شکر حق اس نظم میں ہیں وہ مضامیں دلپذیر
جن سے اُترے رحمت اور ہوویں دل اعدا پہ تیر
چونکہ منصوصات سے ہیں وہ تمامی مستنیر
اہل ایماں مان لیں گے ان کو دل سے ناگزیر
گرچہ ہیں اشعار یہ پر شاعری اس میں نہیں
ترجمہ منقول کا ہے خود سری اس میں نہیں
صالحین کے ذکر سے رحمت الہٰی کا نزول :
قولہ : جس سے اُترے رحمت : امام سخاوی نے مقاصد حسنہ میں سفیان بن عیینہ کا قول نقل کیا ہے کہ عندذکرالصالحین تنزل الرحمۃ جب عموماً صالحین کے ذکر کے وقت نزول رحمت ہوتو قیاس کرنا چاہئے کہ سیدالصلحاء والانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر کے وقت کس قدر جوش رحمت ہوتا ہوگا ۔ ۔
اشعار حسنہ کی تحسین و اجازت :
قولہؔ : ہوویں دل اعدا پہ تیر : کمافی روایۃ الترمذی فی شمائل النبوۃ و کذافی سننہ و النسائی والبزار کلہم من حدیث عبدالرزاق عن جعفر بن سلیمان عن ثابت عن انسؓ انہ صلی اللہ علیہ و سلم دخل مکۃ فی عمرۃ القضاء و ابن رواحۃ یمشی بین یدیہ و ہویقول :
خلوا بنی الکفار عن سبیلہ
الیوم نضربکم علی تنزیلہ
ضربا یزیل الہام عن مقیلہ
ویذہل الخلیل عن خلیلہ
فقال عمر : یا ابن رواحۃ بین یدی رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم و فی حرم اللہ تقول شعرا ! فقال لہ صلی اللہ علیہ و سلم : خل عنہ یا عمر فلہی فیھم اسرع من نضح النبل ۔
کذافی المواہب اللدنیۃ و شرحہ للزرقانی ۔
یعنے مواہب لدنیہ اور اس کی شرح زرقانی میں روایت ہے انسؓ سے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عمرہ قضاء کرنے کے لئے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اس وقت کی یہ حالت تھی کہ حضرت کے آگے آگے ابن رواحہؓ یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے ۔ جس کا یہ ترجمہ ہے : ہٹو اے اولاد کفار حضرت کے راستے سے آج ہم تم کو حضرت کی کتاب کے حکم پر وہ مار ماریں گے کہ سروں کو گردنوں سے جدا کردے اور دوست کو دوست سے بھلادے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے ابن رواحہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو اور حرم میں تم اشعار پڑھتے ہو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے عمرؓ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو کہ ان کے اشعار کفار کے دلوں میں تیر سے جلد تر سرایت کرتے ہیں ۔ انتھیٰ ۔
اور ایک حدیث میں وارد ہے کہ اس قسم کے اشعار کہنا جہاد لسانی ہے کمافی المشکٰوۃ عن کعب بن مالکؓ انہ قال للنبی صلی اﷲ علیہ و سلم ان اﷲ تعالیٰ قدانزل فی الشعرما انزل فقال النبی صلی اﷲ علیہ و سلم ان المومن یجاھد بسیفہ ولسانہ والذی نفسی بیدہ لکانما ترمونھم بہ نضح النبل ۔ رواہ فی شرح السنۃ ، و فی الاستیعاب لابن عبدالبرانہ قال : یا رسول اللہ ماذاتری فی الشعر ؟ فقال : ان المومن یجاھد بسیفہ و لسانہ ترجمہ کعبؓ بن مالک نے عرض کی یا رسول اللہؐ حق تعالیٰ نے شعر کی برائی میں آیۃ شریفہ نازل کی یعنی {الشعراء یتبعھم الغاون }مقصودیہ کہ اب شعر کہنا درست نہ ہوگا ، فرمایا کہ ایمان والے تلوار سے اور زبان سے جہاد کرتے ہیں ، قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کفار کے مقابلہ میں تمہارا شعر پڑھنا مثل تیر اندازی کے ہے ۔ ابن عبدالبر نے استیعاب میں لکھا ہے کہ کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ شعر کے باب میں کیا حکم ہے ؟ فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ بلاشک مومن اپنی تلوار اور زبان سے جہاد کرتا ہے ۔ الحاصل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فضائل اور ان مخالفین کے جوابات میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تنقیص شان کرتے ہوں اشعار کا لکھنا جہاد لسانی ہے جو تیر کا کام کرتا
ہے ۔
ہے ۔
Post a Comment