امام العاشقین،زبدۃ العارفین،قدوۃالسالکین،برہان الواصلین،شیخِ کامل، عارف باللہ حضرت خواجہ سیدمحمد گیسودرازبندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ میر سید محمد گیسو دراز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
تاریخ انسانی کا ہر دور ایسے بے شمارواقعات سے بھرا پڑا ہے جب با دشاہ وقت طا قتور لشکر وزیروں مشیروں کی فوج رکھتے ہو ئے بھی بے بسی کی تصویر بنا کسی خاک نشین کے در پر ننگے پا ؤں دامن مراد پھیلائے کھڑا نظر آیا، ایسا ہی ایک واقعہ اُس وقت پیش آیا جب بر صغیر پاک و ہند پر سلطان محمدتغلق کی حکومت تھی دہلی میں تیز مو سلا دھا ربا رش ہو ئی با رش اتنی شدید تھی کہ پرا نے اور شکستہ مکانات منہدم ہو گئے ایک مکان پرانی حویلی کی طرز پر تھا تیز با رش نے دیواریں وغیرہ بھی گرادیں تو کھنڈرات سے محسوس ہونے لگا کہ یہاں پر کو ئی پرانا شاہی محل تھا بارش رکنے کے بعد کو ئی سرکاری اہلکار اُدھر سے گزررہا تھا تو اُس نے ملبے کے ڈھیر پر ایک چمک دار تختی دیکھی وہ آگے بڑھا اور اُس تختی کو اٹھا لیا اور جاکر بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دی تختی بہت پرانی لگ رہی تھی اُس پر پرانی پراسرار تحریر بھی کندہ تھی با دشاہ خو د عالم فاضل شخص تھا وہ دیر تک تختی کی عبارت پڑھنے کی کو شش کرتا رہا،
لیکن بادشاہ عبا رت کو نہ سمجھ سکا آخر عاجزآکر بادشاہ نے آثار قدیمہ کے ما ہرین کو دربا رمیں طلب کیا اوراُن کے سامنے تختی رکھ دی اورکہااِس عبا رت کو پڑھ کر بتا ؤ اِس تختی پر کیا عبا رت یا پیغام لکھا ہے ماہرین کئی دن تک عرق ریزی کر تے رہے آخر کار وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ اِس مکان کے ملبے کے نیچے کو ئی بہت بڑا خزانہ دفن ہے ماہرین نے یہ توبتا دیا کہ یہاں پر کو ئی خزانہ موجود ہے، لیکن وہ وسیع و عریض کھنڈر میں جگہ کی نشاندہی کرنے سے قاصر تھے آخر با دشاہ نے حکم جا ری کیا کہ پو رے کھنڈر کو کھود دیا جا ئے اور خزانہ نکا لا جا ئے اب ماہرین آثار قدیمہ نے جگہ جگہ کھدائی کر دی،
لیکن خزانے کا کہیں بھی نام و نشان تک نہ تھا آخر بہت کو شش کے بعد با دشاہ کے حضور حاضر ہو کر اپنی نا کامی کا اعتراف کیا کہ نشاندہی کے بغیر سارے کھنڈر کی کھدا ئی کر نا بے کار ہے ۔ با دشاہ کسی بھی صورت میں اِس عظیم خزانے سے دستبردار نہیں ہو نا چاہتا تھا اب وہ دن رات خزانے کی سوچوں میں غرق رہنے لگا با دشاہ جب ناکامی کی حدوں تک پہنچ گیا تو اچانک اُسے حضرت نصیر الدین چراغ ؒ کی یاد آئی تو با دشاہ پکا ر اُٹھا اب یہ مسئلہ حل ہو نے والا ہے سلطان محمد تغلق نے فوری طو ر پر حضرت سید نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ کے نام رقعہ تحریر کیا حضرت ما ہرین نے کھنڈر میں دفن خزانے کے با رے میں بتایا ضرور ہے، لیکن وہ اُس خاص مقام کو بتانے سے قاصر ہیں جہاں خزانہ مدفون ہے ناکام ہو کر آپ سے رجوع کر رہا ہوں مجھ پر کرم فرماتے ہو ئے کشف سے معلوم کریں کہ خزانہ کہاں دفن ہے تا کہ حاصل کر کے مخلوق خدا کی خدمت کی جاسکے خزانہ حاصل ہو نے پر اس کا دسواں حصہ بطور نذر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جا ئے گا ۔ حضرت شیخ شاہی خط دیکھ کر مسکرا ئے اور فرمایا خاک نشینوں کو خزانوں سے کیا مطلب پھر شاہی خط واپس کر دیا تو با دشاہ نے حضرت شیخ کو دوسرا خط بھی اِس تحریر کے ساتھ لکھ دیا کہ میں اُس وقت تک درخواست کر تا رہو نگا جب تک خزانہ مل نہیں جاتا۔ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ دوسرا خط پڑھ کر مسکرا ئے اور اپنے چہیتے لا ڈلے نوجوان مرید خاص کو اپنے پاس بلایا اور کہا جاؤ اور جا کر با دشاہ کی بے بسی کی زنجیریں تو ڑ آؤ نو جوان مرید مرشد کا حکم سن کر احتراماً کھڑا ہو گیا تو مرشد پاک نے فرمایا جا ؤ جا کر با دشاہ کے کام کو اچھی طرح انجام دے آؤ نوجوان مرید نے احتراماً اپنا سر جھکا یا اور سرکا ری اہلکاروں کے ساتھ کھنڈر کی طرف روانہ ہو گیا نوجوان درویش نے جاکر وسیع و عریض کھنڈر کا جا ئزہ لیا تو حیران کن طو ر پر نو ٹ کیاکہ تما م عما رت ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی، لیکن ایک کمرہ مکمل حالت میں مضبو طی سے کھڑا تھا سرکا ری کا رندوں نے بتا یا کہ یہ تختی اِس کمرے کے صحن سے ملی ہے درویش نے غو ر سے اُس پراسرار طلسماتی تختی کو پڑھا پھر اُس کمرے کے وسط میں آکر بغو ر جائزہ لیا اور چھت کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا وہ خزانہ یہاں پر دفن ہے درویش کی بات سن کر مزدور تیزی سے چھت کی طرف لپکے تا کہ چھت کو توڑ دیں تو درویش نے بہ آواز اُن کو روکا اورکہامر شد کریم کا حکم ہے کہ کام کو اچھے طریقے سے کر نا،تم ساری چھت کو برباد کر دو گے پھر آپ خو دسیڑھی پر چڑھے اور چھت پر گو ل دائرہ لگا دیا اور مزدوروں سے کہا صرف اِس جگہ کو کھو دو،مزدوروں نے اپنا کام شروع کر دیا،با دشاہ کا وزیر خاص کام کی نگرانی کے لئے آیا ہوا تھا وہ خو شگوار حیرت سے درویش کی الہامی قوت کو دیکھ رہا تھا کہ جب ما ہرین آثار قدیمہ اِس خزانے تک پہنچنے میں بُری طرح ناکام ہو گئے تھے تو یہ خاک نشین تو آسانی سے خزانے تک پہنچ گیا ہے اور پھر جب مزدوروں نے درویش کے دائرے کو کھودا تو اچانک پو شیدہ خزانہ تیز دریا کی طرح اُبل پڑا یہ منظر دیکھ کر تمام لوگوں پر سکتہ سا طاری ہو گیا تھا پھر جیسے ہی حواس نارمل ہو ئے تو وزیر آگے بڑھا،درویش کے سامنے جھک گیا ہاتھ کو بو سہ دیتے ہوئے عرض کی حضرت آپ نے جہاں اتنا بڑا احسان کر دیا ہے اب اِس پراسرار تختی کے اسرار و رموز سے بھی آگا ہ فرمادیں، تاکہ میں با دشاہ کا مزیدقرب حاصل کر سکوں نوجوان درویش شفیق تبسم سے گو یا ہو ئے جاؤ تم دنیا وی با دشاہ کا قرب حاصل کر لو اورپھر اِس کو تختی کے سارے راز بتا دیے وزیر خاص اور ماہرین آثار قدیمہ عش عش کر اٹھے،یقیناًآپ ٹھیک فرما رہے ہیں درویش نے اُن کی خوشامدی با توں کو نظر انداز کرتے ہوئے سلام کیا اور مر شد کریم کی خدمت میں حاضر ہو گئے آپ کو دیکھ کر مرشد مسکرائے اور بو لے سید زادے کام کر آئے ہو،سید زادہ جھکا مرشد کریم کے ہاتھوں کو بو سہ دیا اور بو لا سرکار آپ کے صدقے کام اچھے طریقے سے کر آیا ہوں اور پھر با دشاہ نے اپنے وعدے کے مطابق خزانے کا دسواں حصہ حضرت نصیرالدین چراغ ؒ کی خدمت میں بھیج دیا حضرت نے کچھ دیر ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کے ڈھیر کو دیکھ اور پھر فرمایا یہ سید زادے کا حصہ ہے جا ؤ اُس کے مکان پر چھو ڑ آؤ جب سرکار ی کا رندے سونے چاندی ہیرے جواہرات کی بوریاں سید زادے کے گھر پر لا ئے تو بے نیاز سید زادے نے فرمایا اِس خزانے کو واپس مر شد سرکار کے در پر لے جاؤ اور پھر سید زادہ مرشد کریم کی با رگاہ میں حاضر ہوا اور پا ؤں سے لپٹ گیا زارو قطا ر روتے ہو ئے عرض کی سرکار آپ نے جو جو کچھ مجھے عطا کر رکھا ہے وہ اِس فقیر کے دامن میں نہیں سماتا،سید زادے کا والہا نہ عشق اورتا بعداری دیکھ کر مرشد کریم نے ارشاد فرمایا ۔
