درودِ شریف کے اہتمام کی ضرورت
قولہ : ہر طرح سے جس کا ہے خالق کو منظور اہتمام : ابھی معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کو منظور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر مبارک بکثرت ہواکرے ، اس لئے تمام مسلمانوں کو درود شریف پڑھنے کا امر فرمایا اور کس خوبی کے ساتھ کہ میں خود اس کام میں مشغول ہوں اور تمام ملائک بھی اے مسلمانو! تم کو بھی چاہئے کہ اس کام میں مصروف رہو ۔ مطلب یہ کہ جب خودخدائے
تعالیٰ اور تمام ملائک تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ہمیشہ درود بھیجا کریں تو تم کو چاہئے کہ بطریق اولیٰ اس میں دلدہی اور جانفشانی کرو نہ یہ کہ ایک دو بار پر اکتفا کرلو ۔ کیونکہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جو جو احسان امتیوں پر ہیں ، اظہر من الشمس ہیں ، اگر فکر ہے تو ہماری بخشایش کی ہے ، اگر دعا ہے تو ہماری بخشایش کی ہے ، ہمیشہ ہماری بھلائی کی ہی فکر میں گزاری ۔ اگر امتیوں کو کچھ ارشاد ہوتا ہے تو یہی مقصود ہے کہ ایسا طریقہ اختیار کریں جس سے دنیا و آخرت میں قہرالہٰی سے محفوظ رہ کر فوائد دارین حاصل کریں ۔ اور اگر حق تعالیٰ کے ساتھ گفت و شنود ہے تو اسی بارے میں کہ کسی نہ کسی طرح سے راستہ ان کی نجات کا نکلے اور پروردگار ان سے راضی ہوجائے ، باوجود یکہ { ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ }وغیرہ آیتوں سے تسکینیں دی گئیں ، مگر خدا جانے فرط محبت امت نے کیا کیا خیالات پیش کردیئے تھے کہ ہر وقت خلوت و جلوت میں حالت نزع تک امت ہی کا خیال اور اسی کی بخشایش کا حق تعالیٰ سے سوال و جواب رہا ۔
اب ایسا کون کمبخت ہو جو ایسے محسن کے احسانوں کو بھول جائے ۔ مقتضائے انسانیت تو یہ ہے کہ بمقصداق الانسان عبید الاحسان کے ساری عمر شکرگزاری میں بسرکریں ۔ اور یہ صرف مقتضائے انسانیت ہی نہیں شریعت بھی یہی کہہ رہی ہے کہ جس نے اپنے محسن کی شکر گزاری نہ کی خدا کا شکر بھی نہ کیا ، چنانچہ ارشاد ہے :
عن ابی ہریرہؓ ان النبی صلی اﷲ علیہ و سلم قال : من لایشکر الناس لایشکر اﷲ ۔ رواہ الترمذی کذافی تجرید الأصول ـ
یعنے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جس نے اپنے محسن کا شکر نہ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا بھی شکر نہ کیا ۔ انتہیٰ ۔
ان احسانوں کا شکر تو کسی سے کیا ہوسکتا ہے اتنا تو ہو کہ ذکر خیر میں حضرتؐ کے رطب اللسان رہیں ۔ بڑی شرم کی بات ہے کہ خدائے تعالیٰ اور فرشتے تو ذکر خیر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم
کے رہیں اور باوجود احسانوں کے ہم سے یہ بھی نہ ہوسکے ۔ میرے خیال میں نہیں آتا کہ کوئی شخص امتی ہونے کا دعویٰ کرے اور پھر حضرتؐ کے ذکر خیر سے اس کو انکار ہو ۔
