علمِ غیبِ مصطفی
سوال :1: رسولِ اَکرم ا کے غیب کا علم جاننے کے بارے میں اِسلام کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب : رسولِ اَکرم اکے علم غیب کی دو صورتیں ہیں ـ۔
[۱]: قرآن و سُنت کا یہ عقیدہ ہے کہ اَللہ تعالیٰ نے حضورا اور دیگر اَنبیائِ کرام کو بعض غیب کا علم دیا اِس بات کا منکر کافر ہے ۔
[۲]: اَللہ تعالیٰ نے حضورا کو کلی علم غیب دیا ہے اور حضور ا کا علم ساری مخلوقات حتی کہ اَنبیائِ کرام علیہم السلام سے بھی زیادہ ہے ،اَللہ تعالیٰ نے حضورا کو پانچ غیبوں میں سے بہت سی جزئیات کا علم یعنی قیامت کا علم کہ کب ہو گی؟تمام گزشتہ اور آئندہ ہونے والے واقعات کا علم ، حقیقتِ روح اور قرآنِ مجید کے سارے متشابہات کا علم دیا ،اِس قسم کے علم غیب کا منکر بد دین ،گمراہ اور بدمذہب ہے کہ سینکڑوں اَحادیثِ صحیحہ کا منکر ہے ۔
سوال :2: قرآن حکیم سے حضور ا کے علم غیب پر چند دلائل پیش کریں؟
جواب : قرآن حکیم سے3 آیات بطورِ دلیل پیش کی جاتی ہیں ۔
[دلیل :۱]
{ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعََکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآئُ}
ترجمہ :’’اور اَللہ کی یہ شان نہیں کہ اے عام لوگو! تم کو غیب کا علم دے، ہاں ! اَللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے چُن لیتا ہے۔‘‘ [ اٰل عمران:۱۷۹۔ پ:۴]
فائدہ : اِس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ اَللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کوبعض علم غیب عطا فرماتا ہے۔
[دلیل :۲]
{ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَ کَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا} [ النساء:۱۱۳۔پ:۵] ترجمہ : ’’ اور تم کو سکھایا جو کچھ تم نہیں جانتے تھے اور اَللہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔‘‘
فائدہ : اِس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر جلالین، تفسیر کبیر، تفسیر خازن، تفسیر طبری اور دیگر معتبر
تفاسیر میں یہ بات موجود ہے کہ اِس آیتِ کریمہ میں اَللہ تعالیٰ نے حضور ا کو جو علم سکھایا، وہ علمِ غیب اور اَحکامِ دین ہیں۔ [تفسیر جلالین :۸۷]،[تفسیر کبیر :۶؍۳۹]،[تفسیر خازن :۱؍۴۲۹]،[تفسیر طبری:۵؍۱۷۷]
[دلیل :۳ ]
{ وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ } [ التکویر:۲۴۔پ:۳۰ ]
ترجمہ : ’’ اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں۔‘‘
فائدہ : تفسیر بیضاوی و تفسیر خازن میں ہے کہ اِس آیتِ کریمہ سے ثابت ہو ا کہ اَللہ تعالیٰ نے رسولِ اَکرم ا کو علم غیب عطا فرمایا تھا اور حضورا اِس علم غیب کو چھپاتے بھی نہیں تھے بلکہ صحابۂ کرام کو بھی بتاتے تھے۔ [تفسیر بیضاوی:۱؍۷۸۶]۔[تفسیر خازن :۴؍۳۵۷]
سوال :3: رسولِ اَکرم ا کے علم غیب پر چند معتبر اَحادیثِ مبارکہ پیش کریں؟
جواب: اَحادیثِ مبارکہ میںسے4 اَحادیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں۔
[دلیل :۱]
{ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِھَابٍ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُوْلُ قَامَ فِیْنَا النَّبِیُّ مَقَامًا فَاَ خْبَرَنَا عَنْ بَدَأِ الْخَلْقِ حَتّٰی دَخَلَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ مَنَازِ لَھُمْ وَ اَھْلُ النَّارِ مَنَازِ لَھُمْ }
[صحیح بخاری، کتاب بدأ الخلق،باب ماجاء فی قول اللہ :وہوالذی یبدؤ:۱؍۴۵۳]