لیکن بادشاہ عبا رت کو نہ سمجھ سکا آخر عاجزآکر بادشاہ نے آثار قدیمہ کے ما ہرین کو دربا رمیں طلب کیا اوراُن کے سامنے تختی رکھ دی اورکہااِس عبا رت کو پڑھ کر بتا ؤ اِس تختی پر کیا عبا رت یا پیغام لکھا ہے ماہرین کئی دن تک عرق ریزی کر تے رہے آخر کار وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ اِس مکان کے ملبے کے نیچے کو ئی بہت بڑا خزانہ دفن ہے ماہرین نے یہ توبتا دیا کہ یہاں پر کو ئی خزانہ موجود ہے، لیکن وہ وسیع و عریض کھنڈر میں جگہ کی نشاندہی کرنے سے قاصر تھے آخر با دشاہ نے حکم جا ری کیا کہ پو رے کھنڈر کو کھود دیا جا ئے اور خزانہ نکا لا جا ئے اب ماہرین آثار قدیمہ نے جگہ جگہ کھدائی کر دی،
لیکن خزانے کا کہیں بھی نام و نشان تک نہ تھا آخر بہت کو شش کے بعد با دشاہ کے حضور حاضر ہو کر اپنی نا کامی کا اعتراف کیا کہ نشاندہی کے بغیر سارے کھنڈر کی کھدا ئی کر نا بے کار ہے ۔ با دشاہ کسی بھی صورت میں اِس عظیم خزانے سے دستبردار نہیں ہو نا چاہتا تھا اب وہ دن رات خزانے کی سوچوں میں غرق رہنے لگا با دشاہ جب ناکامی کی حدوں تک پہنچ گیا تو اچانک اُسے حضرت نصیر الدین چراغ ؒ کی یاد آئی تو با دشاہ پکا ر اُٹھا اب یہ مسئلہ حل ہو نے والا ہے سلطان محمد تغلق نے فوری طو ر پر حضرت سید نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ کے نام رقعہ تحریر کیا حضرت ما ہرین نے کھنڈر میں دفن خزانے کے با رے میں بتایا ضرور ہے، لیکن وہ اُس خاص مقام کو بتانے سے قاصر ہیں جہاں خزانہ مدفون ہے ناکام ہو کر آپ سے رجوع کر رہا ہوں مجھ پر کرم فرماتے ہو ئے کشف سے معلوم کریں کہ خزانہ کہاں دفن ہے تا کہ حاصل کر کے مخلوق خدا کی خدمت کی جاسکے خزانہ حاصل ہو نے پر اس کا دسواں حصہ بطور نذر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جا ئے گا ۔ حضرت شیخ شاہی خط دیکھ کر مسکرا ئے اور فرمایا خاک نشینوں کو خزانوں سے کیا مطلب پھر شاہی خط واپس کر دیا تو با دشاہ نے حضرت شیخ کو دوسرا خط بھی اِس تحریر کے ساتھ لکھ دیا کہ میں اُس وقت تک درخواست کر تا رہو نگا جب تک خزانہ مل نہیں جاتا۔ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ دوسرا خط پڑھ کر مسکرا ئے اور اپنے چہیتے لا ڈلے نوجوان مرید خاص کو اپنے پاس بلایا اور کہا جاؤ اور جا کر با دشاہ کی بے بسی کی زنجیریں تو ڑ آؤ نو جوان مرید مرشد کا حکم سن کر احتراماً کھڑا ہو گیا تو مرشد پاک نے فرمایا جا ؤ جا کر با دشاہ کے کام کو اچھی طرح انجام دے آؤ نوجوان مرید نے احتراماً اپنا سر جھکا یا اور سرکا ری اہلکاروں کے ساتھ کھنڈر کی طرف روانہ ہو گیا نوجوان درویش نے جاکر وسیع و عریض کھنڈر کا جا ئزہ لیا تو حیران کن طو ر پر نو ٹ کیاکہ تما م عما رت ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی، لیکن ایک کمرہ مکمل حالت میں مضبو طی سے کھڑا تھا سرکا ری کا رندوں نے بتا یا کہ یہ تختی اِس کمرے کے صحن سے ملی ہے درویش نے غو ر سے اُس پراسرار طلسماتی تختی کو پڑھا پھر اُس کمرے کے وسط میں آکر بغو ر جائزہ لیا اور چھت کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا وہ خزانہ یہاں پر دفن ہے درویش کی بات سن کر مزدور تیزی سے چھت کی طرف لپکے تا کہ چھت کو توڑ دیں تو درویش نے بہ آواز اُن کو روکا اورکہامر شد کریم کا حکم ہے کہ کام کو اچھے طریقے سے کر نا،تم ساری چھت کو برباد کر دو گے پھر آپ خو دسیڑھی پر چڑھے اور چھت پر گو ل دائرہ لگا دیا اور مزدوروں سے کہا صرف اِس جگہ کو کھو دو،مزدوروں نے اپنا کام شروع کر دیا،با دشاہ کا وزیر خاص کام کی نگرانی کے لئے آیا ہوا تھا وہ خو شگوار حیرت سے درویش کی الہامی قوت کو دیکھ رہا تھا کہ جب ما ہرین آثار قدیمہ اِس خزانے تک پہنچنے میں بُری طرح ناکام ہو گئے تھے تو یہ خاک نشین تو آسانی سے خزانے تک پہنچ گیا ہے اور پھر