اشعار نعتیہ میں معشوقہ کا ذکر :
فائدہ : ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ اس روایت سے کئی استدلال ہوسکتے ہیں (۱) اشعار نعتیہ بطور قصاید کے لکھنا جس میں تمہید و گریز وغیرہ ہو (۲) معشوقہ جمیلہ اجنبیہ کا ذکر اور اپنی شیفتگی کاحال بیان کرنا جس کا اتباع ابن فارض اور حافظ و جامی وغیرہ شعرائے کرامؒ نے کیا ہے (۳) شعر کہنے والے کو از قسم لباس عطا کرنا جس کی تبعیت مشایخ کرام نے کی ہے (۴) لباس کو متبرک سمجھنا باوجود یہ کہ جزوبدن بھی نہیں (۵) حاصل کرنے میں تبرکات کے رغبت کرنا ، جس قدر روپیہ اس کے لئے صرف ہو اسراف نہ سمجھنا وغیر ذلک ۔ اور اسی طرح جب جعدی نے اشعار نعتیہ پڑھے حضرتؐ نے ان کو دعا دی جس کا اثر ان کی عمر بھر رہا چنانچہ مواہب لدنیہ اور اس کی شرح میں زرقانی نے لکھا ہے :
( وقال صلی اللہ علیہ و سلم للنا بغۃ الجعدی لماقال ) أی انشدہ من قصیدتہ المطولۃ نحومائتی بیت : ولا۱؎خیرفی حلم اذالِم یکن لہ + بو ادرتحمی صفوہ ان یکدرا + ولا۲؎خیر فی علم اذا لم یکن لہ + حلیم اذا ما اورد اِلأمراصدرا +
لایفضض اللہ فاک ، اُی لایسقط اللہ أسنانک ، و تقدیرہ لایسقط اللہ اسنان فیک فحذف المضاف ، قال الراوی لہذاالحدیث عن النابغۃ : فاتی علیہ اکثر من مائۃ سنۃ و کان من احسن الناس ثغراً ۔ رواہ البیقہی ، و فی روایۃ ابن ابی اسامۃ : و کان من احسن الناس ثغراو اذاسقط لہ سن نبت لہ آخری ، و کذار واہ السلفی فی الاربعین البلدانیۃ ۔ و عندابن السکن فی الصحابۃ والدار قطنی فی الموتلف و المختلف عن کرزبن اسامۃ ( فرأیت اسنان النابغۃ ابیض من البرد لدعوتہٖ صلی اللہ علیہ و سلم ) و عندالخطابی فی غریب الحدیث و المرہبی فی کتاب العلم وغیرھما من عبداللہ بن جراد فرأیت اسنان
النابغۃ کالبردالمنھل ماانقضمت لہ سن ولا انفلت ۔ و حکی فی الإصابۃ الخلاف فی سنہ ، فروی الحاکم عن النضر بن شمیل عن المنتجع الاعرابی قال : اکبر من لقیت النابغۃ الجعدی قلت لہ : کم عشت فی الجاھلیۃ ؟ قال : دارین ، قال النصر یعنی مائتی سنۃ ، و قال الاصمعی ۔ عاش مائتین و ثلاثین سنۃ ، و قال ابن قتیبۃ : مات باصبہان ولہ مائتان و عشرون سنۃ ۔ انتھیٰ ۔
ترجمہ : نابغہ جعدیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو ایک طولانی قصیدہ پڑھا جس کے شعرقریب دو سو کے تھے جب وہ ان شعروں پر پہونچے جن کا ترجمہ یہ ہے ( نہیں ہے حلم میںکچھ خیر جب نہ ہو اس کے ساتھ حدت غضب ، جو بچائے اس کے صافی کو مکدر ہونے سے ۔ اور نہیں ہے علم میں کچھ خیر جب علم والا ایسا حلیم نہ ہوکہ کوئی امر پیش آئے تو اپنے کو مہلکوں سے روکے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سن کر فرمایا کہ خدائے تعالیٰ تمہارے منہ کی مہر کو نہ توڑے یعنے تمہارے دانت نہ گریں اور منہ کی رونق نہ بگڑے ۔ راوی کہتے ہیں کہ باوجود یہ کہ سو برس سے زیادہ ان کی عمر ہوئی مگر دانت ان کے سب اچھے تھے اور جب کوئی دانت ان کا گرتا تو اس کی جگہ ایک دوسرا دانت نکل آتا ۔ کرزبن اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے نابغہ کے دانت دیکھے اولوں سے زیادہ سفید تھے ، یہ اثر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کا تھا ۔ اصابہ میں لکھا ہے کہ نابغہ کی عمر میں اختلاف ہے ، حاکم نضربن شمیل سے اور وہ منتجع اعرابی کا قول نقل کرتے ہیں کہ میرے ملاقاتیوں میں سب سے بڑی عمر والے نابغہ جعدی تھے میں نے ان سے پوچھا تھا کہ ایام جاہلیت میں تمہاری عمر کتنی گذری تھی ؟ کہا دو دار ، نضربن شمیل کہتے ہیں کہ مراد اس سے دو سو برس ہیں ۔ اور اصمعی کہتے ہیں نابغہ دو سو تیس برس زندہ رہے ۔ اور ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ انتقال ان کا اصبہان میں ہوا اور اس وقت عمر ان کی دو سو بیس برس کی تھی ۔ انتہیٰ ۔
ف : اگرچہ جس مضمون پر حضرتؐ نے خوش ہوکر دعا دی وہ ایک عام بات ہے کہ حلم کو غضب
اور علم کو حلم ہونا چاہئے لیکن چونکہ صحابہ پر یہ بات ظاہر تھی کہ جیسے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے علٰی وجہ الکمال یہ صفتیں ظہور میں آتی ہیں دوسروں سے ظہور میں آہی نہیں سکتی ہیں اس لئے شاعر نے گو صراحۃً مصداق معین نہ کیا لیکن مقصود اس سے توصیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی تھی جس کو حسب قول مشہور ’’الکنایۃ افصح من الصراحۃ ‘‘ پیرایہ حکمت میں بیان کیا ۔ پس الحاصل ان دونوں شعروں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت ایسے طور پر ہوئی کہ گویا ان صفات میں کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا شریک نہیں ۔ اور اسی طرح دعا دی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو جب انہوں نے اشعار نعتیہ پڑھنے کی اجازت چاہی ، چنانچہ مواہب لدنیہ میں ہے : ولمادخل قال العباس ۔ بن عبدالمطلب کمار واہ الطبرانی وغیرہ : أتأذن لی امتدحک ؟ قال : قل لا یفضض اللہ فاک ، فقال :
من قبلہا طبت فی الظلال و فی
مستودع حیث یخصف الورق
ثم ہبطت البلادلابشر
أنت ولا مضغۃ ولا علق
بل نطفۃ ترکب السفین و قد
الجم نسراً و اہلہ الغرق
وردت نارالخلیل مکتتما
فی صلبہ انت کیف یحترق
و انت لما ولدت اشرقت الْ
ارض و ضا ء ت بنورک الافق
فنحن فی ذلک الضیاء و فی النُّو
ر وسبل الرشاد نخترق
واضاء منک الوجود نورسنا
وفاح مسکا و نشرک العبق
وفی الخصائص الکبری اخرج الحاکم و الطبرانی عن حزیم بن اوس ؓ قال ہاجرت الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منصرفہ من تبوک فسمعت العباس یقول : یا رسول اللہ أرید أن امتدحک ، قال : قل لایفضض اللہ فاک ! فقال الخ ۔
