عوام میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان اوراس کے اسباب Awam Me Khudkushi Ka Barhta Huwa Rhjaan Aur Us Ke Asbaab

عوام میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان اوراس کے اسباب

مولانا حافظ سید واحد علی قادری صاحب
استاذ جامعہ نظامیہ 


یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانہ جیسے جیسے قیامت کے قریب ہوتا جارہا ہے، معاصی ونافرمانیوں میں اسی قدر اضافہ ہورہا ہے ، نت نئے فتنے رونما ہورہے ہیں، ہردن ایک نئی گمراہی اور ہر صبح ایک نیا فتنہ اُبھرکر نواع انسانی کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ، انہی فتنوں میں ایک خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے ، جو سوسائٹی کو دیمک کی طرح کھوکھلا کررہا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ دنیا دارالامتحان ہے، ہر وقت‘ ہر منزل پرآدمی کو نئے نئے مسائل ومشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، زندگی کی تمام گھڑیاں یکساں نہیں ہوتیں، ہر شخص کی زندگی میں نشیب وفراز آتا ہے، اس آزمائش وامتحان میںوہی شخص کامیاب ہے جو ہر طرح کی مشکلات کا پامردی سے مقابلہ کرے۔

مصیبت نام ہے اہلِ وفاکی آزمائش کا 
اسی میں آدمی کاحوصلہ معلوم ہوتا ہے 
(صفیؔ اورنگ آبادی)
جس خالق کائنات نے انسان کو پیدا کیا، ماں کے شکم سے لے کر زندگی کے آخری مرحلہ تک اس کی حفاظت ونگہبانی کا انتظام فرمایا،اس کو سکون و راحت کی نعمت سے سرفراز کیا، جب وہی خدا مصائب ومشکلات کے ذریعہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے تو بعض لوگ مصیبت وآزمائش میں صبر کا دامن چھوڑدیتے ہیں اور جلدبازی و بے صبری میں متاعِ حیات ہی کو خیرباد کہہ دیتے ہیں ۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تصوردیتا ہے کہ انسان اپنے جسم و جان کا خود مالک نہیں ہے بلکہ صرف امانت دار ہے، ہرامانت دارکی ذمہ داری ہے کہ وہ امانت کو بے کم وکاست صاحب امانت تک پہنچادے، انسان کاجسم اس کے خالق کی دی ہوئی امانت ہے، اس لئے اس کوخالق کی مرضی کے خلاف استعمال نہیں کرسکتا ، سورئہ نساء میں ارشاد ہے: وَلَا تَقْتُلُوْا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا۔ وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا۔ ترجمہ: اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر نہایت مہربان ہے اور جو ظلم و زیادتی کی بنیاد پر اس کا ارتکاب کربیٹھے تو عنقریب ہم اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور یہ کام اللہ پر آسان ہے۔ (سورۃ النساء: 29/30)

اگر کسی شخص کو مصیبت پہنچ جائے تو مصیبت زدہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے اس مصیبت سے نجات حاصل نہیں کرسکتا، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خودکشی کرنے والے شخص کو دوزخ میں اسی طرح کا عذاب دیا جائیگا جس طرح اس نے اپنے آپ کو قتل کیا ہو گا۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے: عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَرَدّٰی مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَہُ ، فَہْوَ فِی نَارِ جَہَنَّمَ ، یَتَرَدّٰی فِیہِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا ، وَمَنْ تَحَسّٰی سَمًّا فَقَتَلَ نَفْسَہُ ، فَسَمُّہُ فِی یَدِہِ ، یَتَحَسَّاہُ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِیدَۃٍ ، فَحَدِیدَتُہُ فِی یَدِہِ ، یَجَأُ بِہَا فِی بَطْنِہِ۔ 
ترجمہ: حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس کسی نے پہاڑ سے گر کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی طرح گرتا رہے گا، جس کسی نے زہر پی کر خودکشی کرلی تو زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں وہ ہمیشہ ہمیشہ  زہر پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے ہتھیار سے خودکشی کرلی تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ جہنم کی آگ میں مسلسل اپنا پیٹ چاک کرتا رہے گا ۔
(صحیح بخاری ، باب شرب السم والدواء بہ وبما یخاف منہ ،حدیث نمبر:5778۔ صحیح مسلم شریف ،حدیث نمبر:313)
جو لوگ عارضی مصیبتوں سے بچنے کے لئے خود کشی کرتے ہیں‘ مذکورہ حدیث پاک کے مطابق اس سے بڑی مصیبتیں ان کی منتظر رہتی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی شخص کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ پروردگار عالم کا فیصلہ ہوتا ہے ، بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ بندے فیصلۂ الہی پر راضی رہیں، اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کریں اور یقین کی کیفیت کے ساتھ یہ کہیں جو قرآن کریم میں ہدایت دی گئی ہے: قل لن یصیبنا الا ماکتب اللہ لنا ہو مولنا وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون۔ ترجمہ: آپ فرمادیجئے! ہمیں ہر گز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقررفرمائی ہے ، وہ ہمارا مالک ہے اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔ (سورۃ التوبۃ:51)