جب مزدوروں نے درویش کے دائرے کو کھودا تو اچانک پو شیدہ خزانہ تیز دریا کی طرح اُبل پڑا یہ منظر دیکھ کر تمام لوگوں پر سکتہ سا طاری ہو گیا تھا پھر جیسے ہی حواس نارمل ہو ئے تو وزیر آگے بڑھا،درویش کے سامنے جھک گیا ہاتھ کو بو سہ دیتے ہوئے عرض کی حضرت آپ نے جہاں اتنا بڑا احسان کر دیا ہے اب اِس پراسرار تختی کے اسرار و رموز سے بھی آگا ہ فرمادیں، تاکہ میں با دشاہ کا مزیدقرب حاصل کر سکوں نوجوان درویش شفیق تبسم سے گو یا ہو ئے جاؤ تم دنیا وی با دشاہ کا قرب حاصل کر لو اورپھر اِس کو تختی کے سارے راز بتا دیے وزیر خاص اور ماہرین آثار قدیمہ عش عش کر اٹھے،یقیناًآپ ٹھیک فرما رہے ہیں درویش نے اُن کی خوشامدی با توں کو نظر انداز کرتے ہوئے سلام کیا اور مر شد کریم کی خدمت میں حاضر ہو گئے آپ کو دیکھ کر مرشد مسکرائے اور بو لے سید زادے کام کر آئے ہو،سید زادہ جھکا مرشد کریم کے ہاتھوں کو بو سہ دیا اور بو لا سرکار آپ کے صدقے کام اچھے طریقے سے کر آیا ہوں اور پھر با دشاہ نے اپنے وعدے کے مطابق خزانے کا دسواں حصہ حضرت نصیرالدین چراغ ؒ کی خدمت میں بھیج دیا حضرت نے کچھ دیر ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کے ڈھیر کو دیکھ اور پھر فرمایا یہ سید زادے کا حصہ ہے جا ؤ اُس کے مکان پر چھو ڑ آؤ جب سرکار ی کا رندے سونے چاندی ہیرے جواہرات کی بوریاں سید زادے کے گھر پر لا ئے تو بے نیاز سید زادے نے فرمایا اِس خزانے کو واپس مر شد سرکار کے در پر لے جاؤ اور پھر سید زادہ مرشد کریم کی با رگاہ میں حاضر ہوا اور پا ؤں سے لپٹ گیا زارو قطا ر روتے ہو ئے عرض کی سرکار آپ نے جو جو کچھ مجھے عطا کر رکھا ہے وہ اِس فقیر کے دامن میں نہیں سماتا،سید زادے کا والہا نہ عشق اورتا بعداری دیکھ کر مرشد کریم نے ارشاد فرمایا ۔
ہر کہ مرید سید گیسو دراز شد
واللہ خلا ف نیت کہ او عشق باز شد
حضرت سید نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ نے خزانے سے بھری بو ریاں با دشاہ کے پاس بھجوادیں اور کہا یہ خزانہ غرباء اور مساکین میں تقسیم کر دیا جائے ۔نوجوان درویش کا نام حضرت مخدوم سید محمد حسینی گیسو دراز ؒ تھا آپ کا سلسلہ نسب با ئیس واسطوں سے سرتاج الانبیاء ﷺ تک پہنچتا تھا آپ کا اسم گرامی محمد کنیت ابو الفتح لقب صدر الدین ولی الاکبر صادق ہے آپ کوعام طو ر پر خوا جہ بندہ نواز گیسو دراز ؒ پکارا جاتاہے
آپ کے مریدوں میں سے ایک شخص شیخ محمد نامی تھا۔ جس نے آپ کی مجالس کی گفتگو پر مشتمل ایک کتاب (ملفوظات) ترتیب دی اور اس کا نام جوامع الکلیم رکھا۔ یہ کتاب بڑی پسند اور مقبول ہوئی۔ اور چشتیہ مشائخ اسے اپنے مطالعہ میں رکھتے تھے۔
معارج الولایت کے مولّف نے لکھا ہے کہ سید محمد گیسو دراز قدس سرہ ۷۲۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۸۲۵ھ میں فوت ہوئے۔ اس طرح آپ کی عمر ایک سو پانچ سال تھی جب آپ کا وصال ہوا۔ آپ کی وفات فیروز شاہ بن غیاث الدین بن محمد شاہ بن سلطان علاوالدین بہمنی کے عہد اقتدار میں ہوئی آپ کا مزار پر انوار دکن میں گلبرگہ کے مقام پر ہے۔
اشرف الا و لاد آل مرتضیٰ
شیخ دین سید محمد پیشوا،
ہادی محبوب آل بو تراب
۷۲۰ھ
کن رقم تولید آں شاہ ہدا
زیب تاج عارفاں وصلش نجواں
۸۲۵ھ
ہم رقم کن بادشاہ اتقیاء
۸۲۵ھ
