کلام میں عقل کی رعایت Kalam Me Aqal Ki Riyat

کلام میں عقل کی رعایت 

چونکہ عادت شریف تھی کہ حتیٰ الامکان بحسب عقول و فہم سامعین کے کلام فرمایا کرتے تھے ۔ اور پہلے سے فرشتوں کی عظمت سامعین کے اذہان میں جمی ہوئی تھی اور ان کی وسعت علم کا کسی کو استبعاد نہ تھا اس لئے برعایت بعض سامعین ارشاد فرمایا کہ جو درود دور پڑھا جائے فرشتہ پہونچا دیا کرتا ہے ۔ فہم سامعین کی رعایت دوسری حدیثوں سے ثابت ہے چنانچہ زرقانی شرح مواہب میں روایت ہے : 
حدثواالناس بمایعرفون أتریدون ان یکذب اللہ ورسولہ ۔ رواہ الدیلمی عن علی ورفعہ و ہوفی البخاری موقوف علیہ 
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ بیان کرو تم لوگوں سے وہ باتیں جو وہ پہچانتے ہوں کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی تکذیب ہوجائے ۔ انتہیٰ ۔
یعنے ایسی باتیں کہنا چاہئے کہ مخاطب کی سمجھ میں آسکیں ۔ اور اسی مضمون کی مؤید یہ بھی حدیث ہے جو زرقانی میں مروی ہے :
وروی الحسن بن سفیان عن ابن عباسؓ یرفعہ أمرت ان اخاطب الناس علی قدر عقولہم ، قال الحافظ و سندہ ضعیف جدا لا موضوع
ترجمہ : فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ حکم کیا گیا میں کہ خطاب کروں لوگوں سے ان کی عقلوں کے موافق ۔ انتہیٰ ۔ 
اسی وجہ سے جو وقائع شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ملاحظہ فرمائے ہر شخص سے بیان نہ فرمایا بلکہ ہر ایک کو اس کے حوصلہ کے موافق خبر دی چنانچہ توفیق احادیث معراج میں صاحب مواہب نے اس کی تصریح کی ہے ۔ 
الحاصل کسی مصلحت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع میں اپنے علم ذاتی کی تصریح نہ فرمائی جو دوسری احادیث میں مصرح ہے ، ورنہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حق تعالیٰ ایک فرشتہ کو تو اس قدر علم سے سرفراز کرے اور خاص اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اس سے ممتاز نہ فرمائے ، بسبب غرابت مقام کے اسی پر اختصار کیا گیا ۔ 
یہاں کلام اس میں تھا کہ تمام روئے زمین پر جس قدر درود پڑھے جاتے ہیں سب کو ایک فرشتہ سنتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اسی وقت عرض کر دیتا ہے ۔ اور یہ طریقہ سوائے اس کے ہے جو عرش سے ہوکر حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں درود گزرانا جاتا ہے
اور سوائے اس کے علیحدہ فرشتے بھی مقرر ہیں جو درود حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں گزرانتے ہیں چنانچہ اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے : 
من صلی علیّ صلوٰۃ جاء نی بہا ملک فأقول بلغہ عنی عشراً و قل لہ لوکان من ہذہ العشرۃ واحدۃ لدخلت معی الجنۃ وحلت لک شفاعتی ۔ رواہ ابوموسی المدنی عن أبی ہریرۃؓ ذکرہ فی الوسیلۃ العظمی
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے ایک فرشتہ وہ درود میرے پاس لاتا ہے پس میں کہتا ہوں کہ میرے طرف سے دس درود اس کو پہونچا اور کہدے اگر ان دس میں سے ایک بھی ہوتو تو میرے ساتھ جنت میں داخل ہوجائے اور میں تیری شفاعت کروں ۔ انتہیٰ۔ 
اور اسی طرح سلام پہونچانے کے لئے بھی کئی فرشتہ مقرر ہیں کہ ہمیشہ اسی کے تلاش میں پھرا کرتے ہیں ۔ پھر جہاں کسی نے سلام عرض کیا فوراً گزران دیتے ہیں چنانچہ مسالک الحنفا میں روایت ہے ۔
عن ابن مسعودؓ قال ان للہ ملائکۃ سیاحین یبلغونی عن امتی السلام ، رواہ احمد والنسائی والدارمی و البیہقی و ابن حبان و الحاکم فی صحیحیھما وقال صحیح الاسناد 
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ حق تعالیٰ نے کئی فرشتہ مقرر کئے ہیں کہ سیاحت کیا کرتے ہیں اور پہنچاتے ہیں مجھ کو سلام میری امت کا ۔ انتہیٰ ۔ 
پس معلوم ہوا کہ جیسے درود شریف گزرانے جانے کے دو ذریعہ ہیں اسی طرح سلام عرض ہونے کے بھی دو ذریعہ ہیں : ایک جبرئیل علیہ السلام ، دوسرے یہ ملائک ۔
مناسب اس مقام کے اور بہت سی حدیثیں صحیح و ضعیف وغیرہ ہیں ، منجملہ ان کے دو تین حدیثیں یہاں بیان کی جاتی ہیں ہر چند بعض محدثین نے ان میں کلام کیا ہے مگر ہم یہاں اتباع ان محدثین کا کرتے ہیں جنہوں نے ان کو روایت کیا ہے قسطلانیؒ نے مسالک الحنفا میں اس حدیث کو نقل کیا۔
