ(۱۹۱۴ء ۱۸۳۷ء) سے ہوتی ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کو روایتی اور فرسودہ مضامین سے نکال کر حقیقت کا عکاس بنایا اور شعرا کے لیے چند اصول مرتب کیے جن سے اردو شاعری میں خاطر خواہ تنوع پیدا ہوا۔حالیؔ کی اتباع لا تعداد شعرا نے کی اور اردو شاعری کے دامن کو وسیع کیا،فکر کو وسعت بخشی اور حیات انسانی کا ترجمان بنایا ۔قمر ؔسیوانی کی شاعری میں مولانا حالیؔ کی تعمیری اور اصلاحی مشن کا عکس دکھا ئی دیتا ہے۔انھوں نے اپنی رباعیوں میںمذہب و اخلاق، تعلیم و تربیت، ادب‘ فلسفہ، سیاست و حکمت،پند و نصائح، ملک و ملت اور کردار و عمل،غرض کہ زندگی کے بے شمار اخلاقی پہلوؤں‘ اصلاحی نکتوں اور تعمیری کاموں کو موضوع بنایا ہے۔ان کی رباعیاں درسِ حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔انداز ناصحانہ اور وعظانہ ہے لیکن لہجے میں تلخی و کرختگی نہیں ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں    ؎
نفرت کا دیا دل میں نہ جلنے دینا۔سینے میں عداوت کو نہ پلنے دینا
تعمیر کے جذبے ہیںان جذبوں کو۔تخریب کے سوچ میں نہ ڈھلنے دینا
٭
سورج کی کڑی دھوپ میں چلتے رہیے ۔رستے میں پھسل کر بھی سنبھلتے رہیے
منزل پہ پہنچنا ہے تو لازم ہے سفر۔سختی سے نہ گھبرائیے چلتے رہیے
٭
ہوتا ہے عمل سے ہی گدا تخت نشیں۔حالات فقط سوچ سے بدلتے ہیں کہیں
تدبیر سے زرخیز بنائے رکھنا۔ہو جائے نہ بنجر تری قسمت کی زمیں
٭
شعلوں پہ مچلنے کا سلیقہ سیکھو۔انگاروں پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
جس سانچے پہ ڈٖھلنے سے سنورتی ہے حیات۔اس سانچے میں ڈھلنے کا سلیقہ سیکھو
٭
تعظیم و عقیدت کا سبق بھول گئے۔ماں باپ کی خدمت کا سبق بھول گئے
حیرت ہے قمرؔ مجھ کو کہ اس دور کے لوگ ۔اسلاف کی عظمت کا سبق بھول گئے

قمرؔسیوانی کی رباعیوں کا خاص موضوع دینی اور سماجی اصلاح ہے۔ ان کی کئی رباعیاں وحدانیت کی مختلف صفات کے بیان میں ہیں۔ ان رباعیوں میں قمرؔ سیوانی نے اللہ کے وجود، اوصاف اور اقدار کا تذکرہ فطری انداز میں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ کی ذات سے ذرّہ بھی ستارہ بن سکتا ہے اور گدا گر سلطان کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے۔وہی ذات جس نے جنگل،شجرو حجر بنایا ،برگ و بار کو وجود بخشا اور سورج کو تابناکی عطا کی۔ان کی رباعیوں میں حضور اکرمﷺ کی ذات گرامی سے عقیدت و محبت کا جذبہ بھی ملتا ہے۔ان کے جذبۂ خلوص کی وجہ سے نعتیہ رباعیوں میں ایک خاص قسم کالطف و اثر اور دلکشی پیدا ہو گئی ہے    ؎
جنگل کی زمینوں کو شجر کس نے دیا۔قسمت کے درختوں کو ثمر کس نے دیا
سورج کو دیا کس نے اُجالوں کا تاج۔افلاک کے آنگن کو قمر کس نے دیا
٭
بے فیض زمینوں سے اگادے وہ گھاس۔کونپل کو عطا کرے نمو کا احساس
سر سبز کرے شاخوں کو پتوں سے وہی۔ہر شاخِ برہنہ کو وہ پہنائے لباس
٭
ظاہر ہے بھلا کس پہ حقیقت ان کی۔قرآں سے کوئی پوچھے فضیلت ان کی 
وہ عرش پہ اللہ کے مہما ن ہوئے۔اللہ ہی جانتا ہے عظمت ان کی