ترجمہ : روایت کی ہے طبرانی وغیرہ نے کہ جب حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے عرض کی کیا مجھے اجازت ہے کہ مدح میں کچھ عرض کروں ؟ فرمایا حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ، کہو اللہ تعالیٰ تمہارے منہ کی مہر نہ توڑے ۔ یعنے منہ کی رونق نہ بگڑے ، پس انہوں نے ایک قصیدہ پڑھا ۔ جس کے چند اشعار مذکورہ کا ترجمہ یہ ہے : پہلے اس کے خوش تھے آپ سایوں میں اور اس ودیعت گاہ میں جہاں ملائے جاتے تھے پتے یعنے آدم و حوا علیہما السلام کے جسم پر ، اس آیۃ شریفہ کے طرف اشارہ ہے { وطفقا یخصفان علیہما من ورق الجنۃ } پھر اترے آپ شہروں میں کہ نہ بشر تھے آپ اور نہ مضغہ بلکہ نطفہ تھے کہ سوار تھے کشتی میں اس حالت میں کہ لگام دی تھی غرق نے نسر کو ( جو ایک بت تھا ) اور اس کے پوجنے والوں کو ( یعنے جب طوفان کا پانی ان کے منہ میں داخل ہوا تھا ) آپ خلیل علیہ السلام کی پشت میں مخفی ہوکر آگ میں گئے پھر کیونکر وہ جل سکتے تھے ۔ اور آپ جب پیدا ہوئے روشن ہوگئی زمیں اور روشن ہوگیا آپ کے نور سے افق ۔ ہم اسی روشنی اور نور میں ہیں اور راستے ہدایت کے طے کیا کرتے ہیں ۔ اور کل وجود آپ سے روشن ہوگیا اور مہک گیا جیسے مشک مہکتا ہے اور آپ کی خوشبو پائیدار ہے ۔ انتھیٰ ۔
الحاصل ان تمام روایات سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اشعار سے خوش ہوتے تھے ۔
قولہ : تھی یہی لم جو ممد حسان کے تھے روح الامیں : یعنی چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نظم سے خوش ہوتے تھے ، اسی وجہ سے جبرئیل علیہ السلام حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تائید کیا کرتے تھے ، چنانچہ مشکوۃ شریف میں ہے : عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول لحسان ان روح القدس لایزال یؤیدک ما نافِحت عن اللہ ورسولہ o وقالت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول ھجاھم حسان فشفی واشتفی ۔ رواہ مسلم ۔
ترجمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سنا میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ حسان رضی اللہ عنہ سے فرماتے تھے کہ جبرئیل ہمیشہ تمہاری تائید کیا کرتے ہیں جب تک تم اللہ اور رسول کے طرف سے مقابلہ کرتے ہو اور فرمایا حسان نے کفار کی ہجو کی جس سے شفادی مسلمانوں کو اور خود بھی شفاء پائی یعنے سب کی تشفی ہوئی ۔انتھیٰ ۔
الحاصل یہ مدد دینا روح الامین کا حسان بن ثابت کو اسی وجہ سے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اشعار پسند تھے اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حسانؓ کے لئے مسجد شریف میں منبر رکھواتے تاکہ اس پر اشعار نعتیہ پڑھیں ، چنانچہ اس باب میں جو احادیث ہیں قریب نقل کی جائیں گی ۔ کعب اور ابن رواحہ کو اگر یقین نہ ہوتاکہ اشعار نعتیہ کے پڑھنے کو حضرت پسند فرماتے ہیں ، حضرت کے روبرو اور حرم کعبہ میں اشعار پڑھنے پر کبھی مبادرت نہ کرتے ۔ اور علی ہذالقیاس کعب بن مالکؓ نے جو اول حضوری میں قصیدہ پڑھا اس سے یہی معلوم ہوا کہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اشعار نعتیہ کو پسند فرمانا مشہور عام تھا ورنہ ایسی حالت خطرناک میں کہ صحابہؓ ان کے قتل کے درپے تھے جس کا حال ابھی معلوم ہوا کعبؓ کبھی جرأت نہ کرسکتے ، چنانچہ ہوا بھی ایسا ہی کہ حضرت نے پسند فرمایا کہ صلہ عنایت ہوا ۔
Post a Comment