انسان کو کسی مصیبت کی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی فیصلہ ہو‘ اسے دل و جان سے قبول کرلے، اللہ تعالیٰ نے جس قدر عطا فرمایا ہے اس پر خوش رہے، اور جو اسے نہ ملا‘ اس پر غمگین نہ ہو بلکہ ہمیشہ اللہ تعالی کی رحمت سے امید رکھتے ہوئے اپنی کوششوں کو جاری رکھے۔
اسلام خودکشی کی حوصلہ شکنی کرتاہے او راسے ممنوع قرار دیتا ہے ، خودکشی وہ انتہائی اقدام ہے کہ جس کے ساتھ آدمی کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ،اللہ تعالیٰ نے بندوں کو یہ ہدایت دی کہ کوئی ہلاکت والی حرکت بھی مت اختیار کرو، کوئی ایسا عمل نہ کرو جس کے نتیجہ میں تمہیں مضرت ونقصان اٹھانا پڑے، ارشاد الہی ہے: وَلَا تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ۔ ترجمہ:اور تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (سورۃ البقرۃ:195)

خود کشی کے واقعات کا تجزیہ:

اگر خودکشی کے واقعات کاجائزہ لیا جائے تو حیرت وتعجب کی انتہا ہوجاتی ہے ،BBCکی خبر کے مطابق ساری دنیا میں سالانہ دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں، اقوام متحدہ کے تحت چلائی جانے والی عالمی تنظیم صحت (World Health Organization) نے دیگر تنظیموں کی شراکت سے اکٹوبر2012؁ء خودکشی کے واقعات کا سروے کیا، اس سروے کے مطابق دنیا بھر میں ہر دن تین ہزار (3,000) افراد خودکشی کرتے ہیں ، ہر چالیس سیکنڈمیں ایک شخص یہ انتہائی اقدام کرتا ہے پچھلے پینتالیس(45) سالوں میں خودکشی کے واقعات میں ساٹھ(60) فیصد اضافہ ہوا ہے ،خودکشی کا رجحان پہلے عمر رسیدہ افراد میں پایا جاتا تھا اور اب یہ رجحان نوجوانوں میں بھی آچکاہے۔ (بہ حوالہ Healthindia.com)

ویب سائٹ oneindia.inنے ہندوستان میں خودکشی کے واقعات سے متعلق یہ تفصیل دی ہے کہ ہندوستان میں سالانہ ایک لاکھ ،اسّی ہزار(1,80,000)افراد خودکشی کرتے ہیں جن میں اکثر یت تامل ناڈو ، آندھراپردیش ، کرناٹک ، کیرلا، مہاراشٹرا اور مغربی بنگال کے افراد کی ہے ۔
ہندوستان کی آبادی میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات شہر بنگلور میں پیش آتے ہیں، جو اعلی تعلیم یافتہ افراد کا شہر کہلاتا ہے۔ (بہ حوالہ oneindia.in) 
عمر کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو آسٹریلیا سے نشر کیا جانے والا مشہور نیوز چیانل ABC News اور ہندوستانی نیوز چیانل NDTV کی ویب سائٹس کے مطابق ہندوستان کے خودکشی کرنے والوں میں اکثر وہ نوجوان ہیں جن کی عمر پندرہ (15) تااُنتیس (29) سال کے درمیان ہے۔