حضرت سید محمد گیسودراز اپنی وفات سے ایک سال پہلے بھی سترہ (۱۷) جمادی الاوّل آٹھ سو چوبیس میں سید خضر خان بن ملک سلیمان جو دہلی کے بادشاہ تھے سات سال دو مہینے اور دو دن حکومت کرنے کے بعد دہلی میں فوت ہوئے اور دریائے جمنا کے کنارے بمقام گٹی خضر میں دفن ہوئے۔ یہ بادشاہ خاندان سادات خضر خانیا کی سلطنت کا بانی تھا۔ اس کے مختصر حالات یہ ہیں کہ خضر خان ناصر الدین محمود شاہ تغلق کے زمانہ اقتدار میں ملتان کا گورنر تھا۔ جب امیر تیمور نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس نے تیمور بادشاہ کی بڑی خدمت کی اور بڑے کارنامے سر انجام دیے۔ امیر تیمور واپس جانے لگا تو تمام مقبوضہ علاقے خضر خان کے حوالے کرگیا۔ مگر گجرات اور مالوہ کی حکومت فیروز شاہ بلیجی کو دے گیا۔ چنانچہ شاہ رخ مرزا جو امیر تیمور کا بیٹا تھا کے زمانے تک یہ حکومتیں قائم رہیں۔ اور سکہ اور خطبہ تیمور اور شاہ رخ کا ہی چلتا رہا۔ یہ بادشاہ سخاوت اور بہادری میں بڑا مشہور تھا اور اپنی رعایا کے آرام کا بہت خیال رکھتا تھا۔ اُس کے زمانے میں سارا ہندوستان بڑا خوشحال رہا۔ عام لوگوں کے دل بادشاہ کی محبت سے پُر تھے۔ اس کی وفات کے بعد معزالدین ابوالفتح۔ مبارک شاہ تخت نشین ہوا۔
حضرت سیدمحمدگیسودرازمشاہیراولیاءسےہیں۔
خاندانی حالات:
آپ حضرت امام زین العابدین کی اولادسےہیں،پس آپ حسینی ہیں۔
والدماجد:
آپ کے والدماجدسیدیوسف حسینی صوفی صافی تھے۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاٗ(رحمتہ اللہ علیہ) سےبیعت تھے۔حضرت نصیرالدین محمودچراغ دہلی کےروحانی فیوض سےبھی مستفیدتھے۔ سیدراجہ کہلاتےتھے۔آپ نے ریاضت شاقہ ومجاہدات بہت کئے،اپنےنفس کےساتھ جو جہاد آپ نے کیا،اس کی وجہ سے دکن میں "راجوقتال"مشہورہوئے۔
حضرت خواجہ سیدمحمد گیسودرازبندہ نواز Khawaja Banda Nawaz Gesu Daraz story ||khwaja bande nawaz gulbarga history |
والدہ ماجدہ:
آپ کی والدہ ماجدہ کےبھائی ملک الامراءسیدابراہیم مستونی دولت آبادکےگورنرہوگئےتھے۔
بھائی:
آپ کےبڑے بھائی کانام سید حسن ہے۔
ولادت مبارک:
آپ نے ۴رجب ۷۲۰ھ کودہلی میں اس عالم کوزینت بخشی۔۱؎
نام نامی:
آپ کانام محمدہے۔
کنیت:
آپ کی کنیت ابوالفتح ہے۔
القاب:
"صدرالدین"۔"ولی الاکبر"۔"الصادق"اور"خواجہ بندہ نواز گیسودراز"کےلقب سے آپ مشہور ہیں۔
گیسودرازکہلانےکی وجہ تسمیہ:
آپ کےگیسوبہت درازتھے۔ایک مرتبہ کاواقعہ ہے کہ آپ نےاپنےپیرومرشدحضرت نصیرالدین محموددہلی کی پالکی کاندھےپراٹھائی اوراس کولےکرچلے۔حضرت چراغ دہلی کےچنداور مریدبھی پالکی اٹھانےمیں شریک تھے،آپ کےگیسوپالکی کےپائےمیں الجھ گئے۔آپ نے گیسوؤں کونکالنےکی کوشش نہ کی،اس طرح پالکی کوکاندھےپررکھےرہے،بہ پاس ادب آپ نےپالکی کوروکنا پسندنہ کیا۔جب حضرت نصیرالدین محمودچراغ دہلی کواس بات کی خبرہوئی تووہ آپ کےادب، عشق ومحبت اورعقیدت سےبہت خوش ہوئے۔حضرت چراغ دہلی نے اسی وقت یہ شعرپڑھا۔۲؎
ہرکہ مریدسیدگیسودرازشد
واللہ خلاف نیست کہ اوعشق بازشد
اس دن سےآپ "گیسودراز"مشہورہوئے۔
دولت آبادمیں آمد:
سلطان بن محمدتغلق نےبجائےدہلی کےدولت آبادکودارالخلافت قراردےکردہلی کے باشندوں کو حکم دیاکہ وہ دولت آبادجاکرآبادہوں۔آپ کے والدماجد۲رمضان۷۲۸ھ کودہلی سے سکونت ترک کرکےمع اہل وعیال دولت آبادروانہ ہوئے اور۷محرم ۷۲۹ھ کودولت آباد پہنچ کروہاں سکونت پذیرہوئے۔
بچپن کاصدمہ:
آپ کے والد ماجدنے۵شوال۷۳۱ھ کوانتقال فرمایا۔
واپسی:
آپ کی والدہ ماجدہ چندسال آپ کےوالدکےانتقال کےبعدخلدآباد میں رہیں۔پھراپنے بھائی ملک الامراءسیدابراہیم مستوفی سےجودولت آبادکےگورنرہوگئےتھے،کسی اختلاف کےباعث خلدآباد سے سکونت ترک کرکےمع آپ کے اورآپ کے بڑے بھائی کے۴رجب ۷۳۶ھ کودہلی آئیں اور وہیں رہنےلگیں۔
تعلیم وتربیت:
آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت آپ کے والد ماجداورناناکےزیرسایہ ہوئی۔آپ نےقرآن شریف حفظ کیا،اس کےعلاوہ خلدآبادکےقیام کےزمانےمیں آپ نے علوم ظاہری کی تحصیل شروع کردی تھی۔جب آپ اپنی والدہ محترمہ کےہمراہ دہلی آئےتوآپ نےعلوم ظاہری حاصل کرنے میں کافی محنت وکوشش کی۔آپ کومولاناشرف الدین کتھیلی،مولاناتاج الدین بہادراورقاضی عبدالمقتدر ایسےشفیق اورقابل استادملے۔آپ نے علوم متداولہ کی بہت سی کتابیں پڑھیں۔علوم ظاہری کی تحصیل سےانیس سال کی عمرمیں فراغت پائی۔علوم ظاہری کی تکمیل کےبعدمجاہدہ کےذریعے مشاہدہ کرنےکوکوشاں ہوئے۔
بیعت و خلافت:
آپ ۱۶،رجب ۷۳۶ھ کوحضرت نصیرالدین چراغ دہلی کےدست حق پرست پربیعت ہوئےاور کچھ مدت کےبعدخرقہ خلافت سےسرفرازہوئے۔
پیرومرشدکی دعا:
حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نےآپ کےحق میں دعافرمائی کہ بادشاہ ان کی پالکی اٹھائیں۔۳؎
ترک سکونت:
آپ ۷ربیع الثانی۸۰۱ھ کودہلی سےسکونت ترک کرکےگوالیارروانہ ہوئے۔گوالیارمیں آپ نے مولاناعلاءالدین کےیہاں قیام فرمایا۔آپ گوالیارسےبھاندیرپہنچے۔بھاندیرسےایرچہ روانہ ہوئے۔ ایرچہ سےچندیری تشریف لےگئے۔چندیری میں کچھ دن قیام فرمایا۔پھربڑودہ میں رونق افروز ہوئے۔کھمبائت پہنچ کرکچھ دن وہاں مقیم رہے،پھربڑودہ واپس آئے۔۔۔بڑودہ سےسلطان پور ہوتےہوئےخلدآبادکوزینت بخشی اوروہیں سکونت اختیارکی۔آپ مع اہل وعیال کےخلدآباد میں رہنےلگےاورلوگوں کورشدوہدایت فرمانےلگے۔
سلاطین سےتعلقات:
سلطان فیروزشاہ بہمنی کوجب آپ کی دکن میں آمدکی اطلاع ہوئی تووہ آپ سے گلبرگہ تشریف لانے کاخواستگارہوا،آپ نے درخواست منظورفرمائی،آپ جب گلبرگہ تشریف لائے۔سلطان نے آپ کاشانداراستقبال کیااورنہایت تعظیم و تکریم سےپیش آیا،آپ نےکچھ عرصہ گلبرگہ میں قیام فرمایا،پھرگلبرگہ میں مستقل سکونت اختیارفرماکرمخلوق کوراہ حق دکھلانےلگےاوربندگان خداکو فیض پہنچانےلگے۔
سلطان فیروزبہمنی کاچھوٹابھائی سلطان احمدجواپنےبھائی کےتخت پربیٹھا،آپ کامعتقدہ منقادتھا۔اس کی عقیدت ومحبت کاثبوت آپ مزارمبارک پرعالی شان گنبدہے،جواس نےآپ کی وفات کے بعد بنوایا۔
شادی اوراولاد:
آپ نےاپنی والدہ ماجدہ کےحکم اورخواہش کےمطابق مولاناسیداحمدبن مولاناجمال الدین مغربی کی دخترنیک اختربی بی رضاخاتون سےشادی کی،اس وقت آپ کی عمرچالیس سال کی تھی۔
آپ کےدولڑکےاورتین لڑکیاں تھیں۔آپ کےبڑےصاحبزادےحضرت سیدحسین عرف سید محمداکبرحسینی آ پ کی حیات میں وفات پاگئے۔آپ کے دوسرےصاحب زادےحضرت محمدیوسف عرف سیدمحمداصغرحسینی عالم باعمل اوردرویش کامل تھے۔آپ کی لڑکیوں کےنام یہ ہیں۔بی بی فاطمہ عرف ستی بیگم،بی بی بتول،بی بی ام الدین۔
وفات شریف:
آپ نے16/ذیقعدہ 825ھ،بمطابق/1422ء کواس عالم سےپردہ فرمایا۔مزارفیض آثار گلبرگہ(دکن،انڈیا) میں قبلہ حاجات خلائق ہے،بوقت وفات آپ کی عمرایک سوپانچ سال تھی۔
خلفاء:
آپ کی وفات کےبعدآپ کےچھوٹےصاحبزادےحضرت محمدیوسف سید محمداصغرحسینی آپ کے سجادہ نشین ہوئے،آپ کےممتازخلفاء حسب ذیل ہیں۔
حضرت سیدمحمدیوسف عرف سیدمحمداصغرحسینی،مولاناحسن دہلوی،مولاناشیخ علاؤالدین گوالیاری، قاضی علیم الدین بن شرف الدین،قاضی نورالدین،شیخ صدرالدین،خونذیر(ایرچہ)سیدابوالمعالی بن سیداحمدسیدجمال الدین شیخ ابوالفتح بن مولاناعلاؤالدین گوالیاری۔
سیرت پاک:
آپ سیادت وعلم وولایت کےجامع تھے۔۴؎شان آپ کی اونچی ہے۔رتبہ سچ ہے۔احوال قوی ہے۔ مشرب وسیع ہے۔ہمت بلندہے۔کلام عالی ہے مشائخ چشت میں آپ کامشرب خاص ہےاوراسرار حقیقت کےبیان میں آپ کاطریقہ مخصوص ہے۔
آپ زہدوتقویٰ تحمل وبردباری،سخاوت وفیاضی،عطاوبخشش،قناعت وتوکل،ترک وتجرید،عبادات مجاہدات میں یگانہ عصرتھے۔
