حضرت ﷺ کا ذکر باعث محبت و ایمان :
غرض ایمان اگر حاصل کرنا ہوتو حضرتؐ کی محبت حاصل کرنا چاہئے اور حصول محبت کی مفتاح ذکر ہے ، چنانچہ ابن قیم نے حادی الارواح الی بلاد الافراح میں لکھا ہے وقدجعل اللہ لکل مطلوب مفتاحاو مفتاح الولایۃ والمحبۃ الذکر ۔
یعنے حق تعالیٰ نے ہر ایک مطلب کے لئے ایک کنجی مقرر کی ہے اور کنجی قرب و محبت کی ’’ذکر ‘‘ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اگر حاصل کرنا ہوتو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر بکثرت کرنا چاہئے تاکہ محبت حضرتؐ کی پیدا ہو اور بدولت اس کے ایمان حاصل ہو ۔ اور اگر ایمان ہے یعنے حضرتؐ کی محبت ہے جب تو بمقتضائے ’’من أحب شیئاً اکثر من ذکرہ ‘‘خود ذ کر ہونے لگے گا ۔
حضرتﷺ جملہ عالم کی پیدائش کے باعث ہیں :
قولہ : شہ لولاہ : اشارہ اس حدیث شریف کی طرف ہے جو مواہب لدنیہ میں ہے وروی انہ لما خرج آدم من الجنۃ رأی مکتوبا علی ساق العرش و علی کل موضع فی الجنۃ اسم محمد صلی اللہ علیہ و سلم مقرونا باسم اللہ تعالیٰ فقال : یارب ہذا محمد من ہو ؟ فقال اللہ تعالیٰ ہذا ولدک الذی لولاہ ماخلقتک ، فقال : یارب بحرمۃ ہذا الولد ارحم ہذا الوالد ، فنودی : یا آدم لوتشفعت الینا بمحمد فی اہل السمٰوات والارض لشفعناک ۔
ترجمہ جب آدم علیہ السلام جنت سے نکلے دیکھا کہ ساق عرش پر اور جنت میں ہر جگہ نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ لکھا ہوا ہے ، عرض کیا : یارب یہ محمد کون ہیں ؟ ارشاد ہوا (ہذا ولدک لولاہ ماخلقتک ) یعنے یہ تمہارے فرزند ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو میں تم کو پیدا نہ کرتا ۔ عرض کیا : یارب بحرمت اس فرزند کے اس والد پر رحم کر! ندا آئی کہ اے آدم اگر تم محمد کے وسیلہ سے کل زمین آسمان والوں کے حق میں سفارش کرتے تو بھی ہم قبول کرتے ۔
اور اسی طرح لفظ ( لولاہ ) اس حدیث شریف میں وارد ہے جس کو روایت کیا امام سیوطیؒ نے درمنثور میں تفسیر آیۃ شریفہ فتلقیٰ اٰدم من ربہ کلمٰت کے تحت میں کما قال : اخرج الطبرانی فی المعجم الصغیر و الحاکم و ابونعیم و البیھقی کلاھما فی الدلائل و ابن عساکر عن عمرؓ بن الخطاب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم : لما اذنب اٰدم الذنب الذی اذنب رفع رأسہ الی العرش فقال : أسألک بحق محمد ألاغفرت لی ! فأوحی اللہ الیہ و من محمد ؟ فقال : لما خلقتنی رفعت رأسی الی عرشک فاذا فیہ مکتوب ’’ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ‘‘ فعلمت انہ لیس احد اعظم عندک قدرا ممن جعلت اسمہ مع اسمک ، فاوحی اللہ الیہ : یا اٰدم انہ اٰخرالنبیین من ذریتک ولولاہ ماخلقتک ۔
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جب آدم علیہ السلام سے گناہ صادر ہوا تو عرش کی طرف سر اٹھا کر دعا کی کہ الہیٰ بحق محمد صلی اللہ علیہ و سلم مجھے بخش دے ، ان پر وحی ہوئی کہ محمد کون ؟ عرض کیا الہٰی جب پیدا کیا تو نے مجھ کو تو میں نے عرش کے طرف سر اٹھا کر دیکھا تو لکھا ہوا ہے ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘اس سے میں نے جانا کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے اس سے زیادہ کسی شخص کا مرتبہ تیرے پاس نہ ہوگا ۔ وحی آئی کہ اے آدم وہ نبیوں سے آخر ہوں گے تمہاری اولاد میں ( ولولاہ ماخلقتک ) یعنے اگر نہ ہوتے وہ تو نہ پیدا کرتا میں تم کو ۔انتہیٰ ۔
ابن جوزیؒ نے بھی کتاب الوفا بفضائل المصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام میں اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔
فائدہ : اکثر احادیث میں بظاہر اختلاف ہوا کرتا ہے کہ جس کی توفیق ہر شخص سے ہو نہیں سکتی ۔ ایسے مواقع میں یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ دونوں حدیثوں میں کچھ ضعف آجاتا ہو بلکہ یوں سمجھنا چاہئے کہ ہر ایک حدیث کو دوسری حدیث سے تعداد کی وجہ سے قوت پیدا ہوجاتی ہے اس لئے کہ ہر ایک حدیث نفس واقعہ کی صداقت پر گویا دوسری حدیث کی گواہ ہوتی ہے ، ہاں جن امور زائدہ میں تعارض ہے ان میں شک پیدا ہوگا نہ کہ نفس واقعہ میں ۔ دیکھ لو احادیث معراج جو صحیحین وغیرہ میں
وارد ہیں اس سے ترتیب مقامات انبیاء علیہم السلام میں کس قدر اختلاف ظاہر ہے پھر اس سے یہ نہیں لازم آتا کہ اس وجہ سے وہ سب احادیث ضعیف ہوگئے ہوں ، بلکہ محدثین حتی الامکان اس قسم کی احادیث میں توفیق دیدیتے ہیں اور کبھی منشاء اختلاف کا یہ بھی ہوتا ہے کہ راوی کو ہر چند اصل واقعہ تو یاد ہوتا ہے لیکن ممکن ہے کہ بسبب تمادی ایام کے تقدیم یا تاخیر اوقات وغیرہ پورے طور پر یاد نہ رہنے کی وجہ سے اپنے ظن غالب پر بیان کردیا ہو ، چنانچہ ان دونوں حدیثوں میں یہی صورت معلوم ہوتی ہے ۔
الحاصل ان دونوں حدیثوں سے مخاطبہ حق تعالیٰ کا آدم علیہ السلام کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے باب میں ثابت ہے کیونکہ ابھی حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی کو دوست رکھتا ہے اس کا ذکر زیادہ کرتا ہے
Post a Comment