خودکشی کے اسباب

انسان خودکشی کیوں کرتا ہے؟ نفسیاتی اعتبار سے اس کا سبب بیان کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ مجددِ ملت امام محمدانوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے تحریرفرمایا:
’’حالتِ یاس کا مقتضی یہی ہے کہ ایسے خیالات پیدا ہوں ،کیونکہ جو حالت آدمی پر غالب ہو تی ہے اس کے آثار کا ظہور میں آنا ضروری ہے۔ دیکھئے کسی قسم کی حالت کا جب غلبہ ہوجاتاہے تو آدمی خودکشی کر لیتا ہے حالانکہ مقتضائے فطرتِ انسانی ہے کہ اپنی جان بچانے کی تدبیریں کرے !مگر غلبۂ حال اس مقتضائے فطرت پر بھی غالب آجا تاہے‘‘۔ (مقاصد الاسلام، حصہ ہشتم، ص70)
جن اسباب ووجوہات سے آدمی مایوسی کا شکارہوجاتا ہے اور خودکشی کے بارے میں سوچتا ہے ان کی تعداد بہت ہے، ماہرینِ نفسیات نے خودکشی کے جواسباب بتلائے ہیں‘ ان میں چند کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے: مایوسی ، شکستہ دلی، احساسِ کمتری، آزردگی ، ناانصافی ، مقصد میں ناکامی، جسمانی یا زبانی بدسلوکی، رسوائی ،مہلک بیماری، نفسیاتی مرض، بھاری نقصان ، شوہر بیوی کا جھگڑا ، طلاق، والدین کی بے جا سختی ،اولاد کی بدسلوکی، دیگر گھریلوخصومتیں، قریبی رشتہ دار کی موت، زنا بالجبر، شراب نوشی ،سٹہ بازی، قانونی چارہ جوئی سے بیزاری وغیرہ۔

بعض ماہرینِ نفسیات نے مزید اسباب بتلائے ہیں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ اسباب میں بعض بنیادی اسباب ہیں اور بعض بنیادی اسباب سے رونما ہونے والی صورتحال ہے اور تمام اسباب کی بنیاد مایوسی و احساسِ کمتری ہے۔
ہندوستان میں خودکشی کے اسباب سے متعلق BBCکی ایک خبر ملاحظہ ہو:
بھارت میں خودکشی کی شرح سنگین صورت حال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (  National Crime Records Bureau) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں ہر گھنٹے میں کم سے کم سولہ افراد کی موت خودکشی کے سبب ہوتی ہے۔ این سی آر بی (NCRB) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سنہ دو ہزار گیارہ میں ایک لاکھ پینتیس ہزار لوگوں کی موت خود کشی کے سبب ہوئی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیادہ تر خودکشیوں کے اسباب خانگی مسائل، ناجائز حمل اور تاریک مستقبل کا اندیشہ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ دو ہزار گیارہ میں طلاق کے سبب خودکشیوں میں چوپن فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ناجائز حمل کے سبب اموات میں بیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال چودہ ہزار سے زیادہ کسانوں کی موت کا سبب بھی خودکشی رہی ہے۔ (BBC ،  2؍جولائی2012؁ء)
ماضی کے واقعات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف عمر کے مرد وخواتین بالخصوص جواں سال لڑکے لڑکیاں نجی‘ خانگی‘ تعلیمی‘ سماجی اور نفسیاتی مسائل میں اُلجھ کر خودکشی کا انتہائی اقدام کرتے ہیں، آج خودکشی کرنے والوںکا یہ انداز بن چکا ہے کہ وہ ہر وقت مسابقت کا جذبہ رکھتے ہیں، خوب سے خوب ترکی تلاش کرتے ہیں اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتے ہیں ۔۔

