حدیث لولاک کے معنی اور حکم Hadees E Laolaak Ke Mane Aur Hukm

حدیث لولاک کے معنی اور حکم :

قولہ : شہ لولاک : ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے لولاک ماخلقت الجنۃ ولولاک ماخلقت النار اور سلمان فارسیؓ سے لولاک ماخلقت الدنیا مروی ہے چنانچہ دوسری اور چوتھی تسدیس میں دونوں روایتیں مذکور ہوئیں ۔
 فائدہ یہاں معلوم کرنا چاہئے کہ آج کل جو غل مچ رہا ہے کہ لولاک لماخلقت 
الافلاک حدیث موضوع ہے یہ تسلیم بھی کیا جاوے تو اہل جرح کو اس سے فائدہ کیا ! زمین ، دریا ، جنت دوزخ ، ثواب عقاب ،جملہ آدمیوں کے جدبزگوار ، بلکہ ساری دنیا جب بدولت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پیدا ہوئی تو افلاک کیا چیز ہیں ! دیکھ لو جنت دوزخ بدولت حضرتؐ کے پیدا ہونے کی حدیث کو حاکم ، دیلمی ، سبکی ، بلقینی نے روایت کیا ہے ۔ اور زمین و دریا پیدا ہونے کی حدیث کو ابن سبع اور غرفی نے اور دنیا طفیلی ہونے کی حدیث کو ابن عساکر نے ، اور ثواب و عقاب کی حدیث کو ابن سبع و غرفی نے اور خلق آدم علیہ السلام کی حدیث کو طبرانی ، حاکم بیہقی ، ابن عساکر ، ابونعیم ، ابوالشیخ ، بلقینی ، سبکی نے ، چنانچہ دوسری اور چوتھی تسدیس میں ان احادیث کا ذکر ہوچکا ۔ اور خصائص کبری میں امام سیوطیؒ نے نقل کیا ہے :  اخرج الحاکم والبیہقی و الطبرانی فی الصغیر وابونعیم وابن عساکر عن عمرؓ بن الخطاب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : لما اقترف آدمؑ الخطیئۃ قال : یارب أسالک بحق محمدؐ لما غفرت لی ، قال:  کیف عرفت محمدؐ ا ؟ قال : لأنک لما خلقتنی بیدک و نفخت فیّ من روحک رفعت رأسی فرأیت علی قوائم العرش مکتوب ’’لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ فعلمت انک لم تضف الی اسمک الا احب الخلق الیک ، قال : صدقت یا آدم ولولامحمدؐ ماخلقتک ۔

ترجمہ : روایت کیا حاکم اور بیہقی اور طبرانی نے صغیر میں اور ابونعیم اور ابن عساکر نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جب آدم علیہ السلام مرتکب خطا ہوئے عرض کی یارب بحق محمد صلی اللہ علیہ و سلم تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے بخش دے ، ارشاد ہوا تم نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو کیسے پہچانا ؟ عرض کیا جب تو نے مجھے پیدا کیا اور اپنی روح مجھ میں پھونکی تو میں نے سر اٹھایا جو دیکھا تو عرش کے ہر پایہ پر ’’لاالہ الا اللہ محمدؐ رسول اللہ ‘‘لکھا ہوا ہے اس سے میں سمجھ گیا کہ اپنے نام کے ساتھ اسی کا نام تو نے ملایا ہوگا جو محبوب ترین خلق تیرے پاس ہے ، ارشاد ہوا : 
اے آدم ؑتم سچ کہتے ہو اگر محمدصلی اللہ علیہ و سلم نہ ہوتے تو میں تم کو نہ پیداکرتا ۔ انتھیٰ ۔ 
الحاصل ان سب روایات سے معلوم ہوا کہ تمام عالم کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا طفیلی ہے ۔ اب کہیئے افلاک اس سے کہاں نکل سکیں گے ۔ بلکہ خود افلاک کا نام بھی صراحتہً علی کرم اللہ وجہہ کی روایت میں آچکا ہے جو دوسری تسدیس میں مذکور ہے ۔ اب باقی رہی یہ بات کہ یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ موضوع ہے ، سو یہ بحث علمی ہے ۔


اعتراض کرنے والے سب ایسے نہیں ہیں کہ ابحاث علمیہ سے واقف ہوں بلکہ اکثر تو ایسے ہوں گے کہ لفظ حدیث کے معنی تک نہ جانتے ہوں گے ، ایسے لوگوں کا ایسے موقع میں مقصود کچھ اور ہی ہوتا ہے ، خیر الغیب عنداللہ ۔ ابن جوزی نے تو اس حدیث کو موضوعات کی کتاب الفضائل میں ذکر نہیں کیا ، باوجود یکہ کمال تشدد ان کا ظاہر ہے کہ اکثر احادیث ضعیفہ کو بھی داخل موضوعات کردیا ہے ۔ ہاں ملاعلی قاری نے موضوعات الحدیث میں خلاصہ سے نقل کیا ہے کہ صغانی نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ معنے اس کے صحیح ہیں کیونکہ دیلمی کی روایت میں لولاک ماخلقت الجنۃ ولولاک ماخلقت النار اور ابن عساکر کی روایت میں لولاک ماخلقت الدنیا وارد ہے ۔ انتھیٰ ۔ الحاصل حدیث لولاک صحیح ہے گو الفاظ میں کسی قدر فرق ہو پس اطلاق شہ لولاک میں کچھ کلام نہیں ۔ وھو المقصود ۔
Previous Post Next Post