نام کی وضع میں وصفی معنی کا لحاظ :
پس اس سے معلوم ہوا کہ معنی و صفی متروک نہیں ہوتے بلکہ اکثر وضع بہ لحاظ معنی و صفی کے ہوا کرتی ہے ۔ پس جب حق تعالیٰ نے حضرتﷺ کا نام وضع فرمایا وقتِ وضع معنی و صفی مقصود تھے ، یعنے ( حمد کیا گیا ) پھر جب تک نام مبارک عرش پر اور حق تعالیٰ کے پاس مسطور و مذکور ہے یعنے ازلاً و ابداً حضرت کا ممدوح اورمحمود ہونا مستمر ہے ، فثبت المقصود ۔ اگر کوئی اس مقام میں شبہ کرے کہ حدیث ابن عباسؓ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حق تعالیٰ نے حضرت کا مرتبہ بتلانے کے لئے عالم کو پیداکیا ، اس سے لازم آتاہے کہ افعال حق تعالیٰ کے معلل بالاغراض ہوں ! حالانکہ یہ بات خلاف عقیدہ ہے ۔ سو جواب اس کا یہ ہے کہ معلل بالاغراض نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ خدائے تعالیٰ کے کام فوائد و منافع سے خالی ہوں ورنہ بڑی قباحت لازم آئے گی کہ نعوذ باللہ ہر ایک کام عبث
ہوجائے حالانکہ حق تعالیٰ اس کی نفی فرماتا ہے {افحسبتم انما خلقنٰکم عبثا } بلکہ مطلب یہ ہے کہ کسی کام میں حق تعالیٰ کو غرض ایسی نہیں جو باعث استکمال ہو جیسے مخلوقات کو ہوا کرتی ہے کیونکہ استکمال بالغیر حق تعالیٰ کے حق میں محال ہے ۔ پس اس حدیث شریف کو ایسی سمجھنا چاہئے جیسے آیۃ شریفہ { وماخلقت الجن و الانس الا لیعبدون } یعنی نہیں پیدا کیا میں نے جن و انس کو مگر تاکہ میری عبادت کریں اور ایک تفسیر پر ( تاکہ پہچانیں مجھ کو ) ۔
اب یہاں ایک دوسرا شبہ پیدا ہوا کہ اس آیۃ شریفہ سے معلوم ہوا کہ جن و انس کی تخلیق عبادت یا معرفت کے لئے ہے اور حدیث ابن عباسؓ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فضائل پر واقف کرانے کے لئے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر کام میں ایک ہی مقصود ہوا کرے ۔ ادنیٰ عقلمند کے ایک ایک کام میں کتنے اغراض ہوا کرتے ہیں ، چہ جائے کہ خدائے تعالیٰ کا کام اور وہ بھی اتنا بڑا جو آفرینش عالم ہے اس میں صرف ایک ہی مقصود رہنا کیا ضرور ،دیکھ لیجئے عناصر اربعہ سے کتنے کام لئے جاتے ہیں کہ اگر غور کیا جائے تو عقل حیران ہوجائے ۔ کیا تخلیق کے وقت یہ سب اغراض و منافع پیش نظر نہ ہوں گے ۔ پھر اگر آفرینش ثقلین سے دونوں مقصود ہوں تو کیا قباحت لازم آئے گی ۔ بلکہ ثقلین اگر باحسن وجوہ عبادت کریں اور تقرب الٰہی انہیں حاصل ہوجائے تو حضرتﷺ کا مرتبہ باحسن وجوہ سمجھ لیں گے ۔ ہاں جن و انس کی نسبت اتنا لازم آسکتا ہے کہ ایک قصد اولی ہو اور ایک قصد ثانوی اور ممکن ہے دونوں اولی ہوں۔
اگر کہا جائے کہ جب مقصود یہ تھا تو کفار نے پھر تصدیق کیوں نہ کی ؟ سوجواب اس کا یہ ہے کہ یہی اعتراض بعض لوگ آیۃ شریفہ پر کرتے ہیں کہ باوجود یکہ تخلیق عبادت کے لئے ہے پھر کفار عبادت کیوں نہیں کرتے ؟ جو جواب اس کا دیا جاتا ہے وہی جواب یہاں بھی ہوگا ۔ حالانکہ کفار کا حضرت ﷺ کو جاننا خود قرآن شریف سے ابھی ثابت ہوچکا ۔ اگرچہ مناسب اس موقع کے اور احادیث و مباحث ہیں مگر بخوف تطویل اختصار کیا گیا ۔ ۔
ٹھہرا کفارہ گناہوں کا جو ذکر اولیا
اور از قسم عبادت ہے جو ذکر انبیاء
پھر ہو ذکر سرور عالم کا کیسا مرتبہ
جس کا ذکر پاک ہے گویا کہ ذکر کبریا
رفع ذکر پاک ثابت ہے کلام اللہ سے
مطمئن ہوتے ہیں دِل ذکر شہ لولاہ سے