بیس ر کعات تراویح کے ثبوت میں احادیث وآثار Bees Rakat Taraveeh Ke Suboot Me Ahadees

بیس ر کعات تراویح کے ثبوت میں احادیث وآثار مذکو رہ کے علاوہ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ا ہل علم اکثربیس رکعات تراویح پڑھتے چلے آئے ہیں اور حضرت عمر‘حضرت علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ہی منقول ہے کہ وہ بیس ر کعات تراویح پڑھتے تھے ۔عبارت ترمذی یہ ہے  واختلف اھل العلم فی قیام رمضان فرای بعضھم ان یصلی احدیٰ واربعین رکعۃ مع الوتر وھو قول ا ھل المد ینہ
والعمل علی ھذا عند ھم با لمدینۃواکثر اھل العلم علی ماروی عن علی وعمر وغیرھما من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم عشرین رکعۃ وھو قول سفیان الثوری وابن المبارک والشافعی وقال الشافعی ادرکت ببلدنا مکۃیصلون عشرین رکعۃ۔انتھی ۔
تر جمہ ۔ اختلاف کیا علماء نے قیام رمضان (تراویح ) میں بعض مع وترکے اکتا لیس رکعات پڑھتے ہیںاور یہ قول مدینہ والوںکا ہے اسی پر ان کا عمل ہے اور اکثر علماء موافق اس روایت کے جو حضرت علی وحضرت عمر رضی اللہ عنھمااور دیگر اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی گئی ہے بیس ر کعات تراویح پڑھتے ہیں اور یہی قول سفیان ثوری، ابن المبارک اورشافعی کا ہے کہا امام شافعی نے: پایا میں نے اپنے شہر مکہ میں کہ بیس ر کعات تراویح پڑھتے ہیں ۔ اور ایسا ہی مولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حجۃاللہ البالغہ میں فرماتے ہیں ۔
 وزادت الصحابۃ ومن بعد ھم فی قیام رمضان ثلاثۃاشیاء الاجتماع لہ فی مساجد ھم وذلک لانہ یفید التیسیر علی 
خاصتھم وعامتھم واداء ہ فی اول اللیل مع القول بان صلوۃ آخر اللیل مشھودۃ وھی افضل کما نبہ عمر رضی اللہ عنہ لھذا التیسیر الذی اشرناالیہ وعددعشرین رکعۃ وذلک انھم رأوا النبی صلی اللہ علیہ وسلم شرع للمحسنین احدیٰ عشرۃرکعۃ فی جمیع السنۃ فحکموا انہ لا ینبغی ان یکون حظ المسلم فی رمضان عند قصدہ الا قتحام فی لجۃ التشبہ با لملکوت اقل من ضعفھا۔ ترجمہ۔ اور زیادہ کیا صحابہ اور تابعین نے قیام رمضان میں تین چیزیں ۔ایک مسجد وں میں جمع ہونا اور یہ ا س واسطے کیا تا کہ خاص وعام سب پر آسانی ہو جا ئے ۔ دوسری یہ کہ اول رات میں ادا کرنا باوجود اس اشارہ کیا  کہ نماز آخر شب میں مشہودبالخیر اور افضل ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جتلا دیا اور یہ بھی بسبب اسی آسانی کے ہے جس کا ہم نے اشارہ کیا ۔ تیسری بیس رکعت پڑھنا اور یہ اسواسطے کیا کہ دیکھا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ حکم دیا حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسنین کے واسطے تمام سال میں گیا رہ گیارہ رکعت ادا کرنے کا ۔ پس صحابہ نے حکم دیا کہ جو مسلمان رمضان شریف میں مجاہد ہ کا ار ادہ کرکے فرشتوں سے مشابہت پیدا کرنا چا ہے، تعداد رکعات اس کے واسطے دو چند سے تو کم نہ ہوں ۔انتہی ۔
اب بعد ثبوت مواظبت خلفائے راشدین وصحابہ سید المر سلین صلواۃ اللہ وسلامہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ہمارا مدعا ثابت ہوگیا لیکن منکرین بیس رکعات تراویح کا ہنوزایک اعتراض باقی ہے، وہ یہ ہے کہ احا دیث دیگر جن سے زمانہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی میںگیارہ رکعات تراویح کاپڑھناثابت ہو تا ہے ،وہ احادیث مذکو رئہ بالا کے معارض ہیں۔ چنانچہ سائب بن یزید سے مؤطااور مصنف ابن ابی شیبہ میں وہ روایتیں
