رفیق وارث مصباحی
جوہانسبرگ( ساوتھ افریقہ)
کلام کی اصلاح کیسے ہو ؟
قدسیؔؔ: متقدمین اساتذہ کے پہلو بہ پہلو
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ شعر پر اصلاح دینا مشکل ترین عمل ہے۔ یہ ملکہ شعرگوئی کی طرح خداداد ہوتا ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں، تاہم اگر مسلسل محنت اور مشق کی جائے تو انسان’’شاعر‘‘ سے لے کر ’’استاد‘‘تک کا مقام بخوبی حاصل کر سکتا ہے۔
اردو میں نو آموز با ذوق شعراء کی یہ خواہش رہی ہے کہ کسی کہنہ مشق استاذ کی نگاہ کے نتیجے میں اس کے کلام کی تمام تر کمزوریاں دور ہو جائیں۔کیونکہ کلام جب صاف اور شفاف ہو تو یہ ناقد کے علمی، فنی اور لسانی حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب استاذ اصلاحی کوششوں کے سلسلے میںمخلص ہو اور اپنے تلامذہ کی فکری صلاحیتوں کو نکھار نے میں ہمہ تن مستعد اور سرگرمِ عمل ہو۔
زیر نظر مضمون میں ایسے ہی مستند اور متقدمین شعراء کے دوش بدوش ما بعد جدیدیت کے ایک مستند اور معتبر شاعر علامہ قدسی کی اصلاحات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ نو آموز شعراء ان کے رہنمایانہ خطوط پر چل کر اپنی راہیں متعین کر سکیں۔ متقدمین اساتذہ کی یہ اصلاحیں توجیہات علامہ سیماب اکبر آبادی کی تصنیف’’دستورِ اصلاح‘‘ سے مستعار ہیں۔ملاحظہ فرمائیں ان کی چند فکری جھلکیاں۔
رنگ اصلاح:استاذ میر تقی میرؔ
تلمیذ :لالہ ٹیک چند بہار
شعر: تھی زلیخا مبتلا یوسف کی اور لیلیٰ کا قیس
یہ عجب منظر ہے جس کے مبتلاہیں مرد وزن
اصلاح بر مصرعہ ثانی:
حسن کیا مظہر ہے جس کے مبتلا ہیں مردوزن
توجیہہ:’’یہ‘‘کا مشار الیہ موجود نہیں تھا جسے بدل کر حسن کردیا گیا ۔اس کے علاوہ منظر اور مظہر میں جو لطیف فرق ہے،ذوقِ سلیم بھی اس کا ادراک کر سکتا ہے۔
رنگ اصلاح:استاذ ناسخ لکھنوی
تلمیذ:آباد لکھنوی
شعر:ایک دن دیکھا تھا تیرے عارضِ شفاف کو ۔ آنکھ نرگس کی بنی ہے چشم حیراں باغ میں
اصلاح پر مکمل شعر:
ایک دن دیکھا تھا اس کے عارضِ شفاف کو۔دیدۂ نرگس بنا ہے چشم حیراں باغ میں
توجیہہ:اصلاح کے بعد شعر میں چستی اور سلاست پیدا ہو گئی
’’آنکھ نرگس کی بنی ہے ‘‘پانچ الفاظ کا ایک جملہ تھا ۔اصلاح کے بعد چار الفاظ ہی رہ گئے اور مفہوم وہی رہا۔یہ ایجاز و اختصار اردو شاعری کی جان ہے۔ اس سے شعر کی بندش میں چستی پیدا ہوتی ہے نیز پہلے مصرع میں’’اس کے‘‘ تیرے سے زیادہ فصیح ہے۔
رنگ اصلاح: استاذ مرزا غالبؔ دہلوی تلمیذ:صوفی
شعر: شبِ معراج فلک سے گزرا ۔رتبہ جن و ملک سے گذرا
اصلاح بر مصرعِ ثانی:سرحد ملک ملک سے گذرا
توجیہہ:پہلے مصرع میں’’فلک سے گذرا‘‘کہہ کر ’’رتبہ جن و ملک‘‘ سے کہنا بے جوڑ بات تھی ۔یعنی فلک ’’رتبہ جن و ملک‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’مسکن ملائک ‘‘ہے۔ایک تو رتبہ بے محل ،پھر جن بے محل ،مرزا غالبؔ نے فلک کو ملک ملک کہہ کر نئی بات پیدا کردی ۔ (ملک ملائک کہنا چاہئے تو ضرورت شعری کی وجہ سے یوں کہنا بھی جائز ہے)