ترجمہ : ’’حضرت طارق بن شہاب ص روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق صکو فرماتے ہوئے سُنا کہ رسول ِاَکرم ا ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، پس ہمیں اِبتدائے خلق کی خبر دی، یہاں تک کہ جنتی لوگ اپنی جگہوں میں چلے گئے اور جہنمی لوگ اپنی جگہوں میں (یعنی ہمیں اِبتدائے خلق سے لے کر قیامت کے بعد تک کے تمام واقعات کی خبر دی)۔
فائدہ : اِس حدیثِ مبارک سے یہ بات واضح ہوئی کہ اَللہ تعالیٰ نے رسولِ اَکرم اکو مخلوق کے پیدا ہونے سے لے کر قیامت کے بعد تک کے تمام اَحوال وحوادثات کا علم دیا تھا اور حضور ا نے یہ علم صحابہ کرامث کو بھی عطا فرمایا ۔
[دلیل :۲]
{ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا: ہَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِیْ ہٰہُنَا ؟ فَوَاللّٰہِ ! مَایَخْفٰی عَلَیَّ خُشُوْعُکُمْ وَلَا رُکُوْعُکُمْ، اِنِّی لَاَرَاکُمْ مِّنْ وَّرَائِ ظَہْرِیْ }
ترجمہ : ’’ رسولُ اللہا نے فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا قبلہ یہاں(سامنے) ہے، پس اَللہ ل کی قسم ! مجھ پر تمہارا رکوع اور خشوع پوشیدہ نہیں ہے ،بے شک میں اپنے پیچھے سے تمہیں ایسے ہی دیکھتا ہوں جیسے میں تمہیں (سامنے سے) دیکھتا ہوں ۔ [ صحیح بخاری،کتاب الصلوۃ ،باب عظۃ الناس الامام:۱؍۵۹]
فائدہ : اِس حدیثِ پاک سے یہ بات ثابت ہوئی کہ رسول اللہ اکے لیے آگے اور پیچھے کو جاننا ایک جیسا ہے یعنی آپ ا اپنے پیچھے کی چیزوں کو بھی اِسی طرح جان لیتے ہیںجیسے آپ آگے کی چیزوں کو جانتے ہیں تویہ حضور اکے علمِ غیب کی واضح دلیل ہے۔
[دلیل :۳]
{ عَنْ اَنَسٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا: ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ وَیَضَعُ یَدَہُ عَلَی الْاَرْضِ ہٰہُنَا وَہٰہُنَا ، قَالَ فَمَا مَاطَ عَنْ مَوْضَعِ یَدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ }
ترجمہ :’’حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ انے فرمایا کہ یہ فلاں کے مرنے کی جگہ ہے اور آپ اپنا ہاتھ اُس زمین پر رکھتے کہ یہاں یہاں کافر مریں گے ،راوی کہتے ہیں کہ کوئی کافر رسول اللہ اکے ہاتھ لگانے کی جگہ سے آگے پیچھے نہیں ہوا ۔‘‘ [صحیح مسلم،کتاب الجہاد ،باب غزوۃ بدر : ۲؍۱۰۲]
فائدہ : اِس حدیثِ مبارک سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ انے جنگ بدر کے ایک دن قبل ہی کافروں کے مرنے کی جگہ بھی بتادی حالانکہ ابھی جنگ بھی شروع نہ ہوئی تھی تویہ حضور اکے علم غیب کی واضح دلیل ہے ۔
[دلیل :۴]
{ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا : فَعَلِمْتُ مَافِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَعَلِمْتُ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ } قال التّرمذی ہذا حدیث حسن ۔
[جامع الترمذی :۲؍۱۵۵،۱۵۶،مرقات شرح مشکوۃ : ۲؍۲۱۰]
ترجمہ :’’ حضرت ابن عباس صفرماتے ہیں کہ رسول اکرم انے فرمایاکہ ایک دن
میں نے خواب میں ربّ ذوالجلال کا دیدار کیا تو میں نے زمین وآسمان کی ہر چیز کو جان لیا اور ایک روایت
میں ہے کہ میں نے مشرق ومغرب کے درمیان ہر چیز کو جان لیا۔‘‘ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے ۔
فائدہ : اِس حدیثِ مبارک سے ثابت ہوا کہ رسول اکرم ا تمام زمین وآسمان اور مشرق ومغرب کے درمیان کے علوم کو جانتے ہیںجو آپ اکے علمِ غیب جاننے کی واضح دلیل ہے ۔
Post a Comment