خاتمہ دیگر تحقیق انیق متعلق مسئلہ تراویح میں Khatima Digar Tahqeeq Aneeq Mutaliq Masala Taraweeh Me

خاتمہ دیگر تحقیق انیق متعلق مسئلہ تراویح میں

پہلی فصل میں بیس رکعات تراویح پر خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ سید المرسلین صلوات اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین کے عمل کرنے اور مواظبت فرمانے کا ثبوت روایۃً اور درایۃً دیا گیا ہے جس سے یہ امریقینا واضح ہوگیا کہ بیس رکعات تراویح کا پڑھنا خلفائے راشدین اور صحابہ کی سنت ہے ۔ اور کسی محقق محدث نے بیس رکعات تراویح کی سنت صحابہ ہونے میں شک نہیں کیا ۔ ہاں اس امر میں اختلاف ہے کہ خود حضرت نبی      صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی بیس رکعات تراویح پڑھی ہیں یا نہیں۔
اس باب میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پانچ حدیث کی کتابوں میں ایک روایت موجودہے جس سے ثابت ہے کہ خو د حضرت نبی صلی اللہ علیہ  وسلم  نے بیس رکعات تراویح پڑھی ہیں۔الفاظ اس حدیث ۱؎کے یہ ہیں ۔کان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یصلی فی رمضان فی غیر جماعۃ بعشرین رکعۃوالوتر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف میں جماعت کے بغیر بیس رکعات تراویح اور وتر پڑھتے تھے ۔روایت کیا اس حدیث کو بیہقی نے اور ابن ابی شیبہ نے مگر اس میںلفظ بغیر جماعت کا نہیں ہے ۔اور روایت کیااس حدیث کو بغوی نے معجم میں اور عبد حمید نے اپنی مسندمیں۔اور طبرانی نے اپنی حدیث کی کتاب میں مگر ان سب روایتوں میں ما بین الاسنادابراہیم بن عثمان واقع ہوتا ہے اور وہ بالاتفاق متکلم فیہ اور مجروح ہے۔اس واسطے یہ سب روایتیں ضعیف ہیں لیکن واضح ہو کسی محدث نے اس حدیـــث کو موـضوع نہیں کہا۔ کسی حدیث کا ضعیف ہونااس کے موافق عمل کرنے کو مانع نہیںخاص کر جب عمل صحابہ سے اس حدیث کی تائید ہوگئی ہو۔غرض روایۃً بیشک یہ حدیث ضعیف ہے لیکن درایۃ بوجہ مواظبت صحابہ خصوصاً خلفائے راشدین اس کو پوری قوت ہے۔فتح المنان  ۲؎میں ہے۔فالظاہرانہ ثبت عند ھم صلوۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم عشرین رکعۃ کما جاء فی حدیث ابن عباس فاختارہ عمررضی اللہ عنہ ۔ترجمہ ظاہر یہ ہے کہ صحابہ کے نزدیک حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیس رکعات تراویح پڑھنا ثابت تھا جیسا حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں آیاہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اختیار کیا ۔اب اس مقام پر ایک بڑا شبہ وارد ہوتا ہے کہ حدیث ابن عباس کے مقابلہ میں جو بالاتفاق ضعیف ہے، دوسری حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ  عنہا جو بالاتفاق صحیح ہے معارض واقع ہوئی ہے، الفاظ اس کے یہ ہیں 
    ۱؎کان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  لا یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ یصلی اربعاً ثم یصلی اربعاًثم یوتربثلاث۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیںپڑھتے تھے، پہلے چار پڑھتے پھر چار پڑھتے پھر تین وتر ادا فرماتے  ۲؎ ۔ جواب اس کا ارکان اربعہ میں محدث شیخ عبد الحق دہلوی نے تویہ دیا  ہے کہ فی الواقع حدیث ابن عباس اور حدیث ام المؤ منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا باہم معارض ہی نہیں ۔حضرت نے اپنے علم کے موافق خبردی اور ہو سکتا ہے یہ بیس رکعتیں حضرت ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میںہوں جسکی خبرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہ ہوئی ہو ۔اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دیکھا ہو اور صحابہ کا بیس رکعات پر مداومت کرنا حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی صحت کا قرینہ ہے عبارت، ارکان اربعہ کی یہ ہے۳؎  قال الشیخ عبد الحق قالوا اسنادہ ضعیف یعارضہ حدیث ام المؤمنین والظاھر انہ لا معارضۃ لان ام المؤمنین انما اخبرت بما علمت ولعل رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی عشرین رکعۃفی بیت ام المؤمنین میمونۃوشاھد ذلک ابن عباس ومواظبۃالصحابۃ علی عشرین قرینۃصحت ذلک الروایۃ۔اور خاتم المحدثین مولاناشاہ عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ نے رفع تعارض میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جس سے گیارہ رکعت نمازشب ثابت ہوتی ہے ۔اسکو قیام رمضان سے تعلق ہی نہیں یہ حدیث نمازتہجد کے متعلق ہے۔اسی واسطے کتب احادیث میں باب 
قیام رمضان کوجدالکھتے ہیں اور باب قیام اللیل کو علیحدہ عبارت شاہ صاحب بجنسہ نقل کی جاتی ہے ۔پس وجہ تطبیق ایں روایات کہ دلادت برزیادت کمی وکیفی نمازآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در رمضان بر غیر آن میکند ودران روایت کہ نفی زیادت میکندانیست کہ آن روایت محمول بر نماز تہجد ست کہ در رمضان وغیررمضان یکساں بود وغالباً عدد ش بقدریا زد ہ رکعت مع الوتر میر سید ۔
دلیل برین حمل آنست کہ راوی این حدیث ابو سلمہ در تتمہ این روایت میگوید۔ قالت عائشۃ فقلت یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنام قبل ان توتر قال یاعائشۃ ان عینی تنامان ولاینام قلبی کذارواہ البخاری۔ وظاہراست کہ نوم قبل ازوتر در نماز تہجد متصور یشود نہ در غیر آن ۔وروایات زیادت محمول بر نمازتراویح ست کہ در عرف آن وقت بقیام رمضان مسمی بود کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در حق آن فرمودہ است من قام رمضان ایماناً واحتساباًغفراللہ لہ ما تقدم من ذنبہ۔ولہذادرکتب حدیث باب قیام رمضان راجد اگانہ ازباب قیام اللیل کہ عبارت ازتہجد ست منعقد کردہ اند ۔بالجملہ ازا حادیث مذکورہ والفاظ مسطورہ یعنی مزید جد واجتہاد واحیائے لیلہ وشد میر و(؟)تر غیب قیام رمضان این قدر معلوم شد کہ عدد رکعات صلوۃ درلیل رمضان نسبت غیر رمضان بسیاربودودرمصنف ابن ابی شیبہ وسنن بیہقی بر روایت ابن عباس وارد شدہ کہ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یصلی فی رمضان فی غیر جماعۃ عشرین رکعۃوالوتر اما بیہقی ایں روایت راتضعیف کر دہ بعلت آنکہ راوی ایں حدیث ابو شیبہ جدا بی بکر بن ابی شیبہ است حالانکہ ابو شیبہ آنقدر ضعف ندارد کہ روایت اومطروح کردہ شود۔ آرے اگر معارض او حدیث صحیح می بود التبہ ساقط میشود۔وقد سبق


