سنت خلفائے راشدین کو ضروری العمل جاننے کے بیان میں
ہر چند لزوم اتباع صحابہ خصوصا ثبوت اقتداء و خلفائے راشدین میں احادیث متعددہ وارد ہیں مگر بنظر اختصا ر ہم اس جگہ دو مر فوع حدیثیں نقل کرتے ہیں جنکی صحت اسناد میں مخالفین کے پاس کوئی موقع جرح اور طعن کا نہیں ہے
حدیث اول ۱؎ عن العرباض بن ساریۃ قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات یوم ثم اقبل علینا بوجھہ فوعظنا موعظۃ بینۃ ذرفت منھاالعیون ووجلت منھاالقلوب فقال رجل یارسول اللہ کا ن ھذہ موعظۃ
مودع فاوصنا فقال اوصیکم بتقوی اللہ والسمع والطاعۃ وان کان عبدًاحبشیا فانہ من یعش منکم بعدی فسیریٰ اختلافا کثیرًا فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین تمسّکوا بھا وعضوًا علیھا با لنواجذ وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدث بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ رواہ احمد، وابو داؤد، والترمذی،وابن ماجہ، الا انھما لم یذکراالصلوۃ۔ترجمہ: روایت ہے عرباض بن ساریہ سے کہا نمازپڑھائی ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز۔ پھر چہرہ مبارک ہماری طرف کیا پھر نصیحت کی ہم کوپوری نصیحت ۔بہنے لگیںاس سے آنکھیں اور ڈ رگئے دل ،پس عرض کیا ایک شخص نے یا رسول اللہ! گویا یہ نصیحت رخصت کرنے والے کی ہے پس ہم کو وصیت کیجئے فرمایا وصیت کرتا ہوںتمکوساتھ تقوی اللہ کے اور مسلمانوںکے سردار کا حکم بجا لا نیکے۔ اگرچہ حبشی غلام ہو ۔ پس جوشخص میرے بعد زندہ رہیگا
وہ بہت اختلاف دیکھے گا ۔لازم پکڑو میرے طریقہ کو اور خلفائے راشدین مہدیین کے طریقہ کو بھروسہ کرو اس پر اور مضبوط پکڑے رہو دانتوں سے اس کو۔ اور بچو نئی باتوں سے پس تحقیق جو نئی بات ہے وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔روایت کیا اس حدیث کو احمد، ابو داؤد، وترمذی، ابن ماجہ، نے مگر ترمذی، ابن ماجہ نے نماز کا ذکر نہیں کیا ۔ انتہی۔واضح ہو یہ حدیث زمانہ وفات کے قریب کی ہے پہلے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکام کی اطاعت کا حکم فرمایا ۔ اس کے بعد دین میں اختلاف پڑنے کی پیشین گوئی فرماکر اپنی سنت اور خلفائے راشدین کی سنت لازم پکڑنے کا حکم دیا ۔دونوںسنتوں کویکساں جتلاکر پھر بدعات سے
مودع فاوصنا فقال اوصیکم بتقوی اللہ والسمع والطاعۃ وان کان عبدًاحبشیا فانہ من یعش منکم بعدی فسیریٰ اختلافا کثیرًا فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین تمسّکوا بھا وعضوًا علیھا با لنواجذ وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدث بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ رواہ احمد، وابو داؤد، والترمذی،وابن ماجہ، الا انھما لم یذکراالصلوۃ۔ترجمہ: روایت ہے عرباض بن ساریہ سے کہا نمازپڑھائی ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز۔ پھر چہرہ مبارک ہماری طرف کیا پھر نصیحت کی ہم کوپوری نصیحت ۔بہنے لگیںاس سے آنکھیں اور ڈ رگئے دل ،پس عرض کیا ایک شخص نے یا رسول اللہ! گویا یہ نصیحت رخصت کرنے والے کی ہے پس ہم کو وصیت کیجئے فرمایا وصیت کرتا ہوںتمکوساتھ تقوی اللہ کے اور مسلمانوںکے سردار کا حکم بجا لا نیکے۔ اگرچہ حبشی غلام ہو ۔ پس جوشخص میرے بعد زندہ رہیگا