الغرض جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ان مدارج سے واقف ہو جس کا اہتمام ازل سے ہورہا ہے ۔ اور یہ جان لے کہ باوجود اس رفعت شان کے ہمہ تن ہماری خیر خواہی کے طرف متوجہ ہیں تو پھر یہ نہ ہوسکے گا کہ ذکر خیر میں حضرتؐ کے کوتاہی کرے یا منتظر حکم جدید رہے ، اسی وجہ سے حق تعالیٰ نے پہلے ہی سے اہتمام اس امر کا فرمادیا کہ جب عشاق حضرتؐ پر درود پڑھیں ، ( جو ایک قسم کا وہ بھی ذکر خیر ہے ) تو چاہئے کہ شکر یہ اس کا بھی عالم غیب سے ہواکرے ۔ چنانچہ جب سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرمائے خلق ہوئے ہیں ایک فرشتہ خاص اسی کام پر مقرر ہے کہ جب کوئی حضرتؐ پر درود پڑھتا ہے تو وہ فرشتہ گویا شکریہ میں اس کے کہتا ہے کہ تجھ پر بھی حق تعالیٰ رحمت کرے چنانچہ کنزالعمال میں روایت ہے :
عن ابی طلحۃ الانصاری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم : اتانی جبرئیلؑ فقال یا محمدؐ من صلی علیک من امتک صلٰوۃ کتب اللہ لہ بہا عشر حسنات و محا عنہ عشر سیئات و رفع بہا عشر درجات ، وقال لہ الملک مثل ماقال لک قلت : یا جبرئیل و ماذاک الملک ؟ قال : ان اللہ تعالیٰ وکل لک ملکا من لدن خلقک ۔ و فی روایۃ : منذخلقک ۔ الی ان یبعثک ، لایصلی علیک احد من امتک إلاقال ’’ و انت صلی اللہ علیک ‘‘ رواہ الطبرانی و ابوالفرج ابن الجوزی فی کتاب الوفامع زیادۃ
یعنے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جبرئیل ؑ نے میرے پاس آکر کہا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) جو امتی آپ کا آپ پر درود پڑھے تو حق تعالیٰ اس کے بدلے دس نیکیاں لکھتا ہے دس گناہ مٹاتا ہے دس درجہ بڑھاتا ہے اور فرشتہ اس کے حق میں وہی کہتا ہے جو وہ آپ کے لئے کہتا ہے ، کہا میں نے اے جبرئیلؑ فرشتہ کیسا ؟ کہا کہ حق تعالیٰ نے جب سے آپؐ کو پیدا کیا ہے ایک
فرشتہ قیامت تک متعین ہے اس غرض سے کہ جو آپؐ کا امتی آپ ؐپر درود پڑھے تو وہ فرشتہ کہتا ہے : (وانت صلی اللہ علیک ) یعنے تجھ پر بھی خدا رحمت کرے ، روایت کیا اس کو طبرانی نے اور ابن جوزی نے کتاب الوفا میں مع زیادتی کے ۔ انتہیٰ ۔ ذکر کیا اس حدیث کو کنزالعمال اور مسالک الحنفا اور وسیلتہ العظمی میں ۔
فتوحات ربانیہ شرح اذکار نوویہ میں شیخ محمد بن علی نے حافظ ابوذرہروی کا قول نقل کیا ہے کہ درود شریف کا حکم ۲ ھ میں نازل ہوا ، بعض کہتے ہیں مہینہ شعبان کا تھا اسی واسطے شعبان کو شہر صلوٰۃ کہتے ہیں ۔ انتہیٰ ، اب دیکھئے کہ درود شریف پڑھنے کا حکم ۲ ھ سے ہوا اور فرشتہ موصوف پہلے ہی سے مقرر کیا گیا ہے ، کس قدراہتمام درود شریف کا اس سے ظاہر ہے اور یہ بھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم سے پہلے درود شریف پڑھنے والے بھی موجود ہوں گے ، سوائے اس کے اور دو فرشتے خاص اس کام پر مقرر ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کسی کے روبرو ہو اور وہ درود پڑھے تو وہ فرشتے اس کے واسطے مغفرت کی دعا کیا کریں ، جیسا کہ وسیلتہ العظمیٰ میں ہے :
عن الحسن بن علی رضی اللہ عنہما ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال : ان اللہ وکل لی ملکین لااذکر عند عبدمسلم فیصلی علیّ إلاقال ذانک الملکان ’’غفراللہ لک ‘‘ وقال اللہ و ملائکتہ جوابالذینک الملکین ’’اٰمین ‘‘ ولااذکر عند عبد مسلم فلایصلی علیّ إلاقال ذانک الملکان ’’ لاغفراللہ لک ‘‘ وقال اللہ وملائکتہ جواباً لذینک الملکین ’’ اٰمین ‘‘۔ رواہ الطبرانی و ابن مردویہ ۔
