احادیث صحیحہ کا وجود صرف صحاح ستہ میں منحصر نہیں
قولہؔ : چونکہ منصوصات الخؔ :اس کتاب میں التزام اس امر کا کیا گیا ہے کہ حتیٰ الامکان احادیث و آثار کا مضمون لکھا جائے مگر کہیں کہیں بطور نکات کے اور مضامین بھی جو منقول ہی سے مستفاد ہیں بڑھائے گئے ، باقی رہی یہ بات کہ سوائے صحاح ستہ کے اور کتب حدیث سے بھی احادیث اس میں نقل کئے گئے ہیں سو اس کی وجہ یہ ہے کہ کل احادیث صحاح ستہ میں موجود و منحصر نہیں ہیں چنانچہ شیخ ابوالفیض محمد بن علی الفارسی رحمتہ اللہ علیہ نے جواہر الاصول میں لکھا ہے کہ صحیحین یعنے بخاری اور مسلم میں بلاتکرار کل چار ہزار حدیثیں ہیں اور شاہ عبدالعزیز صاحبؒ نے بستان المحدثین میں لکھا ہے کہ ابوداؤد میں چار ہزار آٹھ سو حدیثیں ہیں ۔ انتھی ، اس میں اکثر مکررات بھی ہیں اور وہ بھی ہیں جو صحیحین میں موجود ہیں ۔ علیٰ ہذا القیاس باقی کتب صحاح میں اکثر وہ حدیثیں ہیں جو ان تینوں کتابوں میں موجود ہیں ، بہرحال اگر شمار کیا جاوے تو کل صحاح ستہ میں دس بارہ ہزار حدیثوں سے زائد نہ نکلیں گے حالانکہ قسطلانی نے شرح بخاری میں امام بخاری ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ لاکھ حدیثیں صحیح مجھے یاد ہیں ۔ امام سخاوی نے فتح المغیث میں لکھا ہے : ذکر ابومحمد السرخسی راوی الصحیح ومن تبعہ ان الذی لم یخرجہ البخاری من الصحیح اکثر ممااخرجہ ۔ اور جواہر الاصول میں امام احمد بن حنبلؒکا قول نقل کیا ہے کہ ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ حدیثیں صحیح ہیں ۔
اب دیکھیئے کہ اگر صحاح ستہ ہی پر صحیح حدیثوں کا مدار رکھا جائے تو لاکھوں حدیثیں صحیح بیکار ہوئی جاتی ہیں اور تصنیف ان کتابوں کی لغو ٹہرجاتی ہے ، حالانکہ ایسے ایسے محدثین جن کاحال اظہر من الشمس ہے بے فائدہ کام کے مرتکب نہیں ہوسکتے اور اہل علم یہ تو بخوبی جانتے ہیں کہ بڑے بڑے محدثین مثل ابن حجر عسقلانی وغیرہ ہزارہا مواقع میں سوائے صحاح ستہ کے دوسرے کتب حدیث سے برابر استدلال کیا کرتے ہیں پھر ہر بات پر صحاح ستہ کی حدیث کا طلب
کرنا تکلیف مالایطاق ہے ، بلکہ یہ الزام درحقیقت امام بخاریؓ وغیرہ اکابر محدثین پر عائد ہوگا کیونکہ باوجود یہ کہ لاکھوں حدیثیں صحیح یاد رکھتے تھے کیوں جمع نہ کیں ؟ اور ہم یہ گمان کبھی نہیں کرسکتے کہ ان حضرات نے بخل کیا ہے بلکہ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر محدث کو تالیف کے وقت ایک مقصود خاص پیش نظر رہا کیا ہے جس کی تکمیل کی انہوں نے فکر کی اور یہ مقصود کسی کے پیش نظر نہ رہا کہ انحصار جمیع احادیث صحیحہ کا کیا جاوے ، ورنہ یہ دعویٰ کرتے کہ اپنی تصنیف کے سوا کل حدیثیں موضوع یا ضعیف ہیں حالانکہ امام بخاری و امام احمد بن حنبلؒ کی تقریر سے ابھی معلوم ہوچکا کہ لاکھوں صحیح حدیثوں کے وجود کا انہوں نے اعتراف کیا ہے ۔
اب دیکھیئے کہ اگر صحاح ستہ ہی پر صحیح حدیثوں کا مدار رکھا جائے تو لاکھوں حدیثیں صحیح بیکار ہوئی جاتی ہیں اور تصنیف ان کتابوں کی لغو ٹہرجاتی ہے ، حالانکہ ایسے ایسے محدثین جن کاحال اظہر من الشمس ہے بے فائدہ کام کے مرتکب نہیں ہوسکتے اور اہل علم یہ تو بخوبی جانتے ہیں کہ بڑے بڑے محدثین مثل ابن حجر عسقلانی وغیرہ ہزارہا مواقع میں سوائے صحاح ستہ کے دوسرے کتب حدیث سے برابر استدلال کیا کرتے ہیں پھر ہر بات پر صحاح ستہ کی حدیث کا طلب
کرنا تکلیف مالایطاق ہے ، بلکہ یہ الزام درحقیقت امام بخاریؓ وغیرہ اکابر محدثین پر عائد ہوگا کیونکہ باوجود یہ کہ لاکھوں حدیثیں صحیح یاد رکھتے تھے کیوں جمع نہ کیں ؟ اور ہم یہ گمان کبھی نہیں کرسکتے کہ ان حضرات نے بخل کیا ہے بلکہ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر محدث کو تالیف کے وقت ایک مقصود خاص پیش نظر رہا کیا ہے جس کی تکمیل کی انہوں نے فکر کی اور یہ مقصود کسی کے پیش نظر نہ رہا کہ انحصار جمیع احادیث صحیحہ کا کیا جاوے ، ورنہ یہ دعویٰ کرتے کہ اپنی تصنیف کے سوا کل حدیثیں موضوع یا ضعیف ہیں حالانکہ امام بخاری و امام احمد بن حنبلؒ کی تقریر سے ابھی معلوم ہوچکا کہ لاکھوں صحیح حدیثوں کے وجود کا انہوں نے اعتراف کیا ہے ۔
Post a Comment