وہ بہت اختلاف دیکھے گا ۔لازم پکڑو میرے طریقہ کو اور خلفائے راشدین مہدیین کے طریقہ کو بھروسہ کرو اس پر اور مضبوط پکڑے رہو دانتوں سے اس کو۔ اور بچو نئی باتوں سے پس تحقیق جو نئی بات ہے وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔روایت کیا اس حدیث کو احمد، ابو داؤد، وترمذی، ابن ماجہ، نے مگر ترمذی، ابن ماجہ نے نماز کا ذکر نہیں کیا ۔ انتہی۔واضح ہو یہ حدیث زمانہ وفات کے قریب کی ہے پہلے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکام کی اطاعت کا حکم فرمایا ۔ اس کے بعد دین میں اختلاف پڑنے کی پیشین گوئی فرماکر اپنی سنت اور خلفائے راشدین کی سنت لازم پکڑنے کا حکم دیا ۔دونوںسنتوں کویکساں جتلاکر پھر بدعات سے
بچنے کا ارشاد کیا۔اور جیسا کہ علیکم بسنتی میں کلمہ علیکم اپنے معنی حقیقی وجوب پر محمول ہے ویسا ہی وسنۃالخلفاء الرشدین۔ میں وجوب سنت خلفائے راشدین مراد ہے ۔اور معنی مجازی لینے کا کوئی قرینہ نہیں ۔ دوسرے ایک ہی کلمہ میں اجتماع بین الحقیقۃوالمجازلازم آئیگا اور وہ ناجائز ہے۔ منکرین بیس رکعات تراویح کو جب اس حدیث کی اسناد پر کو ئی موقع جرح کرنے کا نہیں ملا تب اس کے معنے میں تاویلات لایعنی کرنی شروع کر دیں ۔
اول یہ کہ لفظ سنتی وسنۃ الخلفاء دونوں جگہ معرفہ ہیںاور قاعدہ مقررئہ علم اصول ہے کہ جب معرفہ لوٹا یا جا ئے تو دوسرا معرفہ بعینہ پہلا ہوتاہے جس سے مطلب یہ نکلا کہ التزام سنت خلفائے راشدین سے وہی سنت مراد ہوئی جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہو۔نہ تنہا خلفائے راشدین کی سنت ہو ۔
جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں معرفہ مکرر ہی نہیں ہو ا جومکرر ہوا یعنے لفظ سنت وہ معرفہ نہیں ۔اور جو معرفہ ہے یعنے کلمہ سنتی وسنۃ الخلفائوہ مکر ر نہیں ۔ہاں دودفعہ سنتی
سنتی آجاتا سنۃ الخلفاء سنۃ الخلفائہوتا تب مکرر کہاجا تا۔ ورنہ چاہئے ابنائنا وابنائکم ونسا ئنا ونسا ئکم میں باوجود تغایر مضاف الیہ دونوں جگہ ابناء ونساء متکلم اور مخا طب کے ایک ہوں۔ لاحول ولا قوۃ الا با للہ۱؎ مرحبا ان حضرات کی سمجھ پر۔ خوب علم اصول کو سمجھے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ عینیت دونوں معرفوں میںجب ہوتی ہے کہ مابین دونوں کے حرف عطف نہ ہو جیسا فان مع العسریسراان مع العسریسرامیں بوجہ
ا عادہ معرفہ ایک عسراور اس کے مقا بلہ میں دویسر مراد ہیں ۔ بخلا ف ما نحن فیہ کے کہ یہا ں سنتی وسنتۃالخلفاء میں واو عاطفہ موجود ہے جوتغا یر پر دلالت کرتا ہے ۔
دوسری تاویل یہ کرتے ہیں کہ لفظ سنت مضاف ہے طرف جمع معرف باللام کے اور جمع معرف با للام استغراق کے واسطے موضوع ہے ۔ تب معنے یہ ہونگے کہ سنت جمیع خلفاء ۲ ؎ کی لازم پکڑو اور تراویح تمام خلفائے راشدین کی سنت نہیں کیونکہ بالا تفاق حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت ہی پڑھی ہیں ۔
جواب اس کا یہ ہے کہ جمع معرف باللام مفید استغراق بیشک ہے ۔مگر استغراق کی دو قسمیںہیں۔ استغراق افرادی ۔استغراق مجموعی۔ اور یہا ں قسم اول مراد ہے یعنی التزام سنت خلفا ئے راشدین بطور استغراق خلفا ئے راشدین کے ہرہر فرد کو شامل ہے، ہر ایک کی سنت کا التزام مساوی ہے ۔ یہ معنی اس کے نہیں کہ جس ایک فعل کو مجمو ع من حیث المجموع نے کیا ہو وہی مراد ہو ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ خدائے تعالیٰ فرماتاہے