ان مایتوھم معارضًا لہ اعنی حدیث ابی سلمۃ عن عائشۃ المقدم ذکرہ لیس معارضًا بالحقیقۃ فیبقی سالماً کیف وقد تأید بفعل الصحابۃکما روی البیہقی باسناد صحیح عن السائب بن یزید قال کانوایقومون علی عہدعمربن الخطاب فی شھر رمضان بعشرین رکعۃو روی مالک فی المؤطا عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمن عمر بثلاث وعشرین وفی روایۃ باحدی عشرۃ۔وبیہقی درین ہر دو روایت جمع نمودہ است باین طریق کہ او ل صحابہ کرام عدد یاز د ہ راکہ عدد مشہور تہجدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بود درین نمازہم اختیارکردہ بودند لعلۃالمشترکۃ بینھماوھوان کلاھماصلوۃ اللیلوچون نزد ایشان ثابت شد کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم دریں ماہ دریں قیام زیادت می کردند وصحابہ ہم زیادت می کردند وبعشرین می رسانیدند من بعد عدد بست و سہ ر ا اختیار کردندو برین عدد اجماع شد ۔ واختیار صحابہ کرام امرے راکہ دراں مداخلت عقل نباشد محمول بر تعلم قولی یا فعلی از آنحضرت   صلی اللہ علیہ وسلم  باشد کما تقرر فی اصو ل الحدیث ۔ انتہی کلامہ الشریف ۔
وفی ھذا کفایۃ لمن لہ درایۃواٰخردعوٰناان الحمدللہ رب العٰلمین والصلوۃ  والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی اٰلہ واصحابہ اجمعین۔

Post a Comment

Previous Post Next Post