ثبوتِ مواظبت خلفائے راشدین کے بیان میں Suboot e Mazibat Khulfa-e-Rashideen Ke Bayan Me

ثبوتِ مواظبت خلفائے راشدین کے بیان میں

پہلی حدیث: موطاامام مالک باب قیام رمـضان میں تیئس رکعات کے ساتھ مع طول قراء ۃ کے ۔ مالکعن یزید بن رومان قال کا ن الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلث وعشرین رکعۃ۔ ترجمہ روایت کرتے ہیں امام مالک یزیدبن رومان سے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سب آدمی (صحابی وتابعین ) رمضان شریف میں تیئس رکعات پڑھتے تھے ۔اس حدیث پر منکر ین بیس رکعات تراویح یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ متصل نہیں، منقطع ہے ۔ یعنی یزید بن رومان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کو نہیں دیکھا ۔
  جواب اول تو یہ ہے کہ مرسل ثقہ، امام شافعی کے سوا ائمہ ثلاثہ امام ابو حنیفہ‘ امام مالک ‘امام احمد بن حنبل اور اکثرمحققین کے نزدیک مقبول اور حجت ہے۔ شرح صحیح مسلممیں ہے  ومذہب ما لک وابی حنیفۃ واحمد واکثر الفقھا ء انہ یحتج بہاور یزید بن ورمان کی بابت تقریب التہذیب صفحہ۲۸ میں یہ لکھا ہے یزید بن رومان المدنی مو لی آل الزبیر ثقۃ من الخامسۃ۔ لہذا یہ حدیث مرسل ثقہ اکثر ائمہ 
اہل سنت کے نزدیک حجت ہو ئی ۔ اور منکر ین بیس رکعات تراویح اکثر کے خلا ف ہی چلیں توپھر۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ جب حدیث مرسل کو دو سری مرفوع یا مرسل حدیث یا عمل صحابہ سے تا ئید ہو، وہ مرسل امام شافعی کے نزدیک بھی حجت ہے ۔ اور ثبوت بیس رکعات تراویح میں حدیث مرفوع متصل بیہقی جو آگے نقل ہو گی، اس کی موید ہے ۔ نیز عمل صحابہ اسی پر ہے لہذ ا  اب یہ حدیث مرسل بوجہ تائید دیگر حدیث مرفوع وعمل صحا بہ چاروں امام اور جمہور علماکے نزدیک حجت ہوئی۔ امام نووی شافعی فرماتے ہیں ومذہب الشافعی انہ اذا انضم الی المرسل ما یعضدہ احتج بہ وذالک بان یروی مسندا او مرسلامن جھۃاخری او عمل بہ بعض الصحابۃ اواکثرالعلماء۱؎
  تیسرا جواب یہ ہے کہ مراسیل مؤطا محدثین کے نزدیک دوسرے طریق اسنا د سے متصل ہیں جن بعض محدثین نے مرسل کو حجت نہیں گر دانا، مراسیل مؤطا اس سے مستثنیٰ ہیں۔  
حجۃ اللہ البا لغہ میں مولانا شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں:اتفق اھل الحدیث علی ان جمیع ما فیہ صحیح ما فیہ صحیح علی رایٰ مالک ومن وافقہ واما علیٰ رای غیر ہ فلیس فیہ مرسل ولا منقطع الا قد اتصل السند بہ من طرق اخریٰ فلا جرم انھا صحیحۃ من ھذاا لوجہ۔ ترجمہ :اہل حدیث کا اتفاق ہے اس امرپر کہ جو کچھ احادیث مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہیں ،وہ سب   امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے مو افقین کے نزدیک صحیح ہیں اور دوسروں کے نزدیک اس وجہ سے صحیح ہیں کہ مؤطا میں جس قدر مرسل او رمنقطع احادیث ہیں وہ طرق دیگر سے متصل ہیں ۔