ان اللہ لا یضیع اجرالمحسنین۔
یہا ںکلمہالمحسنین جمع معرف باللام اور لفظ اجر کا مضاف الیہ ہے۔ اگراستغراق مجموعی مراد ہو تب یہ معنی ہوںگے کہ اللہ تعالیٰ مجموعہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کریگا اور اگرمجموع محسنین نہوں مثلا ایک ہو تو ضائع کردے گا۔ حالانکہ یہ ا مرعقل ونقل کے خلاف ہے بلکہ یہ حکم عدم اضاعۃ اجر محسنین بطور استغراق افرادی ہرہر فرد محسن کو شامل ہے جیسا سب کا عمل ضائع نہیں کر ے گا ویسا ہی ایک کا ـضائع نہیں کرے گا اور یہی اس عبارت توضیح کا مطلب ہے ۱؎ ومنھا ای من الفاظ العام الجمع المعرف باللام اذا لم یکن معھودا لان المعرف لیس ھو الماھیۃ فی الجمع ولا بعض الافراد لعدم الاولویۃ فتعین الکل ۔ یعنی جمع معرف باللام الفاظ عام سے ہے جب کہ لام عہد خارجی نہوکیونکہ تعریف میں نفس ما ہیت مقصود نہیں ہوتی اور نہ بعض افراد بوجہ عد م اولو یۃ کے۔ اس واسطے کل افراد مراد ہو نگے منکرین بیس رکعات تراویح اس عبارت کا یہ مطلب سمجھے کہ کل افراد سے کل مجمو عی مراد ہے حا لا نکہ یہ بالکل غلط ہے بلکہ کل افرادی ۔کیونکہ اس کے بعد کی عبارت یہ ہے۔
ولتمسکھم بقولہ علیہالصلوۃ والسلام الائمۃ من قریش ۔یعنی صحابہ نے لفظ الائمۃ سے جو جمع معرف باللام ہے اس امر کا استدلال کیا کہ سب خلیفہ قریش ہی سے ہونگے لام استغراق مراد لیا اور سب نے تسلیم کیا ۔ اب ہم منکرین بیس رکعات تراویح سے دریا فت کرتے ہیں کہ اگر الائمۃ میں استغراق مجمو عی مراد ہوتب یہ معنی ہوں گے کہ کم سے کم تین امام ایک وقت میں قریش کے مقرر ہوں اور لغویت اس امر کی ظاہر
ہے ۔بلکہ استغراق افرادی مراد ہے یعنی قوم قریش کا ہر ایک امام جس میں شرائط آخر موجو د ہوں وہ مقرر ہوسکتاہے۔ اور دوسرے قوم کا امام مقرر نہیں ہوسکتا ۔ منکرین بیس رکعات تراویح نے استغراق افرادی اور شمول علیٰ سبیل البدلیۃ میں فرق نہیں سمجھا ،اسی واسطے دھوکاکھایاشمول علیٰ سبیل البدلیۃ میں ایک وقت ایک ہی فردکو حکم ثابت ہوتاہے دوکو ثابت نہیں ہوتا جیسے من یاتینی اولا فلہ درہم میں ۔ اور استغراق افرادی میں ایک ہی وقت میں ایک کواور دوکو دو سے زیادہ کو حکم ثابت ہوتاہے ۔ فبینہما بُون بعید وفر ق مزیداو ر ایساہی لاتدرکہ الابصارمیں استغراق افرادی مراد ہے یعنی عدم ادرا ک فردًا فردًا ہر ایک بصرکی صفت ہے نہ یہ کہ عدم ادراک صفت مجموع من حیث المجموع ابصار کی ہو اور غیر مجموع مثلًا ایک یا دو کو ادراک ہو سکے ۔
تیسر ی تاویل یہ کرتے ہیں کہ مسنون ہونے کے واسطے مواظبت کا ہونا شرط ہے اور خلفائے راشدین سے بیس رکعات پر مواظبت ثابت نہیں ہوتی ۔
جواب اس کا اول تو یہ ہے کہ جب احادیث مؤطا وبیہقی وابن ابی شیبہ وعبارت ترمذی شریف سے بیس رکعا ت تراویح کا شروع ہو نا زما نۂ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بدستور باقی رہنا ثابت ہو چکا تو اب ثبوت مواظبت خلفائے راشدین میں کیا شک باقی رہا ۔ خاص کر حضرت علی کر م اللہ وجہہ نے قاری کو بیس رکعات تراویح پڑھا نے کا حکم دیا ۔اس پر یہ احتمال پیدا کرنا کہ اور وں کو حکم دیا اورخود عمل نہ کیا بڑی بد ظنی اور بے ادبی ہے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ مواظبت دوقسم ہے ۔