آپ کواپنےپیرومرشدحضرت نصیرالدین محمودچراغ دہلی سے والہانہ محبت تھی۔حضرت چراغ دہلی جوحکم فرماتے،آپ اس کوبجالاتے۔آپ پانچوں وقت کی نمازجماعت سےپڑھتےتھے۔ روزے پابندی سےرکھتےتھے۔آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے پیر ومرشدآپ کےحال پراس قدر شفقت ومہربانی فرماتےتھےکہ انہوں نےمجاہدات و ریاضات کابوجھ آپ پر ایک دم نہیں ڈالا،بلکہ بتدریج اضافہ فرماتے رہے۔آپ کے ملفوظات"جوامع الکلم"سےآپ کےپیرومرشد کی آپ پر مہربانی کابخوبی پتہ چلتاہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ۔
"ایک دفعہ میں شیخ الاسلام شیخ نصیرالدین(رحمتہ اللہ علیہ)کی خدمت میں حاضرہوا،انہوں نے فرمایاتم جب آتےہو،شام کےوقت آتےہواورمیں اس وقت ملول ہوتاہوں۔البتہ میراجی چاہتا ہےکہ تم سے کوئی بات کروں،اس وقت میری عمرصرف پندرہ سال تھی،یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی اور میں نےکہا۔"سبحان اللہ!حضرت خواجہ ہم سے بھی کوئی بات کرناچاہتےہیں،زہےدولت!" عبادت میں اس طرح آپ کی اضافہ ہوتارہا،اس کےمتعلق آپ خودفرماتےہیں۔
"ایک باراشراق کےبعدپابوسی کےلئےحاضرہوا"۔
حضرت خواجہ نےفرمایا۔صبح نمازکےلئےجووضوکرتےہو،کیاوہ طلوع آفتاب تک باقی رہتاہے"۔
میں نے عرض کیا۔
جی ہاں!حضورکےصدقےمیں باقی رہتاہے"۔
فرمایا:"اچھاہوجواسی وضوسےدورکعت اشراق بھی پڑھ لیاکرو"۔
میں نےعرض کیا۔
خواجہ کے صدقےمیں پڑھوں گا"۔
پھرفرمایا۔
اسی کے ساتھ دورکعت شکرالنہاراوراستخارہ بھی پڑھ لیاکرو"۔
میں نےچندروزاس کی پابندی کی۔
پھرایک روزارشادفرمایا۔
دورکعت اشراق پڑھاکرتےہو"؟
میں نے عرض کیا۔
پڑھتاہوں"۔
ارشادفرمایا۔
اگراس میں چاشت کی چاررکعت ملادیاکروتونمازچاشت ہوجایاکرےگی۔میں نہیں کہتاکہ پھرکسی وقت پڑھو،بلکہ بعداشراق اسی وقت چاشت پڑھ لیاکروتویہ بھی ہوجائےگی"۔
میں ہمیشہ رجب میں روزےرکھاکرتاتھا،ایک بارپوچھا۔
"کیاتم رجب میں روزےرکھتے ہو"۔
میں نےعرض کیا۔
"جی ہاں!"
پھرپوچھا۔
"شعبان میں بھی"۔
میں نےکہا۔"شعبان میں نوروزےرکھتاہوں"۔
فرمایا۔
"اگراکیس دن اوررکھ لیاکرو،توپورےتین مہینےکےروزےہوجایاکریں گے"۔
میں نےعرض کیا۔
"خواجہ کےصدقےمیں رکھوں گا"۔
میں رمضان کے بعد شش عیدکےروزےبھی رکھاکرتاتھا۔انہیں ایام میں قدم بوسی کےلئے حاضر ہوا؟
"ہمارےخواجگان صوم داؤدی نہیں رکھاکرتاتھا۔بلکہ صوم دوام رکھتےتھےاس کےبعدتم بھی صوم دوام رکھاکرو"۔
آپ آدھی رات کوبیدارہوتےتھے۔نمازتہجداداکرتے،تہجدکےبعداذکارواشغال میں مشغول ہوجاتے،اپنےپیرومرشدکوآپ ہی وضوکراتےتھے،جب آپ دکن تشریف لےگئے،وہاں عشاء کی نماز کےبعدآپ کےساتھ چالیس پچاس آدمی روزانہ کھاناکھاتےتھے۔
آپ کوسماع کابہت شوق تھا۔
علمی ذوق:
آپ ایک بہت بڑےعالم تھے۔گلبرگہ میں آپ تفسیروحدیث کادرس دیاکرتےتھے۔آپ ایک بلند پایہ مصنف ہیں۔آپ نےایک سوپانچ کتابیں لکھی ہیں۔"الاسماء"آپ کی مشہورتصنیف ہے۔۶؎
آپ کے خاص خاص کتابیں حسب ذیل ہیں۔
معارف شرح عوارف(عربی)ترجمہ عوارف(فارسی)۔
"ملنقظ"تفسیرالقرآن۔قرآن شریف کےپہلےپانچ پاروں کی تفسیر۔
شرح مشارق الانوار۔شرح تعرف شرح آداب المریدین(عربی)
شرح آداب المریدین(فارسی)
خاتمہ۔شرح فصوص الحکم۔شرح تمہیدات عین القضاۃ ہمدانی۔
شرح رسالہ قشیریہ۔خطائرالقدس المعروف بہ رسالہ عشقیہ۔
اسماءالاسرار،حدائق الانس،استقامت الشریعت بطریق الحقیقت۔
حواشی قوت القلوب،شرح فقہ اکبر،شرح الہامات حضرت غوث الاعظم۔
شعروشاعری:
آپ ایک خوش گوشاعربھی تھے۔آپ کاتخلص"محمد"ہے۔آپ کی غزلوں اوررباعیوں کی تعداد کافی ہے۔
آپ اردوزبان کے اولین نعت گوشاعر ہیں۔ یہ ایک یا دو جملوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آپ سے درخواست ہے ڈسکرپشن میں موجود لنک سے آپ ایک تحقیقی مقالہ ماہر دکنیات ڈاکٹر محمدعلی اثرصاحب کا ملاحظہ کر سکتے ہیں جو جہان نعت کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا۔