رنگ اصلاح: استاذ امیر مینائی لکھنوی تلمیذ:کوثر خیر آبادی
شعر: کسر نہ رونے میں اے چشم تر اٹھا رکھنا۔ ذرا جو تھم گئے آنسو تو کر کری ہوگی
اصلاح بر مکمل شعر
جھپک نہ جائے مری آنکھ ابر ترسے کہیں۔ذرا جو تھم گئے آنسو ،بڑی ہنسی ہو گی
توجیہہ:بادی النظر میں شعر اپنے مفہوم میں مکمل تھا،مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’کرکری ہونا‘‘بڑی ذلت کی بات تھی ۔اس لئے اسے متین پیرایہ دے دیا گیا ۔
اب رونے اور ہنسنے میں بھی ایک ربط پیدا ہو گیا۔
رنگِ اصلاح:استاذ مرزا داغ دہلوی تلمیذ: سیماب اکبر آبادی
شعر: تن آسانی ہماری بڑھ گئی اتنی محبت میں
کہ اب نالہ فلک کی سیر کرنے کم نکلتا ہے
اصلاح بر مصرعِ اولیٰ :
ہماری ناتوانی بڑھ گئی اتنی محبت میں
توجیہہ: محبت میں تن آسانی ایک بے جوڑ سی بات تھی ۔محبت کرنے والا تن آساں ہو ہی نہیں سکتا ۔اصلاح کے بعد یہ عیب نکل گیا اور نالہ نہ کرنے کا صحیح ثبوت بہم پہنچ گیا۔
یہ چند متقدمین اساتذہ کی اصلاحوں کے نمونے تھے جو دوران اصلاح زبان و بیان اور حسن تخیل کا بھرپور لحاظ رکھتے ہیں۔
علامہ قدسی بلا شبہہ اپنے ان مستند اساتذہ کی یادگار ہیں جنھوں نے اپنی بے پناہ کاوشوں سے اردو ادب کے دامن کوہر طرح کے حسن سے مالا مال کیا ،اس کے وقار اور تقدس کا ہر دم خیال رکھا اور پوری دنیا میں اس زبان کی تہذیب،شائستگی اور دل آویزی کی بہار پھیلانے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو صرف کیا۔
اس لئے اس مقام پر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ علامہ قدسی کی شاعرانہ شخصیت کا بھی ایک سر سری جائزہ لے لیا جائے۔ تاکہ بحیثیت ’’استاذ‘‘ان کے مقام و مرتبہ تک رسائی ہو۔
عظیم ناقد حقانی القاسمی آپ کی غزلیہ شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں ’’اردو کی غزلیہ شاعری جن مخصوص لفظیات و فکریات میں محصور ہے ،قدسیؔ کی شاعری محصوریت کے اس احساس سے باہر نکالتی ہے ،کیونکہ ان کی غزل میں لفظیات کو برتنے کی تکنیک یا منطق عمومیت سے ما ورا ہے ‘‘۔
معروف و معتبر نقاد ڈاکٹر کرامت علی کرامتؔ لکھتے ہیں ’’1980کے بعد ابھرنے والے نتمام جدید تر شاعروں میںقدسیؔ کا ایک اہم مقام ہے‘‘۔
مشہور شاعر اور ناقد مظہر امام کہتے ہیں:’’سید اولاد رسول نشاطِ جاناں اور غمِ دوراں دونوں کے شاعر ہیں۔وہ ایک حساس اور درد مند دل رکھتے ہیں ،اس لئے مکروہاتِ زمانہ کا اظہار بھی ان کے کلام میں اثر آفرینی کے ساتھ ہوا ہے‘‘۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ قدسی کی غزل گوئی جدید رجحانات و احساسات کی نمائندگی کرتی ہے۔ پامال زمین پر چلنا ان کی فکری اور فنی عظمتوں کے خلاف ہے۔ اس لئے وہ ہمیشہ نئے آفاق کے تلاش میں رہتے ہیںاور چٹانوں کو توڑ کر خود اپنی راہ بناتے ہیں۔