 عن انس بن مالک عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال من صلی علی صلوۃ تعظیما لحقی جعل اللہ من تلک الکلمۃ ملکا جناح لہ فی المشرق و جناح لہ فی المغرب ورجلاہ فی تخوم الارض و عنقہ ملتویۃ تحت العرش ، یقول اللہ تعالیٰ لہ ’’صل علیّ عبدی کما صلی علی نبیّی ‘‘ فہویصلی علیہ الی یوم القیامۃ رواہ ابن شاہین فی الترغیب والدیلمی فی مسند الفردوس و ابن بشکوال و ہذا حدیث منکر 
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جو شخص مجھ پر ایک درود پڑھے میرے حق کی تعظیم کے واسطے تو حق تعالیٰ اس کلمہ سے ایک فرشتہ ایسا پیدا کرتا ہے کہ ایک بازو اس کا مشرق میں ہوتا ہے اور ایک مغرب میں اور پاؤں زمین کے نیچے اور عرش کے نیچے اس کی گردن جھکی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس کو فرماتا ہے تو درود پڑھ اس میرے بندہ پر جیسا کہ اس نے میرے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھا تو وہ قیامت تک اس پر درود پڑھتا رہے گا ۔ روایت کیا اس کو ابن شاہین نے اپنی کتاب ترغیب میں اور دیلمی نے فردوس میں اور ابن بشکوال نے ۔
اور یہ روایت بھی مسالک الحنفا میں ہے : وعن معاذ بن جبلؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان اللہ أعطانی مالم یعط احدا من الأنبیاء و فضلنی علیہم وجعل لأمتی فی الصلوۃ علیّ افضل الدرجات ، وکل بقبری ملکا یقال لہ منطوش رأسہ تحت العرش ورجلاہ فی تخوم الارض السفلی ولہ ثمانون ألف جناح فی کل جناح ثمانون ألف ریشۃ تحت کل ریشۃ ثمانون ألف زغبۃ تحت کل زغبۃ لسان یسبح اللہ تعالیٰ و یحمدہ و یستغفرلمن یصلی علیّ من أمتی و من لدن رأسہ إلی بطون قدمیہ افواہ و لسن و ریش وزغب لیس فیہ موضع شبرإلا و فیہ لسان یسبح اللہ تعالیٰ و یحمدہ و یستغفرلمن یصلی علی من أمتی حتی یموت ۔ رواہ ابن بشکوال و ہو غریب منکر بل لوائح الوضع لائحۃ علیہ
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ حق تعالیٰ نے مجھے وہ رتبے دیئے ہیں جو کسی نبی کو نہ ملے اور مجھ کو سب نبیوں پر فضیلت دی ۔ اور اعلیٰ درجے مقرر کئے میری امت کے لیے مجھ پر درود پڑھنے میں اور متعین فرمایا میری قبر کے پاس ایک فرشتہ جس کا نام منطوش ہے ۔ اس کا سر عرش کے نیچے اور پاؤں منتہائے زمین اسفل ہیں۔ اور اس کے اسی ہزار بازو ہیں اور ہر بازو میں اسی ہزار پر اور نیچے ہر پر کے اسی ہزار رونگٹے اور ہر رونگٹے کے نیچے ایک زبان ہے جس سے تسبیح و تحمید اللہ تعالیٰ کی کیا کرتا ہے اور اس شخص کے لئے دعائے مغفرت کیا کرتا ہے جو میرا امتی مجھ پر درود پڑھے اس کے سر سے قدم کے نیچے تک تمام منہ اور زبانیں اور پر اور رونگٹے ہیں ۔ کہیں بالشت بھر جگہ اس میں ایسی نہیں کہ جس میں زبان نہ ہو اُس کا کام یہ ہے کہ تسبیح اور تحمید اللہ تعالیٰ کی اور طلب مغفرت ان لوگوں کے حق میں کیا کرے جو مجھ پر درود پڑھا کرتے ہیں مرنے تک ۔ روایت کیا اس کو بشکوال نے ۔ انتہیٰ ۔
اور وسیلۃ العظمی میں مروی ہے : من عطس فقال ’’ الحمد للہ علی کل حال ماکان من حال وصلی اللہ علی محمدؐ و علی اہل بیتہ ‘‘ اخرج اللہ من منخرہ الایسرطیراً أکبر من الذباب وأصغر من الجراد یرفرف تحت العرش یقول : اللہم اغفرلقائلھا۔ رواہ ابن بشکوال عن ابن عباسؓ 
ترجمہ : روایت ہے ابن عباسؓ سے کہ جو شخص چھینک کر کہے الحمد للہ الخ نکالتا ہے حق تعالیٰ اس کی ناک کے بائیں نتھنی سے ایک پرندہ مکھی سے بڑا اور ٹڈے سے چھوٹا جو عرش کے نیچے پر ہلاتا ہوا یہ کہتا ہے ( اللہم اغفرلقائلہا ) یعنے یااللہ بخش دے اس حمد و صلوۃ کے کہنے والے کو ، روایت کیا اس کو ابن بشکوال نے انتہیٰ ۔ امام سخاوی ؒنے قول بدیع میں لکھا ہے کہ سند اس حدیث کی ٹھیک ہے مگر اس میں یزید بن ابی زیاد ہیں کہ اکثروں نے ان کو ضعیف کہا ہے ، لیکن مسلم نے اُن کی حدیث کو بطور متابعت ذکر کیا ہے ۔ انتہیٰ ۔
ف : اب یہاں بمناسبت مقام کے چند بحثیں کی جاتی ہیں ۔ اگر ناظرین اس کو پیش نظر رکھیں تو توقع ہے کہ اکثر مقامات میں بکارآمد ہوں گی :