ترجمہ : روایت ہے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ مقرر کئے حق تعالیٰ نے میرے لئے دو فرشتے کہ جب کسی بندہ مسلمان کے آگے میرا ذکر کیا جاتا ہے اور وہ مجھ پر درود پڑھتا ہے تووہ دونوں فرشتے کہتے ہیں ’’غفراللہ لک ‘‘یعنی بخشدے اللہ تعالیٰ تجھ کو پھر خود حق تعالیٰ اور دوسرے فرشتے جواب میں اُن کے ’’اٰمین ‘‘کہتے ہیں اور جس نے میرا ذکر سن کر درود نہ پڑھا تو وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں نہ بخشے تجھ کو اللہ تعالیٰ اور ’’ اٰمین ‘‘ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ اور دوسرے فرشتے اُن کے جواب میں ۔ انتہیٰ ۔
اور اسی مضمون کی یہ بھی روایت ہے : ویروی انہ قیل لہ : یا رسولؐ اللہ ارأیت قول اللہ تعالیٰ { ان اللہ و ملٰٓئکتہ یصلون علی النبی یٰایھا الذین اٰمنواصلوا علیہ و سلموا تسلیما } فقال علیہ السلام : ہذا من العلم المکنون ، ولولا انکم سألتمونی عنہ مااُخبرتکم بہ ، ان اللہ سبحانہ و تعالیٰ وکل لی ملکین فلا أذکر عند مسلم فیصلی علیّ الاقال ذانک الملکان ’’غفراللہ لک ‘‘و قال اللہ وملائکتہ جوابا لذینک الملکین آمین ‘‘ ولااذکر عند عبدمسلم فلم یصل علی الاقال ذانک الملکان لاغفراللہ لک و قال اللہ عزوجل وملائکتہ جوابالذینک الملکین ’’اٰمین ‘‘کذافی تفسیر القرطبیؒ و قال ابن حجرفی الدر المنضود اخرجہ الطبرانی و ابن مردویہ والثعلبی وغیرہم بسند فیہ متروک
ترجمہ : روایت ہے کہ کسی نے عرض کیا یارسولؐ اللہ حق تعالیٰ جو فرماتا ہے ان اللہ و ملئٰـکتہ یصلون علی النبی ۔ الآیہ ، کیا بات ہے؟ فرمایا حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ایک علم پوشیدہ ہے ۔ اگر تم نہ پوچھتے تو نہ خبردیتا میں تم کو اس سے ، اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے میرے لئے مقرر فرمائے ہیں کہ جب کسی مسلمان کے آگے میرا ذکر ہوتا ہے اور وہ مجھ پر درود پڑھتا ہے تو وہ کہتے ہیں ’’غفراللہ لک‘‘ اور حق تعالیٰ اور اس کے فرشتے ان کے جواب میں ’’ اٰمین ‘‘کہتے ہیں ۔ اور جس نے میرا نام سنا اور درود نہ پڑھا تو وہ دونوں کہتے ہیں نہ بخشے خدائے تعالیٰ تجھ کو اور ویسا ہی جواب میں ’’اٰمین‘‘ ارشاد ہوتا ہے ۔ انتہیٰ ۔
زہے طالع ان لوگوں کے کہ جس کی خاص دعا کے واسطے فرشتے مقرر ہیں اور خود حق تعالیٰ اور تمام فرشتے آمین کہتے ہیں ۔ یہ صرف طفیل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خیر خواہی کا ہے ، ورنہ شان کبریائی کہاں اور یہ لفظ کہاں ۔ اگرچہ یقین ہے کہ معنے اس لفظ کے کچھ اور ہیں ، مگر اس لفظ کو
استعمال تو فرمایا۔
