حق تعالی کا درود بھیجنا Haq Tala Ka Darood Bhejna

حق تعالی کا درود بھیجنا : 

قولہ : بھیجتا ہے خود درود اس فخر عالم پر مدام ۔ الخ
  قال اللہ تعالی { ان اللہ و ملٰٓئکتہ یصلون علی النبی یٰآ ایھاالذین اٰمنوا صلواعلیہ و سلموا تسلیما } 
ترجمہ : تحقیق کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اس کے درود بھیجتے ہیں نبی ( صلی اللہ علیہ و سلم ) پر اے وہ لوگو جو ایمان لائے درود بھیجو تم ان پر اور سلام بھیجو سلام کہہ کر ۔
 اس مقام میں چند فوائد لکھے جاتے ہیں جن پر اہل ایمان کو مطلع ہونا مناسب بلکہ ضرور ہے : 

صلوٰۃ کے معنی 

۱۔ فائدہ معنے صلوٰۃ میں 

صلوٰۃ لغت میں دعا کو کہتے ہیں چنانچہ خطیب شربینیؒ نے تفسیر میں لکھا ہے :الصلوٰۃ فی اللغۃ الدعاء ، قال تعالی : وصل علیھم ای ادع لہم اور بخاری شریف میں ہے :
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال الملٰٓـئکۃ تصلی علی احدکم مادام فی مصلاہ مالم یحدث تقول اللہم اغفرلہ اللہم ارحمہ ۔
ترجمہ روایت ہے ابوہریرہؓ سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ ملائک صلوۃ بھیجتے ہیں جب تک کوئی تم میں کا اپنی نماز کی جگہ بیٹھارہتا ہے جب تک کہ حدث نہ کرے ، کہتے ہیں وہ : یا اللہ بخش دے اُس کو یا اللہ رحم کر اُس پر ۔ انتہیٰ ۔
 صلوٰۃ کی تفسیر اس دعا کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی ۔ لیکن چونکہ معنی دعا کے اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ پر صادق نہیں آسکتے اس لئے اس کے معنی میں اختلاف ہے ۔
بعضوں نے کہا کہ اس سے رحمت مراد ہے ، تامرادی اور لغوی معنی میں مناسبت ہو اور وجہ مناسبت کی یہ ہے کہ رحمت لازم اور غایت دعا کی ہے چنانچہ مواہب لدنیہ اوراس کی شرح میں لکھا ہے : ( قال المبرد الصلوٰۃ من اللہ الرحمۃ ) ای الانعام أوارادتہ لأن المعنی الحقیقی للدعاء لایتصور فی حق اللہ تعالیٰ فارید بہ لازمہ و غایتہ اور یہی معنے بعض احادیث میں مصرح بھی ہیں چنانچہ درمنثور میں امام سیوطیؒ نے روایت کیا ہے :
واخرج عبدالرزاق و ابن المنذر وابن ابی حاتم عن الحسن فی قولہ {ہوالذی یصلی علیکم } قال ان بنی اسرائیل سألوا موسیؑ : ہل یصلی ربک ؟ فکان ذلک کبرفی صدر موسیؑ فاوحی اللہ علیہ اخبرہم انی أصلی وان صلٰوتی رحمتی سبقت غضبی ۔ و اخرج عبد بن حمید عن شہر بن حوشب فی الأیۃ قال قال بنو اسرائیل : یاموسی سل لناربک ہل یصلی ؟ فتعاظم ذلک علیہ ، فقال یا موسی مایسألک قومک ؟ فاخبرہ ، قال : نعم أخبرہم انی اصلی وان صلوتی ان رحمتی سبقت غضبی ولولاذلک ہلکوا 
ترجمہ {ھوالذی یصلی علیکم }کی تفسیر میں روایت ہے کہ سوال کیا بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے ’’ ہل یصلی ربک ‘‘ اور شہر بن حوشب کی روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے
درخواست کی موسی علیہ السلام سے کہ حق تعالیٰ سے اس امر کا سوال کریں ، الغرض شاق ہوئی یہ بات موسیٰ علیہ السلام پر پس استفسار فرمایا حق تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہ کیا پوچھتی ہے قوم تمہاری؟ پس عرض کیا انہوں نے سوال ان کا ،ارشاد ہوا ہاں میری صلوٰۃ رحمت ہے جو سابق ہوئی میرے غضب پر اگر نہ ہوتی یہ صلوٰۃ ہلاک ہوجاتے وہ لوگ ۔ انتہی ۔