قمر ؔسیوانی نے اپنی رباعیوں میں بد حال مسلم قوم کو محنت و مشقت کا درس دیا ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ قوم کی پستی اور بد حالی کی سب سے بڑی وجہ کاہلی اور تساہلی ہے۔ قوم کے نوجوان حوصلہ شکن حالات اور ناکامیوں کی وجہ سے اس قدر شکستہ دل ہو گئے ہیں کہ اب وہ محنت و مشقت سے جی چرا نے لگے ہے ہیں۔حالات نے انھیں قنوطیت کا شکار بنا دیا ہے۔ قمرؔ نے نوجوانوں کو اخلاق کو بلند کرتے ہوئے محنت سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔ انھوں نے نوجوانوں اور فرزاندانِ توحید کو محنت و مشقت، ہمت ‘حوصلہ اور جوش و استقلال کے ساتھ میدان ِعمل میں کود پڑنے کی ترغیب دی ہے۔اس کے ساتھ ہی ان کو اعلا کردار کا حامل بننے کے لیے کہا ہے    ؎
ہاں صاحب ِکردار ملو جھک کے ملو۔نفرت کے لیے پیار بنو جھک کے ملو
انسان ہو پھر ایسے اکڑتے کیوں ہو۔تم شاخ ِثمر دار بنو جھک کے ملو
٭
جذبات خدمت کے سانچے میں ڈھل۔تعمیر ملت کے سانچے میں ڈھل
اس دور کا انداز بدلنا ہے اگر۔کردار و سیرت کے سانچے میں ڈھل
غم کے عالم میں ہنستارہ ہر پل ۔اس سے ہی نکلے گامشکل کا حل
خودداری تعمیری خاکے میں رکھ۔انسانی قدروں کے سانچے میں ڈھل
چٹان سے منزل کی ڈگر نکلے گی ۔ہر خار سے بوے گل ِتر نکلے گی
آرام ملے گا تمھیں تکلیف کے بعد۔آغوشِ سیہ شب سے سحر نکلے گی
قمرؔ سیوانی کا پیشہ معلمی تھا ۔ایک لائق اور شفیق استاد کی حیثیت سے انھوں نے زندگی کا طویل ترین حصہ طلبہ و شاگردوں کو زیورِ علم و آگہی سے آراستہ کرنے میں گزارا بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ پیشہ معلمی سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی عملی زندگی میں نہایت فعال اور متحرک ہیں۔ اپنی ضعیف العمری کو فرائض کی انجام دہی میں رخنہ انداز ہونے نہیں دیتے۔ سماجی کاموں میں ہمہ وقت مصروف رہنے کی وجہ سے وہ انسان کے مسائل اور زمانے کی ستم رسانیوں سے بہ خوبی واقف ہیں۔انھیں اس بات کا پورا احساس ہے کہ موجودہ دور میں گرانی سب سے اہم انسانی مسئلہ ہے۔ غربت اور افلاس کی وجہ سے انسان پر بد حالی اور شکستہ حالی آتی ہے ۔اس کا تذکرہ قمرؔسیوانی نے اپنی رباعیوں میں فطری انداز میں کیا ہے۔ ان کا کہنا بالکل بجا ہے کہ محلوں کی تعمیر میں مزدوروں کے خون ِجگر کا استعمال ہوتا ہے    ؎
ذہنوں کو الجھاتی ہے مہنگائی۔خونِ دل پی جاتی ہے مہنگائی
مفلس کو رہنے دیتی ہے بھوکا۔محلوں کو چمکاتی ہے مہنگائی
٭
مزدور ہوں میں ہنس کے بتاؤں گا کیا۔میں بھوک نہ کھاؤں تو کھاؤں گا کیا 
فٹ پاتھ پہ سونا ہے تو سونے کے لیے۔اخبار جو اوڑھوں تو بچھاؤں گا کیا
٭
کہتی ہے چھت کہتی ہے اونچی دیوار۔کہتے ہیں ستاروں سے چمکتے مینار
ہر اینٹ میں مزدور کا خوں پیوست۔مزدور کی محنت سے ہے محلوں کا وقار
٭
بستر کی یہاں بات کہاں ہوتی ہے۔آرام میں یہ ذات کہاں ہوتی ہے
نوکر ہو تمھیں جاگتے رہنا ہوگا۔نوکر کے لیے رات کہاں ہوتی ہے