یقینا یہ جذبۂ مسابقت ‘ بہتر کارکردگی اور کامیابی کی فکر قابل ستائش ولائق تحسین ہوتی اگر اُن کی فکر میں توازن واعتدال ہوتا ، لیکن غیر متوازن طورپر ان کی فکر یہ رخ اختیار کرلیتی ہے کہ کوئی شخص اُن سے آگے بڑھ جاتا ہے تو بے چینی واضطراب میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، اگر وہ کسی اہم کام کو بحسن وخوبی انجام نہ دے سکیں تو آزردگی کے شکار ہوجاتے ہیں، اگروہ اپنے مقصد میں ناکام ہوجائیں تو شکستہ دل ہوجاتے ہیں، نفسیاتی پریشانی اور جذباتی ناآسودگی کے بھنور میں پھنس جاتے ہیں، یہی نفسیاتی کشمکش اُنہیں نامیدی کی طرف لے جاتی ہے پھر نفسیاتی مرض اُن کی طبیعت میں اور دل ودماغ کے رگ وریشے میں گھر کرجاتا ہے اور ان کے تمام خیالات پر یہاں تک کہ فطرت پر غالب آجاتا ہے او راسی نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے احساسِ کمتری وناامیدی میں مستغرق ہوکر وہ زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں اور بالآخرخودکشی کا اقدام کر بیٹھتے ہیں۔
معاشرہ میں خودکشی کے جو بڑے اسباب ہیں ،جن کی وجہ سے خودکشی کے زیادہ واقعات پیش آتے ہیں وہ یہ ہیں،امتحان میں ناکامی، عشق میں ناکامی، خاندانی جھگڑے، سسرال میں ظلم وستم ، طلاق کے واقعات ، معاشرہ میں بدنامی ، معاشی بدحالی۔ 

(1)امتحان میں ناکامی:

دولتمند خاندانوں میں والدین اپنے بچو ں کو ڈاکٹر ، انجینئر یاکوئی اعلیٰ عہدیدار بنانے کا خواب دیکھتے ہیں ،اس کے لئے وہ اپنے بچوں کو ‘ وہ چاہیں یا نہ چاہیں‘ہمہ تن مصروف کرتے ہیں ، والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ اول درجہ یا امتیازی درجہ سے کامیابی حاصل کرلے تاکہ مستقبل میں اُس کے لئے بہتر مواقع میسر آئیں ، اگر ان بچوں کو امتحانات میں توقع سے کم نمبرات ملتے ہیں، امید کے مطابق درجہ حاصل نہیں ہوتا تو کبھی امتحان میں ناکامی کے سبب سے اور کبھی محض متوقع درجہ نہ ملنے کی وجہ سے مایوس ہوجاتے ہیں، ان کی مایوسی اس وقت انتہاء تک پہنچ جاتی ہے جب وہ ناکامی یا درجہ کی کمی پر والدین کی سخت ڈانٹ ڈپٹ اور رشتہ داروں کے طعن وتشنیع سنتے ہیں ،اس کی وجہ سے وہ یاتو نتائج سے بے پرواہ ہوکر غلط راہ اختیار کرتے ہیں یا پھر اعصابی دباؤ اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے خودکشی کا اقدام کرتے ہیں۔

امتحان میں ناکامی کے سبب خودکشی کے واقعات کی روک تھام کے سلسلہ میں والدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے نونہالوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے تعلیم میں مصروف رکھیں ، اُن کی دلچسپی والے مضمون کے انتخاب کا موقع دیں، بچوں کے ساتھ شفقت ونرم خوئی کا برتاؤ کریں۔ امتحان دینے والے لڑکے‘ لڑکیوں کو چاہئے کہ محنت وجستجو سے اپنے امتحان کی تیاری کریں ، اس کے باوجود امتحان میں ناکامی ہوجائے تو پست ہمت نہ ہو ں،یہ زندگی اور موت کا امتحان نہیں بلکہ کمرِہمت باندھیں اور آئندہ امتحان میں رغبت واشتیاق سے پڑھیں اور اعلیٰ کامیابی کی امید رکھیں ، تجربہ سے یہ ثابت ہے کہ آدمی جب ناکامی کے اسباب کا جائزہ لے کر تیاری کرتا ہے تومقصد میں کامیاب وکامران ہوتا ہے۔

(2)عشق میں ناکامی:

کالج جانے والے اکثر لڑکے لڑکیوں کا مشغلہ یہ ہوچکا ہے کہ وہ اجنبی لڑکے لڑکیوں سے میل ملاپ رکھتے ہیں، کالج کے نام پر یا دوستوں سے ملاقات کے حوالہ سے بن سنور کر اور زیب وزینت اختیار کرکے گھر سے نکلتے ہیںاور کسی پارک ، باغیچہ اور گھومنے پھرنے کے مقام کا رخ کرتے ہیں، ستم بالائے ستم یہ کہ اعلیٰ تعلیم کی خاطر کالج کے لئے نکلنے والی برقعہ پوش مسلم لڑکیاں اجنبی بلکہ غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ سیاحتی مقامات پر جاتی ہیں، عثمان ساگر ،گنڈی پیٹ کے قریب قیام پذیر ایک صاحب نے ایک ٹی۔وی چیانل کے لائیوپروگرام میں اس فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عثمان ساگر کے پاس صبح سویرے برقعہ پوش لڑکیوں کی آمد کا آغاز ہوتا ہے اور صبح آٹھ بجے تک یہ لڑکیاں اپنے عاشقوں کے ساتھ ہجوم کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں، دیگر سیاحتی مقامات کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔

جوانی نہیں بن سنور نے کے دن 

جھجھکنے کی راتیں ہیں ڈرنے کے دن
یہ پابندِ اقرار ہونے کے دن 

یہ وعدہ میں پورے اترنے کے دن
(صفیؔ اورنگ آبادی)
یہ تعلقات بڑھتے ہوئے اس قدر گہرے اور پختہ ہوجاتے ہیں کہ لڑکی کے والدین یا لڑکے کے والدین کی ناراضگی کے سبب عاشق یا معشوق کی نسبت کہیں اور طے ہونے کے باعث اگرتعلقات ٹوٹ جاتے ہیں ، یا عاشق دھوکہ دیتا ہے یا معشوقہ فریب دیتی ہے توایسی صورت میں آزردگی کی انتہاء ہوتی ہے اور عشق میں ناکامی کے سبب لڑکا‘لڑکی دونوں یا دونوں میں کوئی ایک خودکشی کا اقدام کرجاتے ہیں۔
عشق میں جان بیچنے والے 

سولہ سو کے ہزار کرتے ہیں
(صفی ؔاورنگ آبادی)
پہلے تواجنبی لڑکا‘ لڑکی کا ملنا جلنا، بے محابا گفتگوکرنا‘ گناہ ہے ،جس عمل کی بنیاد ہی گناہ پر ہو‘اس میں ناکامی پر ’’خودکشی‘‘ کس قدر شرمناک‘ اخلاق سوز اور متمدن معاشرہ کے لئے کیسی باعثِ فکر حرکت ہے ، اس سلسلہ میں بطور خاص والدین اور سرپرست حضرات ہوش کے ناخن لیں، اولاد جن کو والدین سرمایۂ افتخار سمجھتے ہیں اُنہیں دینی تعلیم سے ضرور آشنا کریں، ساتھ ساتھ اُن کی کڑی نگرانی کریں ، بالخصوص لڑکیوں کی آمدورفت اور گفتگو پر نظر رکھیں ،ان کے نوٹس اور اُن کے پاس موجود چٹھیوں کی چھان بین کریں، بلاضرورت موبائیل فون نہ دیں، اگرضرورت کے تحت دیتے ہوں تو روزانہ موبائیل میں کال ہسٹری چیک کرتے رہیں، وصول شدہ اور بھیجے گئے SMSکاجائزہ لیں ،اگر والدین کی مناسب تربیت اور کڑی نگرانی ہوگی تو انشاء اللہ تعالیٰ مسلم معاشرہ میں ناجائز میل ملاپ ہی نہ ہوگا چہ جائیکہ عشق میں ناکامی کے باعث ’’خودکشی‘‘ ہو ۔

(3)خاندانی جھگڑے:

مختلف وجوہات کی بناء پر ایک خاندان دوسرے خاندان سے ایک فرد دوسرے فرد سے مال ودولت‘ زمین وجائیداد کے لئے جھگڑتا ہے ،یہ جھگڑے وخصومتیں کہیں شوہر اور بیوی کے درمیان ہوتی ہیں تو کہیں بھائی بھائی کے درمیان، کہیں بہن بھائی کے درمیان اور کہیں ماں بیٹی یا باپ بیٹے کے درمیان ہوتی ہیں‘ جوبے روزگاری ، اخلاقی تنزل او ردولت کی ہوس کا نتیجہ ہیں ،بہت سی خصومتیں بڑھتے ہوئے آپسی قتل وغارت گری یا خودکشی پر ختم ہوتے ہیں۔
15؍اپریل 2013؁ء روزنامہ اعتمادکی ایک خبر کے مطابق بیوی نے شوہر سے خواہش کی کہ اُسے ’راموجی فلم سٹی‘ کی سیر کرائی جائے لیکن شوہر نے کسی وجہ سے ا س کا مطالبہ پورا نہیں کیا جس پر برہمی او رمایوسی کے عالم میں بیوی نے اپنے گھر میں سیلنگ فیان سے لٹک کر خود کشی کرلی۔
اسی طرح 21؍اپریل 2013؁ء کے ہی روزنامہ اعتماد میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق بیوی میکہ سے واپس نہ آنے پر شوہر نے برہمی کی حالت میں اپنے مکان سے 5فٹ بڑی آہنی سلاخ لی اور مکان کے سامنے سے گذرنے والے تھری فیس کو چھوکر اپنی جان دے دی۔ گھریلو جھگڑوںکی وجہ سے خودکشی کی خبروں سے شاید ہی کسی دن کوئی روزنامہ خالی رہتا ہو۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی پریشانی ہوتی ہے لیکن ان پر یشانیوں کا حل خودکشی نہیں، گھریلومسائل سے متعلق فریقین ایک دوسرے کا تعاون کریں، زن وشوہر اپنے حقوق اداکریں ، ماں باپ اولاد پر شفقت کریں اولاد والدین کی اطاعت کریں، ہر شخص اپنی ذمہ داری نبھائے ، دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرے ، صبر وتحمل، قناعت وکفایت شعاری سے کام لے توباہمی جھگڑے تھم کر کالعدم ہوسکتے ہیں اور زندگی سرخروئی وکامرانی کے ساتھ گزر سکتی ہے۔

(4)سسرال میں ظلم وستم: 

مسلم معاشرہ میں کئی ایک گھرانے ایسے ہیں جہاں شادی کے بعد جہیز اور جوڑے کی رقم کی بنیاد پر لڑکی کو ہراساں کیا جاتاہے، اس سے مزید سامان یارقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے ،لڑکی کے والدین کی معاشی حالت مزید مطالبات کو پورا کرنے کی اجازت نہیں دیتی جس کے نتیجہ میں لڑکی خودکشی کے ذریعہ اس ظلم وزیادتی سے خلاصی حاصل کرنا چاہتی ہے، بعض خاندانوں میں سسرالی رشتہ دار لڑکی کے ساتھ زبانی یا جسمانی بدسلوکی کرتے ہیں ،اُسے کمتر جانتے اور اس کی طاقت سے زیادہ کام لیتے ہیں اور اُسے خاندان کے فرد کا درجہ نہیں دیتے،اورلڑکیاں روزانہ کے اس ظلم و ستم سے بیزار ہوکر خودکشی کا ارادہ کرلیتی ہیں۔
21؍اپریل 2013؁ء کے ہی روزنامہ اعتماد میں خبر شائع ہوئی کہ ساس ونندوںکے طعنوں سے تنگ آکر ایک مسلم خاتون نے خودکشی کرلی۔
21؍اپریل 2013؁ء روزنامہ اعتمادکاصرف صفحہ 3پر خودکشی کے چار 4واقعات کی خبریں شائع ہوئی ہیں جس سے معاشرہ میں خودکشی کا بڑھتاہوا رجحان واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں لڑکے کے والدین اور دیگر سسرالی رشتہ داروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ بہو گھر کی خادمہ یا خانساماں نہیں بلکہ افرادِ خاندان میں ایک فرد ہے، اس کے حقوق کامل طور پر اُسے دئے جائیں ، اس کے ساتھ زیادتی وبدسلوکی نہ کی جائے ،اللہ تعالیٰ نے ظلم سے منع فرمایا ہے صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے:
عن أبی ذر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیما یروی عن ربہ تبارک وتعالی إنی حرمت علی نفسی الظلم وعلی عبادی فلا تظالموا۔ ترجمہ: حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی نے فرمایا: میں نے اپنے آپ پر اور اپنے بندوں پر ظلم حرام کردیا ہے، لہذا تم ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآدب، باب تحریم الظلم )