ایک مواظبت فعلیہ: جیسے سنن رواتب فرائض خمسہ کے اول آخر ہیں۔دوسری مواظبت تشریعیہ: جیسے اذان کہ خود حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی روایت صحاح ستہ اور مؤطاو دارمی وطحاوی وغیر ہ معتبر کتب احادیث میںموجود نہیں جس سے خود حضرت نبی کریم علیہ وعلیٰ آلہ الصلوۃوالتسلیم کااذان دیناثابت ہوتا ہو۔ البتہ اذان اسی واسطے سنت مؤکدہ ہے اس کا نام مو اظبت تشریعی ہے اسی طرح مختلف احادیث مذکورئہ بالا سے حضرت علی کر م اللہ وجہہ کا بیس رکعات کے واسطے امر فرمانا ثابت ہے ۔لہذا مواظبت تشریعی ہوئی۔
حدیث دوم عن حذیفۃ۱؎ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انی لاادری مابقائی فیکم فا قتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمررواہ الترمذی۔ روایت ہے حذیفہ سے کہافرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میں نہیں جانتا کب تک زندہ رہو ں پس پیروی کر و میرے بعد ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کیا اس کو ترمذی نے اورابن ما جہ میں بھی انہیں الفاظ کے قریب مروی ہے ۔اس حدیث میں صریح اقتداء اور پیروی شیخین رضی اللہ عنہماکا شارع علیہ السلام نے حکم دیا ہے ۔ اس حدیث کے الفاظ ا ورمعانی میںمنکرین سنت خلفائے راشدین کو ان اعتراضات اورتاویلات کی گنجایش بھی نہیں جو پہلی حدیث میں نکالی تھیں اور جن کے جوابات دیئے گئے ۔
ہاں! ایک خدشہ ظاہر کر بیٹھتے ہیں ۔وہ یہ کہ خلفائے راشدین کو بذات خودمنصب تشریع تحلیل یا تحریم یا سنت یا واجب کرنے کا نہیں پھر ان کا طریقہ کس طرح مثل سنت شارع علیہ السلام مستند اور واجب الالتزام ہو گا ۔
جواب اسکا یہ ہے کہ فی الواقع خلفائے راشدین کو منصب تشریع حلال وحرام کا
حا صل نہیں اورنہ خود ان میں سے کسی نے یہ حکم دیا ہے کہ میری سنت کی پیروی کرو بلکہ حضرت شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی سنت کے التزام کا حکم دیا ۔
لہذا تشریع التزام سنت خلفائے راشدین منجانب شارع علیہ السلام ہوئی ۔ان کی سنت پر عمل کرنا شارع علیہ السلام کا حکم بجالانا ہے اور ان کی سنت کو نہ مانناحکم شارع علیہ السلام کا نہ ماننا ہے ۔دوسرے یہ اعتراض وہی شخص کرے گا جسکو خلفائے راشدین کی نسبت یہ بدظنی ہو کہ وہ احکام شریعت بلا سند شارع اپنی طرف سے دیتے تھے ۔اور یہ امر شعبٔہ رفض ہے اعاذنااللہ من ذلک۔ ہرگزہرگز یہ امر نہیں ۔ بلکہ خلفائے راشدین نے جو سنت جاری کی اور جس عمل پر مواظبت فرمائی یقینًا وہ سنت نبوی سے صراحۃً یادلالۃً ثابت ہوا ۔ یا بطور قاعدہ اجتہادخلفائے راشدین نے کسی اصل شرعی سے اسکا استنباط کیا۔مسئلہ مانحن فیہ یعنی بیس رکعات تراویح میں اگر حدیث ابن عباس کو بھی نہ لیا جائے جس سے شارع علیہ السلام کا بیس رکعات تراویح پڑھنا ثابت ہے۔ ایک عمد ہ اصل کثرت رکعات کے واسطے موجود ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے :علیکم بکثرت السجود۔زیادہ نوافل پڑھو ۔دوسری جگہ فرمایا الصلوۃ خیرموضوع فمن شاء فلیقلل ومن شاء فلیستکثر۔ نمازنفل سراسر نیکی ہے جسکادل چاہے کم کرے اور جسکا دل چاہے بڑھاوے ۔ جب شارع علیہ السلام نے نمازنوافل میں بڑھانے کی اجازت دی خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ نے آٹھ سے بیس تک بڑھاکر اس پر عمل کیا اور کسی صحابی سے ان بیس رکعات کے پڑھنے پر کسی کتاب حدیث میں انکا ر منقول نہیں ہوا ۔پھر زمانہ تابعین اور تبع تابعین میں حسب اتباع صحابہ بیس رکعات ہی