قمرؔ سیوانی نے اپنی رباعیات میں کئی شعرا وادبا کو خراجِ عقیدت پیش کیا 
ہے۔ان حضرات پر رباعی لکھتے وقت انھوں نے ان کی فطرت، عادت،ذہانت اور فکر و فن کو ملحوظ رکھا ہے۔ان رباعیوں کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقت کے عکاس ،عظمتِ رفتہ کے علم بردار اور روایت کے پاسدار ہیں۔ان میں بلا کی دلکشی اور اثر آفرینی ہے۔ ان شخصیات میں احمد جمال پاشا ،ڈاکٹر انورؔ سیوانی، کوثرؔ سیوانی ،مجنوں قطبی،ناوک حمزہ پوری اور جوہر سیوانی وغیرہ شامل ہیں۔ اخیر میں اپنی رفیق ِحیات اورعیالِ عزیز کے نام نصیحت آمیز رباعیاں لکھی ہیں جن میں اظہارِ تشکر،فرض شناسی، ازدواجی زندگی کی سچائیاں اور بیوی کے لیے شوہر کا مقام اور مرتبہ کا بیان نہایت سلیس ز بان میں لیکن با اثر طریقے سے کیا ہے     ؎
افکار کے ہونٹوں کو تبسم بخشا۔الفاظ کو اندازِ تکلم بخشا
جب زورِ قلم اس نے دکھا یا اپنا۔دریاے ظرافت کو تلاطم بخشا
٭
اک درد کی پروائی تھی انورؔ کی غزل۔الفاظ کی انگڑائی تھی انور کی غزل
آسان نہ تھا اس کی تہہ کو پانا۔گہرائی ہی گہرائی تھی انور کی غزل
٭
جذبات کی رگ رگ کوحرارت بخشی۔لفظوں کو گلابوں کی لطافت بخشی
شعروں کو سنوارا ہے جگر کے خوں سے۔کوثرؔ نے نئی غزل کو طاقت بخشی
٭
جذبات کی آیت کا ممنجم کہیے۔شہرِ غزل و نظم کا حاکم کہیے
دنیا کو سکھانا ہے رباعی کا فن۔ناوک ؔ کو رباعی کا معلم کہیے
٭
ہر ذہن پہ چھانے کا ہنر جانتا تھا۔جذبوں کو جگانے کا ہنر جانتا تھا
اشعار ظرافت کا سنا کر جوہرؔ ۔محفل کو ہنسانے کا ہنر جانتا تھا
٭
گھر بار سلیقے سے چلایا تو نے۔جو فرض میرا تھا وہ نبھایا تو نے
تا عمر مجھے فکر سے رکھا آزاد۔تھا بوجھ مرا سر پہ اٹھایا تو نے


’’رباعیاتِ قمرؔ‘‘کے مطالعے کے بعد یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ انھیں فن رباعی پر کامل عبور حاصل ہے اور وہ مختلف موضوعات پر اور مختلف پیرایے میں اظہار خیال کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔لہٰذا ان کے متعلق بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ انھوں نے نہ صرف رباعی گوئی کا حق ادا کیا بلکہ موضوع و اسلوب کے اعتبار سے اس صنف کو وسعت عطا کی ۔اس طرح موصوف کی رباعیاں اردو ادب کاقیمتی سرمایہ ہیں۔(مطبوعہ :فاروقی تنظیم پٹنہ۔ ۲۵؍ مارچ ۲۰۱۳)
٭٭٭   

Post a Comment

Previous Post Next Post