آنحضرت ﷺ ازلاً وابداً ممدوح و محمود ہیں :
قولہ : جو ازل سے تاابد ممدوح اور محمود ہے : جاننا چاہئے کہ جملہ عالم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وجہ سے پیدا ہوا چنانچہ زرقانی نے نقل کی ہے : روی ابوالشیخ فی طبقات الاصفہانیین و الحاکم عن ابن عباسؓ : اوحی اللہ الی عیسیٰ آمن بمحمد و مر أمتک ان یؤمنوابہ فلولا محمد ماخلقت آدم ولا الجنۃ و لاالنار ، و لقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب فکتبت علیہ لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ فسکن ۔ صححہ الحاکم و اقرہ السبکی فی شفاء السقام و البلقینی فی فتاواہ و مثلہ لایقال رأیاً فحکمہ الرفع و عندالدیلمی عن ابن عباسؓ رفعۃ أتانی جبرئیل فقال ان اللہ یقول لولاک ماخلقت الجنۃ و لولاک ماخلقت النار ، و ذکر ابن السبع والغرفی عن علیؓ ان اللہ قال لنبیہ : من أجلک اسطح البطحا و اموج الموج و ارفع السماء واجعل الثواب والعقاب ۔۔
ترجمہ : وحی کی خدائے تعالیٰ نے عیٰسی علیہ السلام پر کہ تم بھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاؤ اور اپنی امت کو حکم کرو کہ وہ بھی ایمان لاویں کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم وہ ہیںکہ اگر میں ان کو نہ پیدا کرتا تو نہ آدم کو پیدا کرتا اور نہ جنت و دوزخ کو ، جب میںنے عرش کو پانی پر پیدا کیا تو وہ ہلنے لگا اس پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا جس سے وہ ساکن ہوگیا اور ابن سبع اور غرفی روایت کرتے ہیں علیؓ سے کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کہ بسبب آپ کے میں نے زمین کو بچھایا اور موج کو متحرک کیا اور آسمان کو بلند کیا اور ثواب و عقاب مقرر کیا ۔ انتھیٰ
اور ایک حدیث شریف میں وارد ہے کہ عالم اس لئے پیدا کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بزرگی اور مرتبہ دکھلایا جائے ۔ کما فی المواھب اللدنیۃ و فی حدیث سلمان عند ابن عسا کر قال : ھبط جبریل علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم فقال : ان ربک یقول ان کنت اتخذت ابراہیم خلیلافقد اتخذتک حبیباً ، و ما خلقت خلقاً اکرم علی منک ، ولقد
خلقت الدنیا واھلھا لاُعرفھم کرامتک و منزلتک عندی ولولاک ماخلقت الدنیا ۔
ترجمہ سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہوکر عرض کی کہ آپ کا رب فرماتا ہے کہ اگر میں نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا تو آپ کو اپنا حبیب بنایا اور کوئی چیز ایسی نہیں پیدا کی جو میرے نزدیک آپ سے زیادہ بزرگ ہو اور یقین جانئے کہ میں نے دنیا اور اس کے لوگوں کو اسی واسطے پیداکیا کہ ان کو بزرگی اور مرتبہ آپ کا معلوم کراؤں جو میرے نزدیک ہے اگر آپ نہ ہوتے تو دنیا کو میں پیدا نہ کرتا انتہیٰ ۔
ف حدیث سابق میں جو مذکور ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وجہ سے عالم پیدا کیا گیا ہے اس کا مطلب بھی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آفرینش خلق سے مقصود یہ ہے کہ حضرتﷺ کا مرتبہ اور عظمت ظاہر ہو ۔ پھر جب خدائے تعالیٰ نے صرف اظہار فضیلت کے لئے اس قدر اہتمام کیا ہو تو ضرور ہے کہ تمام عالم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح و نعت میں بہ دل و جان مصروف ہوگا کیونکہ پادشاہ مثلاً اگر کوئی عمدہ اپنی مرغوب چیز کسی شخص کو بتلائے اور وہ شخص اس کی تعریف نہ کرے تو حمیت پادشاہی اسی کی مقتضی ہوگی کہ اس بے ادبی کی پاداش میں وہ سزائے سخت کا مستحق سمجھا جائے اور ایسا شخص سوائے متمرد و سرکش کے دوسرا نہ ہوگا ۔