سماع موتی Sama e Mouta

سماع موتی : 

امرا ول یعنے علم بلاواسطہ کی نسبت یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ عموماً اموات کا سماع قریب سے بدلائل ثابت ہے ، چنانچہ بخاری شریف میں روایت ہے کہ جو کفار بدر کے کنویں میں ڈال دیئے 
گئے تھے ان کے طرف جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خطاب فرمایا کہ { ھل وجد تم ما وعد ربکم حقا } یعنے کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پالیا ۔ صحابہؓ نے عرض کیا کیا آپ مردوں کو پکارتے ہیں یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) ؟فرمایا ہاں  ماانتم باسمع منہم و لکن لایجیبون یعنے تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ۔ انتہیٰ ۔
 اور سوائے اس کے سماع موتی کے باب میں کئی روایات و آیات وارد ہیں ۔ الحاصل جب عموماً اہل قبور قریب سے سنتے ہوں تو چاہئے تھاکہ قبر شریف کے پاس اگر کوئی شخص سلام عرض کرے تو اس کی اطلاع کے واسطے فرشتہ کا توسط نہ ہوتا حالانکہ یہ سلام بھی فرشتہ ہی کے ذریعہ سے پہونچتا ہے چنانچہ تصریحاً فرماتے ہیں:
 مامن عبدیسلم علیّ عند قبری ، اِلاوکل اللہ بہاملکا یبلغنی ۔ رواہ فی الشعب کذافی مسالک الحنفاء ۔ 
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جو بندہ مجھ پر سلام کرے گا میری قبر کے پاس تو ایک فرشتہ مقرر ہوگا کہ وہ سلام مجھ کو پہونچا دیا کرے گا ۔
 اور کنزالعمال میں اسی حدیث کو اس طور سے روایت کیا ہے مامن عبدیسلم علیّ عند قبری اِلاوکل اللہ بہ ملکا یبلغنی ۔ و کفی امرآخرتہ و دنیاہ و کنت بہ شہیدا یوم القیامۃ ۔ ہب عن أبی ہریرۃؓ 
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو بندہ عرض کرے گا مجھ پر سلام میری قبر کے پاس تو حق تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جو وہ سلام مجھ کو پہونچا ئے گا اور کافی ہوگا اس کے دنیا و آخرت کے کاموں کے لئے اور میں اس کا گواہ بنوں گا قیامت کے دن ۔ انتہیٰ ۔ 
اور قول بدیع میں امام سخاویؒ نے لکھا ہے :  وفی السمعونیات بسند ضعیف عن ابی ہریرۃ ؓ ایضاً مرفوعاً : من صلی علّی عند قبری وکل بہاملک یبلغنی و کفی امردنیاہ و 
آخرتہ و کنت لہ یوم القیامۃ شیہدا و شفیعا 
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھے گا تو ایک فرشتہ مجھے وہ پہونچائے گا جو اس کام کے لئے مقرر ہوگا اور کفایت کرے گا وہ اس کے دنیا و آخرت کے کاموں کو ، اور میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گا اور شفاعت کروں گا ۔ انتہیٰ ۔ 
اور روایت ہے کہ ایک شخص قبر شریف کے پاس آکر سلام عرض کیا کرتا تھا ، حسن بن حسینؓ نے اس کو فرمایا کہ تو اور وہ شخص جو اندلس میںہو برابر ہیں ، یعنے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو علم دونوں کا برابر ہے چنانچہ اس قول کو بدیع میں نقل کیا ہے : 
قد روی ان رجلا ینتاب قبر النبی صلی اللہ علیہ و سلم فقال الحسن بن حسینؑ یا ہذا اماانت ورجل بالأندلس سواء ۔ انتہیٰ ۔ 
فائدہ اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ مقامات دور و دراز سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام عرض کیا کرتے ہیں وہ بھی حضوری سے محروم نہیں ہیں ۔ اب رہی وہ حدیث شریف جو فرماتے ہیں کہ اگر کوئی میری قبر کے پاس مجھ پر سلام کرے تو میں سنتا ہوں اور دور سے ملائک پہنچاتے ہیں تو بعد ان دلائل کے جواب اس کا آسان ہے اس لئے کہ اس میں نفی سماع کی تصریح نہیں ہے ۔ ایک طریقہ علم کا فرما دیا جس میں سامعین کو استبعاد بھی نہ ہو اور مقصود بھی حاصل ہوجائے ۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post