اور مصفیٰ (صفحہ ۷۰)میں حافظ الحدیث علامہ جلال الدین سیوطی شافعی سے نقل کرتے ہیں کہ سیوطی زیادہ کر دہ است بر حافظ ابن حجر و گفتہ است کہ مرسل ومنقطع حجت است نزدیک مالک وسائر آنانکہ موافق اویند دریں مسئلہ وہمچنیں حجت شد نزدیک ما (یعنی شافعیاں )وقتیکہ معتضد شد بروایت مرفوعہ یا موقوف صحابی ودر مؤطا ہیچ مرسل نیست مگر کہ معتضد است بروایات مرفوعہ بہماں لفظ یا بمعنی آں پس صواب آنست کہ گفتہ شود کہ مؤطا صحیح است نزدیک جمیع ۔ا نتہیٰ بلفظہ ۔ 
دوسری حدیث صحیح متصل جو روایت کی بیہقی نے ۔لفظ اس کے یہ ہیں ۔ عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عھد عمر فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ ۔ روایت ہے سائب بن یزید صحابی سے‘ کہا: کھڑے ہوتے تھے زمانۂ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ میں مہینے رمضان میں ساتھ بیس رکعتوں کے یعنی بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے ۔ اس حدیث کی نسبت جہاں تک معلوم ہوا منکرین بیس رکعات تراویح کوئی با قا عد ہ اعتراض نہیں کر سکے ۔بے دلیل عدم صحت حدیث ہذا کا دعویٰ کر تے ہیں ۔ دعویٰ عدم صحت اس حدیث کا منکرین کی جانب سے اس وقت درست ہوتا کہ باقاعدہ راویو ںپر جرح کرتے یا کسی معتبر کتاب سے اس حدیث بیہقی کا نہ صحیح ہونا نقل کرتے۔،دوحال سے خالی نہیں یا بیہقی ان کی نظر سے نہیں گذری مگر اس جہل کا دو سروں پر الزام کیسا ؟اور جن مشا ئخ نے اس حد یث کا صحیح ہونا بتلا یا ان پر بدگمانی کی کیاوجہ؟ یا نظر سے گذری ہو اور کوئی وجہ جرح کی معلوم نہ ہو ئی ہو پھردانستہ صحیح کوغیر صحیح قراردینا کما ل بے دینی ہوگی ۔ ہم سے اگر دریافت کریں کہ صحت اسناد حدیث بیہقی کس طرح معلوم ہوئی ؟ ہماری طرف سے جواب یہ ہے کہ حسب اقرار مشائخ محدثین ہم نے صحت کا دعویٰ 
کیا ہے۔

چنا نچہ حافظ الحدیث علامہ جلال الدین سیوطی رسالۂ مصابیح میں فرما تے ہیں ۔ وفی سنن البیہقی وغیر ہ با سناد صحیح عن السائب بن الیزید الصحابی الخ۔اور ارشاد الساری شرح صحیح بخاری سے فاضل لکھنو ی مولانا عبد الحی نے ان الفاظ سے نقل کیا ۔وفی ارشاد الساری روی البیہقی فی سننہ باسناد صحیح  الخ۔اور محدث فقیہ علامہ محمد ابراہیم حلبی’’ کبیر ی‘‘ میں فرماتے ہیں وللجمہور ما رواہ البیہقی باسناد صحیح عن السائب بن یزید الخ۔اورسرآ مد محدثین علامہ بدر الدین عینی شرح کنز میںفرماتے ہیں ولنا مارواہ البیہقی با سنا د صحیح الخ۔اور مولاناشاہ عبد العزیزرسالۂ استفتاء تراویح بیس رکعت میں یہ الفاظ لکھتے ہیں کماروی البیہقی باسناد صحیح عن السائب بن یزیدالخ۔
غر ض تمام محققین فقہا ومحدثین نے روایت بیس رکعات تراویح بیہقی کی اسناد صحیح کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔ اگر بمقابلہ ان مشائخ کبار کے منکرین بیس رکعات تراویح کی ایک معتبر کتاب سے یہ جملہ نقل کر کے دکھا تے کہ اسنادروایت بیہقی صحیح نہیں تب ان کو لا نسلم کہنے کی گنجا ئش تھی ۔واذلیس فلیس۔ علاوہ ازیں شرح موطا میں ابن عبد البر اکیس رکعات کی تراویح کی روایت کو صحیح بتلا تے ہیں۔کما فی الزرقانی۔اس سے بھی ہمارا دعوی(یہ جواب الزاما منکرین کو بسبب ایک رکعت ہو نے کے وتر ان کے نزدیک ایک سخت مسکت ہے ) بیس رکعات تراویح ثابت ہے اور ابن عبد البر حجت ہیںفن حدیث میں،جیسا واقفان علم حدیث پر ظاہر ہے ۔
