حضرتﷺ کی شہرت آسمان و زمین میں :
اسی وجہ سے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے سب اہل آسمان و زمین جانتے ہیں سوائے نافرمان جن و انس کے ۔ کمافی الشفا و شرحہ لعلی القاری ( عن ثعلبۃ بن مالک ) کمارواہ ابونعیم ( وجابر بن عبداللہ ) کمارواہ احمد والدارمی و البزاروالبیہقی عنہ ( ویعلی بن مرۃ ) کمار واہ احمد و الحاکم و البیہقی بسند صحیح عنہ ( و عبداللہ بن جعفر ) کمار واہ مسلم و ابوداود عنہ (کان لایدخل احدالحائط إلا شد علیہ الجمل فلمادخل علیہ النبی صلی اللہ علیہ و سلم د عاہ فوضع مشفرہ علی الارض و برک بین یدیہ فخطمہ و
قال مابین السماء والارض شیٔ الایعلم انی رسول اللہ الاعاصی الجن و الانس ۔ و مثلہ عن عبید اللہ بن ابی اوفی ) ۔
ترجمہ کسی باغ میں ایک سرکش اونٹ تھا جس کی وجہ سے اس میںکوئی نہیں جاسکتا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس میں تشریف لے گئے اور اس کو بلایا فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو وہ بیٹھ گیا اور ہونٹ زمین پر رکھ دیا ، حضرتﷺ نے اس کو مہار لگادی اور فرمایا کہ سوائے نافرمان جن و انس کے زمین و آسمان میں کوئی ایسی چیز نہیں جو مجھے نہ جانتی ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ انتھیٰ ۔
ہر چند کفار بظاہر مخالف تھے لیکن دل میں ضرور سمجھتے تھے کہ حضرتؐ رسول خدا ہیں ، چنانچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے {یعرفونہ کمایعرفون ابناء ھم }یعنی پہچانتے ہیں کفار آنحضرت ﷺ کو جیسے اپنے لڑکوں کو پہچانتے ہیں ، یعنے بغیر شبہ کے اس بات کو جانتے ہیں کہ حضرتؐ رسول اللہ اور متصف باوصاف کمالیہ ہیں ۔ دوسری جائے حق تعالیٰ فرماتا ہے ۔ { قد نعلم انہ لیحزنک الذی یقولون فانھم لا یکذبونک ولکن الظٰلمین بآیٰت اللہ یجحدون} یعنے ہم جانتے ہیں کہ غمگین کرتا ہے آپ کو وہ جو کفار کہتے ہیں ، وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے لیکن وہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔
روایت ہے ( قال علی کرم اللہ وجہہ ) کمار واہ الترمذی و صححہ الحاکم (قال ابوجہل للنبی صلی اللہ علیہ و سلم انالا نکذبک ولکن نکذب بما جئت بہ ) کذافی الشفا و شرحہ لعلی القاری ۔
ترجمہ علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ابوجہل نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ قرآن کو جھٹلاتے ہیں اور کتب سیر وغیرہ سے ثابت ہے کہ نبوت کے پہلے سے کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو امین کہا کرتے اور سمجھتے تھے ۔
پس آیۃ شریفہ اور احادیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کفار گو ایمان نہ لائے اور تکذیب
قرآن شریف کی کرتے رہے مگر حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فضائل کے معترف ہی رہے ۔ اور سوائے کفار کے تمام موجودات کا پہچاننا بھی حدیث شریف سے ابھی ثابت ہوا اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ مراد اس معرفت سے معرفت صفات ہے نہ معرفت ذات اور یہ بات معلوم ہے کہ معرفت صفات حمیدہ مستلزم مدح ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ازل سے تاابد حضرت صلی اللہ علیہ و سلم ممدوح عالم ہیں ۔ اور ابن عباسؓ کی روایت مذکور سے اور دوسرے احادیث سے جو انشاء اللہ تعالیٰ قریب آتی ہیں یہ بات ثابت ہے کہ حق تعالیٰ نے نام مبارک حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یعنے ( محمد رسول اللہ ) عرش پر لکھا ہے اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اولاً و ابداً ممدوح اور محمود ہیں کیونکہ ہر چند وضعِ عَلَم ذات مخصوص پر دلالت کرنے کے لئے ہوتی ہے اور معنے و صفی مراد نہیں ہوتے مگر یہ بھی نہیں ہے کہ بالکل معنی و صفی متروک ہی ہوجا ئیں ، کیونکہ لفظ اپنے معنے موضوع لہ اول پر ہمیشہ دلالت کرتا رہے گا جب تک وہ لفظ یا اس کا مبدا اس معنے میں مستعمل رہے اسی وجہ سے کسی کا نام اللہ رکھنا درست نہیں ۔ یا اگر کسی کا نام شیطان رکھا جائے بیشک جب سنے گا رنجیدہ ہوگا ۔
قرآن شریف کی کرتے رہے مگر حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فضائل کے معترف ہی رہے ۔ اور سوائے کفار کے تمام موجودات کا پہچاننا بھی حدیث شریف سے ابھی ثابت ہوا اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ مراد اس معرفت سے معرفت صفات ہے نہ معرفت ذات اور یہ بات معلوم ہے کہ معرفت صفات حمیدہ مستلزم مدح ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ازل سے تاابد حضرت صلی اللہ علیہ و سلم ممدوح عالم ہیں ۔ اور ابن عباسؓ کی روایت مذکور سے اور دوسرے احادیث سے جو انشاء اللہ تعالیٰ قریب آتی ہیں یہ بات ثابت ہے کہ حق تعالیٰ نے نام مبارک حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یعنے ( محمد رسول اللہ ) عرش پر لکھا ہے اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اولاً و ابداً ممدوح اور محمود ہیں کیونکہ ہر چند وضعِ عَلَم ذات مخصوص پر دلالت کرنے کے لئے ہوتی ہے اور معنے و صفی مراد نہیں ہوتے مگر یہ بھی نہیں ہے کہ بالکل معنی و صفی متروک ہی ہوجا ئیں ، کیونکہ لفظ اپنے معنے موضوع لہ اول پر ہمیشہ دلالت کرتا رہے گا جب تک وہ لفظ یا اس کا مبدا اس معنے میں مستعمل رہے اسی وجہ سے کسی کا نام اللہ رکھنا درست نہیں ۔ یا اگر کسی کا نام شیطان رکھا جائے بیشک جب سنے گا رنجیدہ ہوگا ۔
Post a Comment