موجود ہیں ۔ مؤطا کی روایت کے الفاظ یہ ہیں ۔عن السائب بن یزید قال امر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوماللناس باحد ی عشر رکعۃ۔ روایت ہے سائب بن یزید سے کہاحکم دیا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو کہ گیارہ رکعات تراویح لوگوں کو پڑھا ویں ۔جواب اس کا یہ ہے کہ گیا رہ رکعت تراویح کا حکم ابتدا ئے زمانۂ خلافت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ میں تھا مگر آخر زمانہ میں بیس رکعات تراویح کاپڑھنا باتفاق صحابہ قرار پایا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک اور زمانہ تابعین میں بیس رکعات تراویح پرہی عمل رہا ۔ جیسا کہ احا دیث مذکورہ اورترمذی شریف وغیرہ سے معلوم ہوا ۔اور اس تعارض کی بابت شرح مشکو ۃمیں بیہقی سے نقل کیا ہے ۔ وفی شرح المشکوۃ ٰلعلی القاری قال البیہقی روایۃ احدی عشرۃموافقۃ لروایۃعائشۃرضی اللہ عنہافی عددقیامہ صلی اللہ علیہ وسلم  فی رمضان وغیر ہ وکان عمر رضی اللہ عنہامر بھذا العدد زمانا ثم کانوا یقومون علی عھدہ بعشرین رکعۃ وکانوا یقرؤون با لمئین       وکا نوایتوکأون علی العصی۔
ترجمہ :کہا بیہقی نے گیا رہ رکعات تراویح کی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی روایت کے موافق ہے جو حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام شب کے باب میںہے خواہ رمضان میں ہو خواہ غیر رمضان میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ عرصہ تک انہیں گیارہ رکعات تراویح کا حکم دیا تھا 
پھر زمانۂ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میںبیس رکعات تراویح پڑھتے تھے اور ایک سو آیت ایک رکعت میں پڑھتے تھے اور لاٹھیوں پر سہارا پکڑتے تھے ۔ انتہی ۔ 
ارشاد الساری شرح صحیح بخاری سے مولاناسید محمد علی نے غایۃ التنقیح میں نقل کیا ہے۔وجمع البیہقی بینھما بانھم کانوا یقومون باحدیٰ عشرۃ رکعات ثم بعشرین واو تروا بثلا ث وقد عدوا ما وقع فی زمن عمررضی اللہ عنہکالاجماع۔ترجمہ ۔اور جمع کیا بیہقی نے درمیان ا ن دونوںروایتوں کے اس طور پر کہ پہلے گیارہ رکعت پڑھتے تھے پھر بیس رکعت اور تین وتر شروع کردی اور تحقیق شمار کیا ہے علماء نے اس کو (بیس رکعا ت تراویح کو ) مانند اجماع کے اور ایسا ہی محلی شرح مؤطا میں بیہقی سے نقل کیاہے ۔
اور امام ابن ہما م نے فتح القدیر  ۱؎  میں بیس رکعات کی روایت مؤطا اور بیہقی سے نقل کرکے لکھا ہے  قال النووی فی الخلاصۃ اسناد ہ صحیح وفی المؤطا روایۃ باحد یٰ عشر ۃ رکعۃ وجمع البیہقی بینہما بانہ وقع اوّلا ثم استقرالامر علی عشرین رکعۃ فانہ المتوارث۔ کہا امام نووی نے خلاصہ میں اسناد اس حدیث بیس رکعات تراویح کی صحیح ہے ۔اور مؤطا میں گیارہ رکعت کی روایت ہے ۔ اور جمع کیا بیہقی نے دونوں میں اس طرح کہ گیارہ اول پڑھیں پھر بیس رکعات کا پڑھنا قرار پایا اور یہی چلا آتا ہے غرض  ۲؎روایتًااور درایتًا صحابہ خصوصًا خلفائے راشدین یعنی آخر زمانہ خلیفہ دوم سے ثبوت بیس رکعات تراویح میں کسی محدث نے شک نہیں کیا، سوائے آثارواحادیث کے ۔عبارت ترمذی شریف وحجۃاللہ البالغہ سے پورا پورا ثبوت اس کا ہو گیا ۔ البتہ گیارہ رکعات تراویح کی نسبت جو ابتدائے زمانہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ میں پڑھی گئیں ،ابن عبد البر شرح مؤطا میں فرماتے ہیںکہ یہ وہم ہے یعنی گیارہ
رکعات تراویح حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ثابت ہی نہیں۔ کما فی الزرقانی وقال ابن عبدالبر فی شرح الموطا روی غیر مالک فی ھذاالحدیث احدوعشرون وھو الصحیح ولا اعلم احدا قال فیہ احدی عشرۃالا مالکا ویتحمّل ان یکون ذلک اوّلا ثم خفف عنھم طول القیام ونقلہم الی احد ی وعشرین رکعۃ الا ان الا غلب عندی ان قولہ احدی عشرۃ وھم۔
کہا ابن عبد البر نے شرح موطا میں مالک کے سوا  اوروں نے اس حدیث میں اکیس رکعتیں روایت کی ہیں اور میں نہیں جانتا مالک کے سوا کسی کو جس نے گیا رہ رکعت روایت کی ہو (یعنی حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ) اور ہو سکتاہے گیارہ رکعت اول ہوں پھر  واسطے تخفیف قیام کے اکیس کردی ہو ں مگر غالب میرے نزدیک گیارہ رکعات کی روایت وہم ہے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post