تیسری حدیث  :  علا مہ ا حمد بن تیمیہ نے منہاج السنہ ۱؎  میں نقل کی ہے ،الفا ظ 
اس کے یہ ہیںوعن عبد الرحمن السلمی ان علیا دعا القراء فی رمضان فامررجلایصلی بالناس عشرین رکعۃ وکان علیا یوتر بھم۔ روایت ہے ، ابی عبد الرحمن سلمی سے کہ تحقیق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بلایا قاریو ں کو رمضان میںاور ایک کو حکم دیا کہ بیس رکعات تراویح پڑھائے اور خودوتر پڑھاتے تھے ۔
واضحہو کہ علا مہ ا حمد بن تیمیہ نے منہاج السنہ روافض کی تردید میں لکھی ہے اور یہ حدیث۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس مو قع پر نقل کی ہے جہا ں روافض کے اس طعن کو اٹھایا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے بیس رکعات تراویح مقررکرکے اسلام میں بدعت پیدا کی۔ علامہ موصوف نے ثابت کردیا کہ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ویسا ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیس رکعات تراویح کا پڑھنا ثابت ہے ۔
چوتھی حدیث:مصنف۲؎ ابن ابی شیبہ میں ہے عن عبد العزیز بن رفیع قال کان ابی بن کعب یصلی بالمدینۃ عشرینرکعۃ۔روایت ہے عبدالعزیز بن رفیع سے کہ انہوںنے کہا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینٔہ منورہ میں بیس رکعات تراویح پڑھا تے تھے۔
پا نچویں حدیث:کتاب مغنی۱؎سے علامہ حلبی نے نقل کی ہے عن علی انہ امر رجلا ان یصلی بھم فی رمضان بعشرین رکعۃ۔ روایت کی گئی حضر ت علی رضی اللہ عنہ سے کہ حکم دیا آ پ نے ایک شخص کو کہ رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھا ئے ۔
  چھٹی حدیث : مرقا ت شرح مشکوۃ ۲؎میں بیہقی سے نقل ہے ۔۔ ورویناعن 
شبرمۃبن شکل وکان من اصحاب علی رضی اللہ عنہ انہ ورویناعن شبرمۃبن شکل وکان من اصحاب علی رضی اللہ عنہ انہ کا ن یؤمھم فی رمضان فیصلی خمس ترویحات عشرین رکعات۔اورروایت پہنچی ہے ہم کو شبر مہ بن شکل سے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اصحاب سے تھے کہ وہ رمضان میں امامت کرتے بیس رکعات کی اور پانچ ترویحات پڑھاتے ۔
ساتویں حدیث :  مصنف ابن ابی شیبہ کی ۳؎ عن عطاء قال ادرکت الناس  یصلون ثلاثاوعشرین رکعۃ بالوتر۔ روایت ہے عطاء تا بعی سے کہا،پایا میں نے لوگوںکو پڑھتے تھے تیئس رکعتیں مع وتر کے۔
آٹھویں حدیث : مصنف ابن ابی شیبہ ۴؎کی   عن ابی البختری انہ کان یصلی خمس ترویحات فی رمضان با للیل بعشرین رکعۃویوتر بثلاث ویقنت قبل الرکوع۔روایت ہے ابی البختری سے، تحقیق وہ رمـضان میں پانچ ترویحات میں بیس رکعتیں پڑھا تے تھے اور تین وتر پڑھتے تھے اور رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post