(5)طلاق کے واقعات:

شوہر اور بیوی کے درمیان ناموافقت‘ طبیعت ومزاج کا اختلاف اور دیگر اسباب طلاق کا سبب بن جاتے ہیں ، لوگ اپنے مسائل لے کر رجوع ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر شوہر طلاق دیتا ہے اور بعض مرد تین طلاق دیتے ہیں جس کے بعد رجوع کا اختیارنہیں رہتا، ایسے حالات میںلڑکی دل برداشتہ ہوکر خودکشی کا اقدام کرتی ہے، BBCکی رپوٹ کے بموجب 2011؁ء میں طلاق کے سبب خودکشی کے واقعات میں چوپن (54)فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس سلسلہ میں مرد حضرات کو چاہئے کہ طلاق کا اقدام کرنے سے قبل اسلامی ہدایات کے مطابق عمل کریں ، بیوی نافرمان بھی ہو تو شریعت مطہرہ نے اس کو سدھارنے اور اطاعت گزار بنانے کے جو طریقے بتلائے ہیں اُسے اختیار کریں، بعد ازاں مفاہمت ومصالحت کی سعی کرے، اختلاف کی صورت میں ثالثی مقرر کریں، اسلامی ہدایات کو نظر انداز کرکے طلاق کے بارے میں ہرگز نہ سوچیں، طلاق سے متعلق سنن ابوداؤد میں حدیث پاک وارد ہے:

عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال  أبغض الحلال إلی اللہ تعالی الطلاق.ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا: حلال امور میں اللہ تعالی کے پاس سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے۔ (سنن أبی داود، کتاب الطلاق، باب فی کراہیۃ الطلاق)
لڑکی کوذہن نشین رکھنا چاہئے کہ اگر اُسے طلاق دے دی گئی تو اس کی زندگی ختم نہیں ہوئی ، شریعت اسلامیہ نے اُسے دوسرا نکاح کرنے کا حق دیا ہے ،طلاق شدہ لڑکی کے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ اسے سہارا دیں ، اُسے بے یارومددگار نہ چھوڑیں ، اس کے ساتھ اچھاسلوک کریں تاکہ وہ غمگین وبے بس ہوکر خود کشی کا ارادہ نہ کرلے۔

(6)معاشرہ میں بدنامی: 

بدکاری کے واقعات میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ، ان حیاسوز، انسانیت سوز واقعات سے نہ صرف شہر بلکہ قصبہ ودیہات بھی خالی نہیں ، آبروریزی کے واقعہ کے بعد اکثر لڑکیاں زندگی کا لطف کھودیتی ہیں اور موت کوگلے لگانے کے لئے تیار ہوجاتی ہیں۔
خودکشی کے ایسے واقعات کو روکنے کے لئے مخلوط تعلیم‘ بے پردگی‘ مردوزن کا اختلاط‘ بدنظری جیسے محرکات کاانسداد لازمی ہے ،جب تک بدکاری وزنا کے ان محرکات ودواعی پر قدغن نہ لگائی جائے تب تک نہ عصمت ریزی کے واقعات کی روک تھام ہوسکتی ہے اور نہ اس کے سبب خودکشی کے سلسلہ کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

(7)معاشی بدحالی:

خود کشی کے اسباب میں ایک بڑا سبب غربت وافلاسی ہے ، لوگ معاشی تنگی اور بنیادی ضروریات کی عدم تکمیل کے باعث خودکشی کرتے ہیں ، تجارت میں بھاری نقصان اور قرض کے بوجھ کی وجہ سے اپنی جان دینے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔
شکاگو کے انگریزی اخبار اندیا ٹریبیون(India Tribune)کے مطابق ہندوستان میں ہربارہ گھنٹہ میں ایک کسان خود کشی کرتا ہے ، 2013ء ماہ اپریل کے درمیانی ہفتہ میں مسلسل تین دن سونے کی قیمت میں کمی ہوتی گئی ، پانچ دن پہلے تیسرے دن سونے کی قمیت میں گیارہ سوساٹھ(1160)روپئے کی گراوٹ آئی ، روزنامہ اعتماد 17؍اپریل کی خبر کے بموجب ’’گوہاٹی سے موصولہ اطلاع کے مطابق سونے کے ایک بیوپاری نے بازار کے انحطاط سے پریشان ہوکر خودکشی کرلی، نعش کے قریب ایک خودکشی نوٹ پایا گیاجس پر جوہری نے کاروباری نقصان برداشت نہ کرتے ہوئے یہ انتہائی قدم اُٹھانے کااعتراف کیا‘‘۔

