بلاواسطہ درود شریف کا سماعت فرمانا
جب اتنی حدیثوں سے یہ بات ثابت ہے کہ بعض فرشتوں کے پاس قرب و بعد یکساں ہے اور آنِ واحد میں ہر شخص کی آواز برابر سنتے ہیں تو اب اہلِ ایمان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے احاطہ علمی میں شک کا کیا موقع ہوگا ۔ اس لئے مبنی شک و انکار کا یہی تھا کہ اس میں شرک فی الصفت لازم آتا ہے ۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خدام میں یہ صفت موجود ہے تو چاہئے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میں بطریق اولیٰ اور بوجہ اتم ہو ، چنانچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تصریح فرمادی ۔ کمافی الطبرانی
’’لیس من عبد یصلی علّی اِلابلغنی صوتہ ، قلنا : یا رسولؐ اللہ وبعد وفاتک ؟ قال : و بعد وفاتی ۔ إن اللہ حرم علی الأرض أن تاکل اجساد الأنبیاء ‘‘ ذکرہ ابن حجرالمکی فی
الجوہر المنظم ۔
ترجمہ : فرمایا جوکوئی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کی آواز میں سنتا ہوں ، صحابہ نے عرض کیا کیا آپ کے وفات کے بعد بھی یا رسولؐ اللہ ؟ فرمایا ہاں خدائے تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ انبیاء کے اجساد کو کھائے ۔
رہی یہ بات کہ جب حضرتؐ خود سنتے ہیں تو پھر درود سلام پہونچانے پر جو اتنے عظیم الشان و کثیر التعداد فرشتے مقرر ہیں جن کا حال کچھ معلوم ہوا اور کچھ معلوم ہوگا اس سے کیا فائدہ ؟سو اس کا جواب یہ ہے کہ آخر حق تعالیٰ کے حضور میں بھی اعمال بذریعہ ملائک پیش ہوا کرتے ہیں اور باوجود اس کے صفت علمیہ کا انکار ممکن نہیں ۔ حاصل یہ کہ شئے واحد کے حصول علم کے طریقے اگر متعدد ومختلف ہوں تو کچھ قباحت لازم نہیں آتی بلکہ اس سے کمال قدرت و عظمت الہٰی معلوم ہوتی ہے ۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے علم کے بھی دو طریقے ٹھہرائے گئے ہیں : ایک یہ کہ صفتِ علمیہ جو کمال نشاء انسانی ہے عطا کی گئی تا اس کے حاصل کرنے میں افضل مخلوقات کی احتیاج ان ملائک کے طرف نہ ہو جو فی الحقیقت خدام آپؐ کے ہیں ۔ دوسرا طریقہ یہ کہ عظیم الشان ملائک اس خدمت پر مامور کئے گئے جس سے شان مصطفائی اور تزک فرمان روائی اپنے حبیب علیہ الصلوۃ و السلام کی تمام انبیاء وملائک پر آشکار ہوجائے ۔ اور وہ خصوصیت و عظمت جو ازل سے سرورکائنات علیہ الصلوۃ و السلام کی نسبت مرعی ہورہی ہے ، جس کی وجہ سے انبیاء علیہم السلام نام مبارک کو اپنے انجاح مرام کا وسیلہ اور ذریعہ ٹھہرایا کئے ، بعد نشاء عنصری حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بھی سب پر مشہود و منکشف ہوجائے ۔