موسیٰ علیہ السلام پر ان کا سوال جو شاق گذرا سو اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ صلوٰۃ کے معنی دعا سمجھے جو حق تعالیٰ کی نسبت محال ہے ، پھر حق تعالیٰ نے خود تصریح فرمادی کہ میری صلوٰۃ میری رحمت ہے پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ سے مراد رحمت ہوا کرتی ہے اور یہی ہے مذہب ابن عباسؓ اور عکرمہ اور ضحاک اور سفیان ثوری وغیرہ اہل علم کا اور ایک قول ابوالعالیہ کا بھی یہی ہے چنانچہ ’’الدر المنضود فی الصلوٰۃ علی صاحب المقام المحمود ‘‘میں ابن حجر ہیثمیؒ نے لکھا ہے : وقیل ہی ( ای الصلوٰۃ ) منہ تعالی رحمۃ ۔ و نقلہ الترمذی عن الثوری وغیر واحد من اہل العلم و نقل عن ابی العالیۃ ایضاً وعن الضحاک ۔ 
اور درمنثور میں ہے و اخرج عبد بن حمید و ابوالمنذر عن عکرمۃ قال صلوۃ الرب الرحمۃ و صلوٰۃ الملائکۃ الاستغفار ۔ اور مسالک الحنفا میں قسطلانیؒ نے لکھا ہے :  قال ابن عباسؓ اراداللہ ان یرحم النبی صلی اللہ علیہ و سلم و ملائٰکتہ یدعون وہو معنی قول الضحاک صلوٰۃ اللہ رحمتہ ۔ اور امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میںلکھا ہے الصلوٰۃ من اللہ عزوجل ہی رحمتہ و من الملائکۃ الاستغفار ، و من الامۃ الدعاء و التعظیم
اور بعضوں کا قول یہ ہے کہ مراد اس سے ثنا ہے کمافی البخاری قال ابوالعالیۃ صلوٰۃ اﷲ ثناؤہ علیہ عند الملائکۃ اور اسی قول کو ابن قیم نے پسند کیا ہے چنانچہ مسالک الحنفا میں قسطلانیؒ نے لکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جلاء الافہام میں ابن قیم نے چھ وجہ قائم کئے ہیں کہ صلوٰۃ کے معنے رحمت نہیں ہوسکتے :
ایک یہ کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے: {اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ} یہاں رحمت کا عطف صلوات پر ہے اور عطف مقتضی مغایرت کو ہوتا ہے پس معلوم ہوا کہ رحمت غیر صلوٰۃ ہے ۔
 دوسری یہ کہ صلوٰۃ خاص انبیاؑء اور مومنین کے واسطے ہے اور رحمت عام ہے اور ہر شئے کو شامل ہے ۔
 تیسری یہ کہ اگر صلوٰۃ بمعنی رحمت کے ہو تو جن لوگوں کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنا واجب ہے چاہئے کہ اللھم ارحم سیدنا محمدا و آل سیدنامحمد کہنے سے وجوب ساقط ہوجائے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔
 چوتھی یہ کہ اگر کسی نے کسی پر رحم کرکے مثلاً کھانا کھلایا تو رحمہ کہتے ہیں نہ کہ صلی علیہ یعنے یہاں رحمت صادق آتی ہے اور صلوٰۃ صادق نہیں آتی ۔
پانچویں یہ کہ اگر صلوٰۃ کے معنی رحمت کے ہوں تو یہ آیۃ شریفہ کے یہ معنے ہوں گے( اللہ تعالیٰ اور فرشتے رحمت اور استغفار کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر تو تم دعا کرو ان کے لئے ) حالانکہ وجدان سلیم گواہی دیتا ہے کہ اول و آخر کلام اس معنے پر باہم مرتبط نہیںہوتا ۔ بر بخلاف اس کے کہ معنی صلوٰۃ کے ثنا ہوں تو تینوں جائے مضمون ایک ہوجائے گا ۔ ثناء اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی تو ظاہر ہے ۔ رہا یہ کہ صلوٰۃ مومنین کی بصورت دعاہے ، تو وہ بھی متضمن ثنا ہوگی کیونکہ ثنا کا حق تعالیٰ سے طلب کرنا بھی ایک قسم کی ثنا ہے ۔ اور قطع نظر اس کے طالب رحمت کو مسترحم کہتے ہیں نہ کہ مصلی جیسے طالب مغفرت کو مستغفر کہتے ہیں ۔ 
چھٹی یہ کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے : {لاتجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا} یعنے مت پکارو تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیساکہ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو یعنے رسول وغیرہ القاب سے پکارنا چاہئے صرف نام لے کر پکارنا درست نہیں اور یہ نہی صرف کفار کو تھی ورنہ اہل اسلام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یا رسولؐاللہ کہہ کر خطاب کرتے تھے اور یہ بات جب خطاب میں تھی تو جو اس کے معنی میں ہے یعنی دعا اس میں بھی یہی لحاظ چاہئے اس وجہ سے
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں دعا بھی ایسی کرنا چاہئے جو کسی کے واسطے نہ کی جائے۔ اور ظاہر ہے کہ دعا رحمت کی ہر مسلمان بلکہ کفار و حیوانات کے واسطے بھی کی جاتی ہے ۔ چنانچہ استسقا میں کہا جاتاہے