غربت وافلاسی میں زندگی بسرکرنے والے افراد کو چاہئے کہ ہمت وحوصلہ سے کام لیں ، حالات کا مقابلہ کریں قبل اس کے کہ قرضدار قرض کے بارتلے دب کر خود کشی کرلے صاحبِ استطاعت قرض خواہ حضرات وصولی میں نرمی یا جزوی یا کلی طور پر حسب گنجائش معافی کی شکل اختیار کریں، جیسا کہ مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے :
عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ سَمِعْتُ ٌرَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ  مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِراً فَلَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ مِثْلَہُ صَدَقَۃٌ۔قَالَ ثُمَّ سَمِعْتُہُ یَقُولُ  مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِراً فَلَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ مِثْلَیْہِ صَدَقَۃٌ.۔۔۔۔.قَالَ  لَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ صَدَقَۃٌ قَبْلَ أَنْ یَحِلَّ الدَّیْنُ فَإِذَا حَلَّ الدَّیْنُ فَأَنْظَرَہُ فَلَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ مِثْلَیْہِ صَدَقَۃ۔ترجمہ: حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جوشخص کسی مفلس قرض دارکومہلت دے گا، اسے ہرروزاتنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب حاصل ہوگاجتنی رقم اس مقروض کے ذمہ واجب ہے، انہوںنے کہا: پھر میںنے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر کوئی شخص کسی مفلس کو مہلت دے گا تواس کو ہر روز دوگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا، حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ہرروز قرض کے برابر رقم صدقہ کرنے کا ثواب‘ میعادِقرض پوری ہونے سے پہلے مہلت دینے کی جزاہے اورجب قرض کی ادائیگی کا وقت ختم ہوجائے اور وہ شخص اداکرنے پرقادرنہ ہوتوایسے وقت اگرکوئی مہلت دے گاتواسے ہردن اس کی دُوگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔ (مسندالامام احمد،حدیث بریدۃ الاسلمی ، حدیث نمبر:23748)

یہ چند اہم اسباب ذکر کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ میں خودکشی کے واقعات کثرت سے پیش آرہے ہیں ، معاشرہ کو خودکشی کی اس وباء سے نجات دلانے کے لئے سب سے پہلے اسلامی تعلیمات کو اختیار کیا جائے ، مایوسی وناامیدی کو ترک کیا جائے ، کمتری کا احساس ختم کیا جائے ، خود اعتمادی وثابت قدمی پیدا کی جائے ، ہرشخص دوسرے کا خیال رکھے ، دوسرے کے حقوق ادا کرے ، کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی نہ کرے ، عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے ، ایثار وقربانی کے جذبہ سے سرشار رہے۔ 
اگر کسی شخص پر مصیبتیں ٹوٹ پڑی ہیں اور اس کی زندگی دوبھر ہوچکی ہے تو وہ عملی طورپر انتہائی اقدام نہ کرے او رنہ موت کی تمنا کرے، البتہ ایسا شخص وہ دعا کرے جو ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائی ہے، صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَہُ ، فَإِنْ کَانَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَلْیَقُلِ اللَّہُمَّ أَحْیِنِیْ مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِیْ ، وَتَوَفَّنِیْ إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِیْ۔ ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو وہ ہرگز موت کی تمنا نہ کرے، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لئے زندگی بہتر اور خیر کی ہو اور اگر میرے لئے موت بہتر ہو تو مجھے موت دیدے۔ (صحیح بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت ، حدیث نمبر:5671)
اللہ تعالی ہم سب کو ہرمصیبت سے عافیت اور ہرفتنہ سے نجات عطافرمائے۔ صلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ والہ وصحبہ اجمعین۔
…m…

Previous Post Next Post