بحث اول :

یہ ہے کہ شاید بعض لوگوں کو اس بات کے سمجھنے میں تأمل ہوگا کہ الفاظ سے پرندہ کیوں کر پیدا ہوسکے ۔ تو اس شبہہ کو یوں دفع کرناچاہئے کہ اس قسم کے امور میں کبھی فکر کرنے کا اتفاق نہ ہوا ۔ ورنہ قطع نظر اس کے کہ قدرت خدائے تعالیٰ کی مانی جائے ۔ خود ہمارے روبرو ایک ایسا کارخانہ جاری ہے کہ جس سے اس قسم کے شبہات کا جواب ہورہا ہے ۔ دیکھ لیجئے کہ ہر روز جو غذائیں از قسم نباتات کھائی جاتی ہیں ان سے خون وغیرہ اخلاط پیدا ہوتے ہیں پھر ان سے گوشت اور بعض وہ فضلات کہ جن سے اولاد ہوتی ہے ۔ اب ان صورتوں کے انقلاب کو دیکھئے کہ نبات کو حیوان سے کیا تعلق ہے جو اس سے یہ تولید ہورہی ہے ، اسی طرح اور دوسری جسمانی قوتوں کا مدار غذا ہی پر ہے حالانکہ باہم کوئی مناسبت نہیں ۔ اور اکثر لوگوں نے دیکھا ہے کہ کملے سے (جو ایک قسم کاکیڑا ہے ) پرندہ پیدا ہوتا ہے اور اقسام کے کیڑوں کو ڈکوری اپنے جنس سے بنالیتی ہے ۔ 
الحاصل تعمق نظر سے بہت نظیریں مل سکتی ہیں جن سے معلوم ہوجائے کہ توالد کے لئے جنسیت شرط نہیں، یعنے ضروری نہیں کہ ہر چیزاپنی جنس ہی سے پیدا ہوا کرے ۔ پھر اگر انہیں محسوسات میں مشاہدہ سے قطع نظر کرکے دیکھئے تو اکثر لوگوں کی عقل اُس کے سمجھنے میں حیران ہوجائے ۔ دیکھ لیجئے کہ اگر کوئی خبر دے کہ غلے اور پتوں سے آج ایک لڑکا پیدا ہوا تو یکایک یہ سمجھ میں نہ آئے گا حالانکہ یہی بات ایک اعتبار سے صحیح بھی ہے ، پھر یہ تولید جو سمجھ میں آتی ہے یہ بھی بطفیل مشاہدہ کے ہے ورنہ عقل اس کو بھی باورنہ کرتی ، اس سے معلوم ہوا کہ مدار ایسی عقل کا صرف مشاہدہ پر ہے اس عقل کے روبرو جب تک چراغ مشاہدہ کا نہ ہو ایک قدم نہ چل سکے گی اور منزل مقصود تک کبھی نہ پہنچائے گی اگر منظور ہو امتحاناً کسی سے پوچھ دیکھئے کہ تم نے کسی جسم کو مثلاً دیوار کو کبھی آنکھ سے دیکھا
بھی ہے یا یوں ہی صرف عقل سے جانتے ہو کہ جسم ہے تو غالباً یہی کہے گا کہ جسم شئے محسوس ہے ہمیشہ دیکھا کرتے ہیں ۔ پھر پوچھئے کہ جسم کس کو کہتے ہیں ۔ یہی کہے گا کہ جس کو طول عرض عمق ہو ۔ پھر پوچھئے کہ بھلا طول و عرض تو دکھائی دیتا ہے ۔