اللہم ارحم عبادک و بلادک وبھائمک یعنے یا اللہ رحم کر اپنے بندوں پر اور شہروں پر اورجانوروں پر ۔الحاصل ان وجوہات سے صلوٰۃ کے معنی رحمت لینا درست نہیں ۔ انتہی ملخصا ۔ 
اور بعضوں نے کہا مراد اس سے مغفرت ہے کمافی مسالک الحنفاء : و ثانیہا ان صلوٰۃ اللہ مغفرتہ ورجّح القراء فی ہذا و قربہ البیضاوی ۔ اور مواہب لدنیہ میںہے : وروی ابن ابی حاتم عن مقاتل بن حیان قال صلوٰۃ اﷲ مغفرتہ و قال الضحاک بن مزاحم صلوٰۃ اﷲ رحمتہ و فی روایۃ عنہ مغفرتہ۔ حاصل یہ کہ بیضاوی نے صلوٰۃ اللہ کی تفسیر مغفرت کے ساتھ کی ہے اور میلان قرّا کا بھی اسی طرف ہے اور یہی قول مقاتل کا ہے اور ضحاک بن مزاحم سے بھی ایک روایت ایسی ہی وارد ہے ۔ ان حضرات کی دلیل شاید یہ حدیث ہوگی جس کو ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے : 
حدثنی یعقوب الدورقی حدثنا ابن علیۃ حدثنا ایوب عن محمد بن سیرین عن عبدالرحمٰن بن بشیر بن مسعود الانصاری قال لمانزلت { ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی یٰآیھاالذین اٰمنواصلواعلیہ و سلموا تسلیما } قالوا : یارسول اللہ ہذاالسلام قد عرفناہ ، فکیف الصلوٰۃ و قد غفراللہ لک ماتقدم من ذنبک و ماتأخر ؟ قال : قولوا اللہم صل علی محمد کما صلیت علی آل ابراہیم اللہم بارک علی آل محمد کمابارکت علی آل ابراہیم
ترجمہ : روایت ہے عبدالرحمٰن بن بشیرؓ سے کہ جس وقت نازل ہوئی آیۃ شریفہ ان اللہ و ملئٰـکتہ تو عرض کیا صحابہ نے یا رسولؐ اللہ اس سلام کی کیفیت تو ہمیں معلوم ہے لیکن صلوٰۃ آپ پر
کیوں کر ہوسکے کہ اگلے پچھلے گناہ آپ کے حق تعالیٰ نے بخشدیئے ہیں ، فرمایا کہو اللہم صل علی محمد الخ ۔ انتہیٰ ملخصا ۔ 
سوالِ صحابہؓ سے صاف معلوم ہوا کہ صلوٰۃ کے معنے مغفرت سمجھے گئے اور ظاہر ہے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کا ہے اور پہلے ہی مغفرت ہوچکی تھی جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے {لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک و ما تاخر} اس لئے صلوٰۃ کے امتثال میں ضرورت سوال کی ہوئی پھر جب ارشاد ہوا کہ کہو اللہم صل تو گویا صحابہ نے امتثالاً للامر تسلیم کرلیا ۔ 
اور سوائے اس کے یہ بھی دلیل ان کی ہوسکتی ہے کہ اس آیۃ شریفہ میں کمال درجہ کی خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بحسب اجماع ثابت ہے کمافی المواہب اللدنیۃ : والاجماع منعقد علی ان فی ہذہ آلایۃ من تعظیم النبی صلی اللہ علیہ و سلم والتنویہ مالیس فی غیرہ اور جیسے رحمت میں اختصاص آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کا نہیں رہتا ویسا ہی ثنا میںبھی کوئی خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نہیں کیونکہ حق تعالیٰ تمام مسلمانوں کی ثنا کیا کرتا ہے :  کمافی الدر المنثور للسیوطیؒ : و اخرج ابن ابی حاتم عن ابی العالیۃ فی قولہ { ھو الذی یصلی علیکم و ملٰٓـئکتہ } قال صلوٰۃ اﷲ ثناؤہ و صلوٰۃ الملٰٓـئـکۃ الدعاء ۔ البتہ مغفرت قطعیہ خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے کماقال تعالیٰ : { انا فتحنالک فتحا مبینا لیغفرلک اﷲ ما تقدم من ذنبک و ما تاخر } اورکسی دوسرے کو یہ بات نصیب نہیں ۔ کماروی القاضی عیاضؒ فی الشفا : عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ بعثت بین یدی الساعۃ ، و منہ روایۃ ابن وہب انہ صلی اﷲ علیہ و سلم قال قال اللّٰہ تعالیٰ : سل یا محمدؐ ، فقلت : ما اسأل یارب ؟ اتخذت ابراہیم خلیلاو کلمت موسیٰ تکلیما و اصطفیت نوحاً و اعطیت سلیمان ملکا لاینبغی لأحدمن بعدہ ، فقال اللہ تعالیٰ مااعطیتک خیرمن ذلک ، اعطیتک الکوثر وجعلت اسمک مع اسمی ینادی بہ فی جوف السماء وجعلت الارض طہوراً لک
ولأمتک و غفرت لک ماتقدم من ذنبک وتأخرفانت تمشی فی الناس مغفورا لک ۔ ولم اصنع ذلک لاحد قبلک ، وجعلت قلوب امتک مصاحفہا و خبأت لک شفاعتک ولم اخباہالنبی غیرک
ترجمہ روایت کیا قاضی عیاضؒ نے شفا میں اور کہا ملاعلی قاری نے شرح میں کہ روایت کیا اس کو احمد نے بسند حسن ابن عمرؓ سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ حق تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ کچھ مانگو ، میں نے عرض کیا اے پروردگار کیا مانگوں تو نے ابراہیمؑ کو خلیل بنالیا اور موسیؑ سے کلام کئے نوحؑ کو برگزیدہ کیا اور سلیمانؑ کو وہ ملک دیا جو ان کے بعد دوسرے کو سزاوار نہیں ، ارشاد ہوا جو تم کو میں نے دیا وہ ان سب سے بہتر ہے ، تم کو کوثر دیا تمہارے نام کو اپنے نام کے ساتھ رکھا جو پکارا جاتا ہے آسمان میں اور تمہارے اور تمہاری امت کے لئے زمین کو طہور اور پاک بنایا اور اگلے پچھلے گناہ تمہارے بخشدیئے اب لوگوں میں تم مغفور ہو یہ عطائیں پہلے کسی کے لئے نہ ہوئیں تمہاری امت کے دلوں کو مصحف بنایا اور مقرر کررکھی ہے تمہارے لئے شفاعت کسی نبی کے واسطے یہ بات نہ ہوئی ۔ انتہیٰ۔ 
چونکہ دوسرے انبیاء کو یہ قطعیت مغفرت حاصل نہیں اسی وجہ سے انبیاء علیہم السلام روزحشر مقام خوف میں ہوں گے ، چنانچہ حدیث شریف سے جو بخاری شریف میں بکرات و مرات وارد ہے یہ بات ظاہر ہے ۔
اور بعضوں کا قول یہ ہے کہ مراد اس سے سلام ہے کمافی المواہب وجوز الحلیمی ان یکون الصلوٰۃ بمعنی السلام ۔ شاید دلیل اس قول کی یہ ہوگی کہ مغفرت ما تقدم و ماتاخر وقت واحد میں بالکلیہ ہوچکی اس میں تجددواستمرار صادق نہیں آتا حالانکہ آیۃ شریفہ سے تجددو استمرار ثابت ہے جیسا کہ قریب معلوم ہوگا البتہ سلام میں استمرار ہوسکتا ہے اور سوائے اس کے ابن قیم کے ان بعض دلیلوں سے اس قول کا بھی ابطال ہوتا ہے 

Post a Comment

Previous Post Next Post