فضائل درود شریف اجمالاً
قولہ : ہے درود پاک بھی ذکر شہ عالی مقام : تیسری تسدیس میں معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکر مبارک کو ایسی کچھ رفعت دی ہے کہ کسی کو وہ بات نصیب نہیں ۔ اور اسی وجہ سے نام مبارک ہر جگہ آسمانوں وغیرہ میں لکھا ہوا ہے جس کا بیان تسدیس رابع میں گذرا ۔ منشا اس کا یہ ہے کہ بحسب حدیث شریف من احب شیئا اکثر ذکرہ ۔حبیب کا ذکر جس قدر ہو اچھا معلوم ہوتا ہے ، عام اس سے کہ خود کریں یاکوئی دوسرا ۔ پھر جو سخن شناس اس نکتہ سے واقف ہیں ظاہر ہے کہ اپنے خالق کی رضاجوئی کے واسطے خود اس کے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر بکثرت کریں گے ان کے لئے کوئی ترغیب کی ضرورت نہیں ۔ باقی رہے وہ لوگ کہ جب تک کسی کام میںکوئی نفع خاص نہیں دیکھ لیتے اس کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ ان کے لئے اقسام کی ترغیبیں دی گئیں ۔ پھر ان میں بھی دو قسم کے لوگ ہیں ، بعضوں کا میلان نفع دنیوی کے طرف زیادہ ہوتا ہے اور بعضوں کا نفع اخروی کے طرف ، ہر ایک کو اس کی خواہش کے مطابق وعدے دیئے گئے ۔
چنانچہ صنف اول کے لئے ارشاد ہوتا ہے کہ بدولت اس ذکر خاص کے فقر د فع ہوتا ہے ، رزق کشادہ ہوتا ہے ، بلکہ کل امور کے لئے اس میں کفایت ہے ، اور کوئی فکر باقی نہیں رہتی ۔
جو لوگ کثرت ثواب کے طالب اور نفع اخروی پر راغب ہیں ، ان کی رعایت سے ارشاد ہے کہ ثواب اس ذکر خاص کا پہاڑوں برابر صدقہ دینے کے اور کئی غلام آزاد کرنے کے مساوی ہے ، اور جہاد سے بڑھ کر بلکہ تمام روئے زمین کے لوگ جتنا عمل کریں سب کے برابر ، اور حق تعالیٰ کے پاس سب عملوں سے زیادہ اس کی فضیلت ہے ، اس کے سبب سے ہزارہا نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، ہزارہا گناہ مٹائے جاتے ہیں ، درجے بلند کئے جاتے ہیں ، ذاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مرنے کے پیشتر اپنا مقام جنت میں دیکھ لے گا ، روز قیامت عرش کے سایہ میں رہ کر ہول و دہشت سے وہاں کے نجات پائے گا ۔ شفاعت اور قربت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اس کو نصیب ہوگی ، سب کام آخرت کے اس پر آسان ہوں گے ، حق تعالیٰ کے غضب سے امن پائے گا ۔
اور برعایت ان لوگوں کے جو طالب رضائے حق ہیں ارشاد ہے کہ اس سے دل طاہر ہوتے ہیں ، حق تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے ، فرشتے اس شخص کے حق میں دعائے مغفرت کیا کرتے ہیں اور خود حق تعالیٰ آمین فرماتا ہے ۔
پھر عموماً اہل ایمان کی ترغیب کے واسطے حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بذات خود مع تمامی ملائک کے ذکر خیر آنحصرتؐ کا کیا کرتا ہوں ۔
علی ہذالقیاس اس کے سوائے اور بہت سی ترغیبیں دی گئیں ۔ پھر اگر اس پر بھی کوئی نہ مانے تو سزا اس کی یہ ہوئی کہ نہ طہارت اس کی پوری ہو نہ نماز ، اور نہ دعا قبول ہو اور وہ شقی جنت کی راہ سے بھٹک کر داخل دوزخ ہوگا ۔
الحاصل جس طرح حق تعالیٰ نے {ورفعنالک ذکرک } فرمایا ، رفع ذکر کے ذریعے بھی ویسے ہی قائم کئے تاقطع نظر ان طرق رفع ذکر کے جومذکور ہوئے ، ہر مسلمان بھی طوعاً و کرہاً ذکر خیر میںمصروف رہے ۔ پھر وہ ذکر جس کے واسطے وعدے وعید ہیں ایسا نہیں ہے کہ صرف نام مبارک کی تکرار ہوا کرے کیونکہ اس میں بے ادبی ہے بلکہ خود حق تعالیٰ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو
اصلی نام سے یاد نہ فرمایا بلکہ جب کبھی خطاب کیا یا یاد فرمایا کسی نہ کسی صفت کے ساتھ ذکر کیا جیسے {یٰاَیھاالرسول } اور { یٰاَیھاالنبی} ، { وما اٰتٰکم الرسول} وغیرہ ۔ مگر ایک دو جائے جہاں بالکل تعیین مقصود تھی صفت کے ساتھ نام کو ذکر فرمایا ۔ بخلاف دوسرے انبیاء کے کہ ہر جگہ ان کے نام کی تصریح فرمائی اور خطاب بھی اصلی نام کے ساتھ کیا جیسا { قلنا یٰآَدم اسکن } ، {ونادینٰہ ان یٰاِبراہیم } اور { یٰموسیٰ اقبل } وغیرہ ۔
الغرض ذکر شریف مودبانہ ہونے کے لئے ایک خاص وضع مقرر کی گئی جو مقتضائے ادب ہے ۔ پھر جو شخص اس وضع کی پابندی کے ساتھ ذکر موصوف کیا کرے وہی مستحق ان وعدوں کا ہوگا ۔ اور وہ وضع بعینہ دعا کی سی ہے جس میں توجہ اللہ تعالیٰ کے طرف ہو اور معلوم ہے کہ دعا کو خضوع و خشوع ضرور چاہئے ۔ پھر اس کے چند صیغہ مقرر کئے گئے ۔ اور ہر صیغہ میں جُدا تاثیر رکھی گئی ۔ پھر ان صیغوں کو ایک خاص قسم کی شرافت عطا ہوئی اور وہ نام سرفراز ہوا جو خاص معبود حقیقی کی عبادت کا نام ہے ، یعنے صلوٰۃ ، پس معلوم ہوا کہ صلوٰۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک قسم کے ذکر کا نام ہے ۔
نکتہ : تسدیس سابق میں یہ بات ثابت ہوئی کہ جب حق تعالیٰ کا ذکر ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بھی ہوتا ہے ، کماقال اللہ تعالیٰ اذاذکرت ذکرت معی اور یہاں معلوم ہواکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر ہو حق تعالیٰ کا ذکر بھی لازم ہے ۔ اس تلازم طرفین سے نکتہ سنجان رمزشناس {ماودعک ربک و ما قلیٰ } کے معنی بخوبی سمجھ سکتے ہیں ، امروجدانی بیان کے قابل نہیں ۔