سبحان اللہ بطفیل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے امتیوں کو کیا کیا رتبے مل رہے ہیں کہ جس کا بیان ہو نہیں سکتا ، مگر یہ بھی معلوم رہے کہ فقط امتی ہونا کافی نہیں ، مدار اس کا صرف اسی بات پر ہے کہ حبیب خدا صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ معاملہ ٹھیک رہے ، ورنہ رتبے کیسے ، ایمان کا پتا لگنا دشوار ہے ۔ حدیث : لایؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من نفسک کو دیکھ لیجئے کہ کیا کہہ رہی ہے ۔
کلام اس میںتھا کہ حق تعالیٰ نے خاص اس کام کے لئے دو فرشتے معین کئے ہیں کہ درود پڑھنے والوں کے حق میں دعائے خیر کیا کریں اب ان فرشتوں کی عظمت کو سونچئے کہ کُل روئے زمین کے مسلمان جب کبھی درود پڑھیں وہ سن لیتے ہیں اور ہر ایک کا جواب فوراً ادا کرتے ہیں ۔ اگر درود کی خبر ان کو پہنچنا دشوار سمجھا جائے تو چاہئے کہ جسم ان کا اتنا بڑا ہو کہ کل آبادیوں کو گھیرلے اور جسم بڑا بھی ہوا تو کیا صرف دو کان کفایت کریں گے ہر شخص کے پاس ایک کان لگا رہنا ضروری ہوگا ۔ اول تو صرف دور کی آواز سننا ہی دشوار تھا علاوہ اس کے ہر ایک کو فوراً جواب دینا دوسری مشکل ہے ۔
اب اگر حدیث کا بالکل انکارکرلیا جائے اس خیال سے کہ سمجھ میں نہیں آتی تو اکابر محدثین پر الزام آجائے گا جنہوں نے اس کو روایت کیا ہے اور اگر کسی محدث نے اس کو حدیث متروک کہا جب بھی خلاصی نہیں ۔ کیونکہ متروک کے معنے موضوع اور بنائی ہوئی نہیں ۔ پھر جب موضوع نہ ہوئی تو بالکل اس کے مطلب کا انکار کرلینا جائز نہ ہوا بالفرض اگر اس ایک حدیث سے انکارکرکے جان چھڑائی بھی تو کیا عزرائیل علیہ السلام کے ہاتھ سے کہاں جاسکیںگے وہ تو مشرقی کو چھوڑیں نہ مغربی کو سب کی خبر آن واحد میں برابر لیتے ہیں ۔ کیا ان کے وجود کا بھی انکار کیاجائے گا ۔ پھر جب عزرائیل علیہ السلام کا وجود اس صفت کے ساتھ مان لیاجائے تو ان دو فرشتوں کے انکار سے کیا فائدہ ہوا ۔ اس قسم کے امور کا استبعاد و انکار اکثر اسی وجہ سے ہوا کرتا ہے کہ جو صفت آدمی اپنی جنس یا محسوسات میں نہیں پاتا اس کا سمجھنا دشوار ہوتا ہے ۔ اور جب سمجھ میں نہ آئے تو اس کا انکار کر بیٹھتا
ہے ، پھربساوقت اسی انکار کی وجہ سے نوبت کفر تک پہنچ جاتی ہے ۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔
نجات کا یہی طریقہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی قدرت پر ایمان لائیں اور یہ سمجھ لیںکہ حق تعالیٰ جب کسی کو قدرت دیتا ہے تو اس سے سب کچھ ہوسکتا ہے ، پھر اس کے خلاف میں عقل لگانا گمراہی ہے ، مولانائے روم قدس سرہ فرماتے ہیں :
داند آنکو نیک بخت و محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
زیرکی بفروش و حیرانی بخر
زیرکی ظنست و حیرانی نظر
عقل قربان کن بہ پیش مصطفیٰؐ
حسبی اللہ گو و اللہ ہُم کفیٰ
ہمچو کنعان سر زکشتی درمکش
کہ غرورش داد نفس زیرکش
خویش ابلہ کن تبع میرو سپس
رستگی زین ابلہے یابی و بس
باچنیں نورے چو پیش آری کتاب
جان وحی آسای او آرد عتاب
اکثر اہل الجنہ بلہ اے پدر
بہر این گفتست سلطانؐ البشر
اندرین رہ ترک کن طاق و طرمب
تا قلا وزت نہ جنبد تو مجنب
ہر کہ او بے سر بجنبد دم بود
جنبشش چون جنبش کژدم بود
Post a Comment