جہاں تک قدسی کی نعتیہ شاعری کی انفرادی شناخت کا سوال ہے تو اس سلسلے میں ارباب علم وادب و دانش کی الگ الگ رائے ہیں۔ڈاکٹر خواجہ اکرام لکھتے ہیں ’’نعتیہ شاعری میں ان کا اسلوب جدت کا حامل ہے۔ جہاں ان کے اشعار عشق کی سرمستی اور سرمدی جذب و کیف میں ڈوبے ہوئے ہیں وہیں بعض اشعارایسے ہیں جو اخلاق و نصیحت پر مبنی ہیں ۔نعت گوئی کی عام روایت یہ رہی ہے کہ اس میں عشق رسول پر مبنی اشعار ہی کہے جاتے ہیں مگر سیداولاد رسول قدسی نے عشق اور محبت کے درمیان جو ربط قائم کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے‘‘۔
ڈاکٹر مظفر حسن عالی لکھتے ہیں’’صنائع،بدائع کی روشنی میں جب ہم سید اولاد رسول قدسی کے نعتیہ کلام کا محاسبہ کرتے ہیں تو ہمیں کم و بیش وہ ساری خوبیاں ان کے کلام میں مل جاتی ہیں جو دیگر مشاہیر شعراء کے کلام میں پائی جاتی ہیں ‘‘۔
مشہور ادیب و شاعر سید نظمی میاں مارہروی رقم طراز ہیں ’’انگریزی ادب میں ایم۔اے کرنے کے بعد درس نظامی کی بھٹی میں تپ کر کندن بننے والے اس سید زادے نے اپنے اس علمِ دو آتشہ کو جب نعت گوئی کی طرف موڑ دیا تو غزل پکار اٹھی ،کاش میں نعت کے کنبے میں پیدا ہوتی۔‘‘
اخیر میں معروف و معتبر قلم کار ملک الظفر سہسرامی کی یہ رائے بھی ملاحظہ فرمالیں:
’’سید اولاد رسول قدسی نعتیہ شاعری کی محراب و منبر کی عظمت و حرمت کے پاسدار واقع ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنے لب و لہجہ سے سے نعتیہ شاعری کو نیا رنگ و آہنگ دیا ۔نئے استعارات،منفرد تشبیہات ،خوب صورت لفظیات اور جدید تراکیب نے قدسی کے نعتیہ دیوان کو شعروسخن کا شاہکار بنا دیا ‘‘۔
علامہ قدسی کی شاعرانہ شخصیت پر ان جیسے بیسوں اہل علم کے فاضلانہ تاثرات ہیں جو قدسی کے مقام اور مرتبہ کو متعین کرتے ہیں،جن کی تفصیلات ’’قدسی شخص اور شاعر‘‘اور دیگر شعری مجموعوں میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔
یہاں خاکسار کا ایک منظوم ِتاثر قارئین کی نذر ہے جو 2005ممبئی کے قدسی سیمینار میں پیش کیا گیا تھا۔اس تاریخ ساز سیمینار کی خصوصیت یہ تھی کہ ملک و بیرون ملک کی مقتدر علمی و ادبی شخصیات علامہ قدسی کے شاعرانہ فن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے جلوہ بار تھیں۔مثنوی رنگ میں کہا گیا یہ کلام اسٹیج پر موجود محققین و ناقدین کی توجہات کا مرکز بن گیا اور توقعات سے کئی گنا زیادہ اس کاوش کو پذیرائی نصیب ہوئی۔
نذرِ قدسی
مرحبا صد مرحبا اے منبع علمی وقار۔گلشنِ شعروسخن کی تو حسیں تازہ نکھار
وسعتِ شعروادب کے بحرِ ناپیدا کنار۔آبروئے قوم و ملت ہو گئی تجھ پر نثار
زینتِ اردو ہے تیرا نعتیہ رنگ ِ سخن۔رہتی دنیا تک رہے گا تیرا دیوانہ زمن
اے امیرِ شعرو حکمت لمعۂ تقدیر تو ۔واصفِ شاہِ امم میں صدق کی تحریر تو
وارثِ علمِ علی اور نور کی تفسیر تو۔اور مدح پنجتن کے چرخ کی تنویر تو
تیرے حسن ِ فکر کی پھیلی ہے ایسی روشنی ۔جس سے پژمردہ چمن میں آگئی ہے تازگی
خالقِ عالم نے نکتہ آفرینی کی عطا۔جذبۂ حبِ نبی نے نغمہ باری کی عطا
نعت کے پیرائے میں مہر غلامی کی عطا ۔دین فہمی، خود شناسی، جاں نثاری کی عطا
آبرو ہے تیری ہستی علم کے ایوان کی ۔لوگ مانیں یا نہ مانیں ہم نے آخر مان لی
٭٭٭
Post a Comment