کیا عمق یعنے دَل بھی نظر آتا ہے ۔ اب اگر کہے کہ ہاں نظر آتا ہے تو جھوٹ ہے کہ سطح کے اندر جسم میں نظر نہیں گھستی ۔ اور اگر کہے نہیں ، تو معلوم ہواکہ جسم کو کبھی دیکھا ہی نہیں ۔ کیونکہ جسم کا دیکھنا تو جب ہی صادق آئے کہ اس کے تینوں جز دیکھا ہو اور جو اس سے ایک بھی نہ دیکھا تو وہ جسم نہ ہوا بلکہ جس چیز کو دیکھا وہ سطح ہے جو جسم کا ایک عرض ہے ، اب دیکھئے کہ سمجھ رہے تھے کہ جسم نظر آتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ جسم کا ایک عرض نظر آتا ہے حالانکہ جسم جوہر ہے ۔ اس سے بھی عقل کا حال معلوم ہوگیا کہ اکثر حکم میں غلطی کیاکرتی ہے پھر ہر شخص کو اسی عقل پر ناز ہے کہ جس سے بڑے بڑے عقلا پر اعتراض کردیا کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ خود مخبر صادق صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات میںعقل لگانے پر بعض لوگ مستعد ہوجاتے ہیں سو یہ بڑی خطر کی بات ہے ہر مسلمان کو اس سے بچنالازم ہے ورنہ کہیں حال اُن لوگوں کا سا نہ ہوجائے جو لاالہ الا اﷲ سن کر کہنے لگے { اجعل الاٰ لھۃ الھٰا واحدا ان ھٰذا لشیٔ عجاب } یعنے کیابنادیا (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ) تمام معبودوں کو ایک معبود یہ تو بڑے تعجب کی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آتی ، دیکھ لیجئے کہ اسی عقل نارسا نے ان کو کیسے بے راہ چلایا اور آخر کہاں پہونچادیا ۔ 

دوسری بحث :

یہ ہے کہ شاید اتنے بڑے فرشتہ کاوجود مستبعد سمجھا جائے گا تو دیکھنا چاہئے کہ یہ استبعاد کس چیز سے ناشی ہے آیا تخلیق اس کی مستبعد ہے یا وجود فی نفسہ ۔ تخلیق میں استبعاد کی گنجائش نہیں اس لئے کہ چھوٹی سی چھوٹی مخلوق اور بڑی سی بڑی تخلیق کے حق میں برابر ہے ۔ کیوں کہ وہاں تو سوائے قول ’کن ‘کے کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں ، چنانچہ فرماتے ہیں قولہ تعالیٰ انما قولنا لشیٔ اذا اردنہ ان نقول لہ کن فیکون یعنے جب ہم ارادہ کرتے ہیںکسی چیز کے پیدا کرنے کا تو صرف
’’کُن‘‘کہدیتے ہیں اور وہ پیدا ہوجاتی ہے ۔ پھر جب حق تعالیٰ اس کو پیدا کردے تو وجود اس کا ضروری ٹھہرا ۔ اب اس کو عقل سے دور سمجھنا عقل کی کوتاہی پر دلیل ہوگا ۔

تیسری بحث :

یہ ہے کہ قسطلانیؒ نے ان بعض حدیثوں کی نسبت جو کہا ہے کہ منکرہیں اور آثار وضع کے ان سے نمایاں ہیں سو اس میں تصریح اس امر کی نہیں کہ واقع میں موضوع ہیں یہ بحث فن اصول حدیث سے متعلق ہے ہم نے اس باب میں ایک رسالہ ’’الکلام المرفوع فی الحدیث الموضوع ‘‘لکھا ہے اس میں محدثین کی تصریحات سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ اس قسم کے اطلاقات سے یہ یقین نہیں ہوسکتا کہ الفاظ حدیث قطعاً موضوع اور کسی کے بنائے ہوئے ہیں ۔
Previous Post Next Post