اقوال:
۔ طالب ہمیشہ خلوت پسندرہےاوران دوکاموں کےسواکوئی کام نہ کرے۔
۔ یاددوست میں مشغول ہویادوست کی یاد میں ،اگران دونوں کےسوااورکوئی کام کرےگا توپھل نہ پائےگا۔
۔ قرض ہرگزنہ لے،مگرجب بہت ہی ضرورت ہو،جس کی تین قسمیں ہیں۔ایک تواپنی ذاتی ضرورت جس سےمجبور ہوجائے،دوسری ضرورت مہمان کی خاطر،تیسری صلہ رحم کی ضرورت۔اپنی بھوک پیاس رفع کرنےکےواسطےبھی قرض لےسکتاہے۔
۔ نفس پرجوکام دشوارہو،اس کومزیداختیارکرے،اگرذکرومراقبہ سیکشودگی پیداہوتوان کوزیادہ کرے۔
۔ دنیامیں ترک دنیاسےبہترکوئی نیکی نہیں۔
۔ دعاکےاثرات کاظہوراسی وقت ہوتاہے،جب شرائط اورحسن اعتقاد کےساتھ پڑھی جائے۔
۔ جولوگ دنیاکی حقیقت سےآشناہیں،وہ جانتےہیں کہ دنیاڈھول کوپول ہےاورکچھ نہیں۔
۔ تقدیرکےبغیرکوئی کام نہیں ہوتا۔
۔ عاشق کےدل میں جوعشق کی آگ روشن ہوتی ہے،اس کےمقابلہ میں دوزخ کی آگ بھی سرد ہوجاتی ہے۔
۔ ہرچیزکےاندرایک آفت ہوتی ہے،عشق کی دوآفتیں ہیں،ایک آفت ابتداءاوردوسری آفت انتہاء۔
۔ سالک بےصبرہوتاہے،جوگھڑی بغیرحصول مقصدکےگزرتی ہے،مرنااس سے بہتر سمجھتا ہے۔
اورادووظائف:
ذیل میں آپ کے چنداورادووظائف پیش کئےجاتےہیں۔
حاجت پوری ہونےکےواسطے:
آپ فرماتےہیں کہ۔
جمعہ کی رات کوچاررکعت اس ترکیب سےپڑھناچاہیےکہ پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کےبعدایک سو ایک بار۔
لاالٰہ الاانت سبحانک انی کنت من الظالمین
فی سبحیناونجیناہ من الغم وکذالک نجی المومنین
دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کےبعدایک سوایک بار۔
رب انی مسنی الضر وانت ارحم الراحمین
تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کےبعد ایک سوایک بار
افوض امری الی اللّٰہ ان اللّٰہ بصیربالعباد
چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعدایک سوایک بار۔
حسبی اللّٰہ ونعم الوکیل نعم المولٰی ونعم النصیر
پڑھے،سلام کےبعد
رب انی مغلوب فانتصرسوبارپڑھے۔
کشف وکرامات:
تیمورکےدہلی آنےسےقبل آپ نےباشندگان دہلی کوآنےوالی مصیبت سےآگاہ کردیاتھا،یہ خبرپاکر بہت سےلوگ دہلی سےباہرچلےگئے۔
حضرت چراغ دہلی رحمۃ اﷲ علیہ کا وصال ہوا تو حضرت سید گیسو دراز ہی نے غسل دیا اور جس پلنگ پر غسل دیا تھا اس کی ڈوریاں پلنگ سے جدا کرکے اپنی گردن میں ڈال لیں کہ یہ میرا خرقہ ہے ۔
سیرو سیاحت
آپ نے بہت سے علاقوں کا سفر کیا ،دہلی سے اجمیر سلطان الہند غریب نواز خواجہ چشت حضرت معین الدین اجمیری کے آستانہ مبار ک پر آئے ۔ اجمیر سے قصبہ سردار، احمد آباد گجرات ،کاٹھیا واڑ کے اکثر مقامات دیکھتے ، مختلف خانقاہوں پر حاضری دیتے اور بزرگوں سے ملتے ہوئے ہندوئوں کی مشہور تیرتھ، گرنا تھ پہاڑ پر پہنچے تووہاں کے مقامی جین مت اور وشنومت پجاریوں اور فقیروں میں جھگڑا ہو رہا تھا اور قریب تھا کہ خون کی ہولناک ہو لی کھیلی جاتی مگر آپ کی نظر و کرامت سے وہ سب اپنے تنازعے بھول کر آپ کے گرویدہ ہوگئے اور اسلام لے آئے ۔آپ اپنی تمام سیرو سیاحت کے دوران اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری دیتے ، مشائخ عظام سے ملاقات کرتے ،روحانی فیوض وبرکات کا حصول کرتے رہے اور تبلیغ کا فریضہ بھی سرانجام دیتے رہے ۔آپ کی ساری زندگی لوگوں کی اصلاح اور اﷲ جل مجدہ کی بارگاہ تک لوگوں کی رسائی کی کوشش میں گزری۔آپ اپنے زمانے کے جلیل القدر عارف اور کامل صوفی بزرگ تھے ،جن کی عظمت و جلالت کا اندازہ کرنا دشوار ہے ۔ آپ کی شخصیت مجموعی کمالات ظاہری و باطنی کا پیکر تھی۔