پر عمل رہا ۔ تو اب بیس مسنون ہونے میں کیا شک باقی رہا ۔
اگر منکریں بیس رکعات تراویح یہ اعتراض کریں کہ استحسان کثرت رکعات کی اجازت اس صورت میں ہے کہ شارع علیہ السلام کی طرف سے کسی عمل میں تحدید رکعات نہ ہوگئی ہو۔اور یہاں نوافل شب میں گیارہ رکعتیں محدودہیں۔
جواب اس کا یہ ہے کہ یہ دعویٰ بے دلیل ہے جناب رسالتمآب علیہ افضل الصلوۃ واکمل التحیات سے ہرگز تحدید گیارہ رکعات نماز شب کی ثابت نہیں ہوتی ۔ بلکہ صحیح مسلم۱؎ وابو داؤد ومؤطا امام مالک وجامع الاصول کی روایت جس کے راوی زید بن خالد جہنی ہیں اس سے تیرہ رکعتیں ثابت ہیں ۔خودحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحیح مسلم ،صحیح بخاری۲؎ میں تیرہ رکعات نمازشب کی روایت موجودہے۔ الفاظ اسکے یہ ہیں عن عائشۃ قالت کان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی من اللیل ثلث عشرۃ رکعۃ یوتر من ذلک بخمس لا یجلس الا فی آخرھا متفق علیہ۔روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کوتیرہ رکعات ادا فرماتے تھے ۔پانچ وتر پڑھتے نہ بیٹھتے مگر آخر میں۔ چونکہ نماز شب میں احادیث مختلفہ وارد ہوئیں علماء کوان کی تطبیق میں مشکل پیش آئی۔
بعض نے یہ کہا کہ روایات حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا اوقات متعددہ اور احوال مختلفہ پر محمول ہیں۔
چنانچہ امام قرطبی ۱؎سے منقول ہے: والصواب ان کل شئی ذکرتہ من ذالک
محمول علی اوقات متعددۃواحوال مختلفۃ بحسب النشاط وبیان الجواز ذکرہ فی فتح الباری ۔
اور بعض نے یہ کہا کہ گیارہ رکعات کی روایت اغلب اوقات پر محمو ل ہے ۔اور اس سے زیادہ کی روایت اتفاقیہ حالت پر مبنی ہے۔غرـض تحدید گیارہ رکعات نمازشب ثابت نہیں ہو سکتی ۔ اور عاملین آٹھ رکعات تراویح کے پاس کوئی ایسی حدیث دست آویز نہیں جو ان کے مدعاکو ثابت کرتی ہو۔ حدیث گیارہ رکعات پر اگر وہ عمل کرنا چاہیں توان کو تین وتر کا قائل ہونا پڑے گا ۔ حالانکہ وہ ایک رکعت وتر کے عامل ہیں ۔فا عتبروا یااولی الابصار۔
۱؎ اگر کسی کو یہ شبہ گزرے کہ آیت کلام مجید نعبد الھک والہ آبا ئک میںلفظ الہ باوجود تغایر مضاف الیہ کے پھر ایک مراد ہے۔ جو اب اس کا یہ ہے کہ اس جگہ کلمہ الٰہ دوسری مرتبہ ا س و جہ سے لوٹاناپڑا کہ ضمیر مجرور پر بدون اعادئہ جار کی عطف لازم نہ آجائے اور یہ درست نہیں غرض یہاں تکریر معرفہ مقصود نہیں چنانچہ عبارت تفسیر مدارک یہی ہے اعید ذکر الالٰہ لئلا یعطف علی الضمیر المجرور بدون اعادۃالجارّ صفحہ ۴۸) ۲؎ یہ تاویل سخت مردود ہے کیونکہ اس کا مال یہ ہونا ہے کہ جس امر کو کل خلفاء نے اپنی حیات میں کیا ہو تو وہ عمل بعد ممات کل خلفاء کے لائق اتباع ہو گا ۔کیونکہ اگر ایک خلیفہ بھی زندہ ہو تب بھی وہ عمل سنت باقیہ بموجب اس تاویل کے نہیں ہو سکتا ۔یہ سببقائم ہونے اس احتمال کے کہ شاید یہ خلیفہ آخر عمر میں اسکو ترک کر دے ا ور نیزاس حدیث پر عمل کرنا بموجب تاویل مذکور قبل زمانۂ خلافت حضرت علی غیر ممکن ہے۔۱۲
Post a Comment