نام مبارک کی فضیلت :
قولہ : ذکر نام پاک سے نار جہنم سرد ہو: مواہب لدنیہ میں ہے روی ان قوما من حملۃ القرآن یدخلونہا فینسہم اللہ ذکر محمد صلی اللہ علیہ و سلم حتیٰ یذکرہم جبرئیل علیہ السلام فیذکرونہ فتخمد النار و تنزوی عنہم
ترجمہ : روایت ہے کہ ایک قوم حافظ قرآن دوزخ میں داخل ہوگی جس سے بھلادے گا اللہ تعالیٰ ذکر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ، پھر یاد دلائیں گے ان کو جبرئیل علیہ السلام ، جب یاد کریں گے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تو آگ بجھ جائے گی اور ہٹ جائے گی ۔ انتھیٰ۔
حضرتﷺ کے ہمنام کی نجات :
قولہ : اور سمی حضرتؐ کا دوزخ میں نہ جائے مومنو : مواہب لدنیہ اور شرح زرقانی میں روایت ہے روینا ممااخرجہ الحافظ ابوطاہر السلفی و ابن بکیر فی جزئہ من طریق حمید الطویل ( عن انس بن مالک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال یوقف عبدان بین یدی اللہ تعالیٰ فیأمر اللہ بہماالی الجنۃ ، فیقولان : ربنابما استاہلنا الجنۃ و لم نعمل عملاً یجازینا الجنۃ ؟ فیقول اللہ تعالیٰ ادخلاالجنۃ فانی آلیت علی نفسی ان لایدخل النارمن اسمہ احمد ولامحمد ، وروی ابونعیم عن نبیط بن شریط قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال اللہ تعالیٰ و عزتی و جلالی لاعذبت احداً تسمی باسمک فی النار )
ترجمہ : روایت ہے انس بن مالکؓ سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ دو بندے روبرو اللہ تعالیٰ کے کھڑے کئے جائیں گے ۔ حکم ہوگا لے جاؤ ان کو جنت کے طرف ، وہ عرض کریں
گے اے رب کس سبب سے ہم قابل جنت ہوئے حالانکہ کوئی عمل ہم نے ایسا نہیں کیا جس کا بدلا جنت ہو ، ارشاد ہوگا جاؤ جنت میں میں نے قسم کھائی ہے اپنی ذات کی کہ دوزخ میں داخل نہ ہو وہ شخص جس کا نام احمد یا محمد ہو ۔ اور نیز فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ نے اپنے عزت و جلال کی قسم کھائی ہے کہ نہ عذاب کرے گا دوزخ میں اس شخص کو جو آپ کے نام کے ساتھ موسوم ہو ۔
ہر چند ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ فضیلت تسمیہ کے باب میں جتنی حدیثیں وارد ہیں سب موضوع ہیں مگر علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ یہ قول قابل اعتبار نہیں البتہ بعض حفاظ نے جو لکھا ہے کہ کوئی حدیث اس باب میں صحیح نہیں ، یہ بات اور ہے صحیح نہ ہونے سے موضوع ہونا لازم نہیں آتا جیسا کہ کتب اصول حدیث میں مصرح ہے اور ایسی حدیث کیونکر موضوع ہوسکتی ہے جس کو اکابر محدثین مثل حاکم اور بزار ، ابن عدی ، ابومنصور ، ابوسعید ، ابویعلی ، طرایطنی ، ابن جوزی ، سلفی ، ابونعیم ، خرائطی ، ابن بکیر وغیرہ نے موقوفاً و مرفوعاً روایت کیا ہے ۔ ہکذا افاد الزرقانی فی شرح المواہب ۔ اور احادیث موقوفہ بھی یہاں حکم میں مرفوع کے ہیں اس لئے کہ صحابہ ایسے اموراپنی رائے سے نہیں کہہ سکتے جیسا کہ محدثین نے اس کی تصریح کی ہے ۔
رہا یہ کہ بعض ملاحدہ وزنادقہ بھی نام مبارک کے ساتھ موسوم ہیں ، اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے فضائل بلکہ جمیع اعمال حسنہ بغیر ایمان کے کچھ کام نہیں آتے ، مقدم سب سے خدا و رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان اور محبت ہے ، جب یہیں معاملہ ٹھیک نہ ہوا تو سوائے جہنم کے پھر کہیں ٹھکانا نہیں ۔ الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اس قدر عظمت ملحوظ ہے کہ توہین حضرتؐ کے نام کی بھی حق تعالیٰ کو گوارا نہیں ۔
Post a Comment