حجاز کی آندھی Hijaz Ki Aandhi Ki Part 7

حجاز کی آندھی

(عنایت اللہ التمش)

قسط نمبر 7

عاصمہ جس کام کیلئے آئی تھی وہ کر کے چلی گئی ۔ اس شخص نے ایک گھوڑا خریدا اور اصطبل سے نکل گیا۔باہر اس کا گھوڑا کھڑا تھا۔ اس نے نئے گھوڑے کی رسی اپنے گھوڑے کی پچھاڑی سے باندھی اور سوار ہو کر چلا گیا، وہ اِدھر اُدھر مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا جا رہا تھا۔ جیسے وہ کسی کی تلاش میں ہو ۔ گھوڑے کی ر فتار بہت ہی آہستہ تھی۔
وہ شہر سے نکل گیا۔ اب وہ بار بار پیچھے دیکھتا تھااور گھوڑا چلا جا رہا تھا۔
’’ابنِ داؤد!‘‘ اسے ایک نسوانی آواز سنائی دی۔
اس نے اُدھر دیکھا ۔ کھجور کے تین درخت ایک دوسرے سے ملے کھڑے تھے۔ان کے ساتھ ہی ریتیلی مٹی کی ڈھیری تھی۔ وہاں ایک عورت کھڑی تھی۔
’’عاصمہ! ‘‘ابنِ داؤد گھوڑے سے کود کر اُترا اور عاصمہ کے قریب جا کر کہنے لگا۔’’ میں تمہیں دیکھتا آرہا تھا…… تم یہاں کیسے؟ مسلمان ہو گئی ہو؟ گھوڑوں کے اس سوداگر کی بیوی بن گئی ہو؟‘‘
’’بیوی نہیں لونڈی۔‘‘ عاصمہ نے افسردہ سے لہجے میں جواب دیا۔’’ غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہوں۔ مسلمان نہیں ہوتی نہ ہوں گی۔‘‘
’’تو چلو میرے ساتھ! ‘‘ابن ِداؤد نے کہا۔’’ تمہارے آقا کو پتا چلنے تک اتنی دور پہنچا دوں گا جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
’’بیٹی کو چھوڑ کر کیسے چلی جاؤں۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’وہ بھی میرے ساتھ ہے……کیا تم نہیں جانتے کہ میرا خاوند اور دو بھائی لڑائی میں مارے گئے ہیں……ہم نے بہت بری شکست کھائی ہے ابنِ داؤد! ہم نے جو مقصد حاصل کرنا چاہا تھا وہ نہ کر سکے ۔ میں نے سنا تھا کہ بنی اسرائیل کے دانشور جو منصوبہ بناتے ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوا کرتا لیکن تمہاری قوم کا یہ منصوبہ ایسا ناکام ہوا کہ ہم لوگ ساری عمر اٹھنے کے قابل نہیں رہے۔‘‘
’’اس ناکامی کی ذمہ داری نہ تم پر عائد ہوتی ہے نہ مجھ پر۔‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ منصوبہ ہر لحاظ سے کارآمد اور مکمل تھا۔ لیکن لڑنے والوں نے ہمت ہار کر اتنا اچھا منصوبہ خاک میں ملا دیا ۔ جانی نقصان تو ہونا ہی تھا سب سے بڑا نقصان یہ ہو اہے کہ اسلام کی جڑیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہیں۔‘‘
’’لیکن میں ابھی ہاری نہیں۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’ میں نے اپنے بھائیوں اور اپنے خاوند کے خون کا انتقام لینا ہے ۔کبھی تو جی میں آتی ہے کہ اپنے اس آقا ابو زبیر کو قتل کر دوں یہ بھی ہمارے خلاف لڑا تھا ۔لیکن تمہاری بات یاد آتی ہے کہ کسی ایک آدمی کو قتل کرنے سے ہمارا اتنا بڑا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا ۔بلکہ اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
’’میری دوسری باتیں بھی یاد رکھنا جو تمہیں بتا رہا ہوں۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ کتنا اچھا ہوا ہے کہ تم یہاں مل گئی ہو۔ ہم نے تم سے بہت کام لینا ہے ۔تمہاری بیٹی جوان ہو گئی ہے۔ اس سے بھی کام لینا ہے۔‘‘
’’میں اس کی تربیت اپنے نظریات اور اپنے منصوبے کے مطابق کر رہی ہوں۔ اس کے دل میں اسلام کی نفرت پیدا کر دی ہے۔‘‘
’ؔ’تم نے اصل ہدایت دی ہی نہیں ہو گی۔ ‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔
’’میں جان گئی ہوں تم کس ہدایت کی بات کر رہے ہو ۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’میں نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ قبیلوں کے سرکردہ افراد کے بیٹوں کو محبت کے جال میں پھانس کر اُنہیں آپس میں لڑانا ہے۔وفاداری کا حلفیہ وعدہ ہر کسی کے ساتھ کرنا ہے لیکن کسی ایک کے ساتھ بھی وفاداری نہیں کرنی۔‘‘
عاصمہ وہاں زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتی تھی۔ ابنِ داؤد نے اس سے پھر ملنے کا وعدہ کیا اور چلا گیا۔
تاریخ جو حقائق ہم تک اپنے دامن میں لیے پہنچی ہے وہ اس راز کو بے نقاب کرتے ہیں کہ فتنہ ارتداد کے پس پردہ بھی یہودی تھے اور مرتدین میں سے جنہوں نے نبوت کے دعوے کیے تھے وہ یہودیوں کے پروردہ تھے۔
٭
عاصمہ کے ساتھ ابو داؤد کی یہ ملاقات اس وقت سے ایک سال پہلے ہوئی تھی جب حبیب بن کعب بنت ِیامین کے ساتھ شادی کر کے اسے مدینہ لایا تھا اور کچھ دنوں بعد ابنِ داؤد ان کے پاس پہنچ گیا تھا۔ اس ایک سال میں ابنِ داؤد اور عاصمہ کی متعدد ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ عاصمہ بنت ِیامین سے بھی ملی لیکن یہ کوئی لمبی ملاقات نہیں تھی۔
اس ایک سال میں عاصمہ نے ابو زبیر پر اپنا ایسا تاثر پیدا کر لیا تھا کہ ابو زبیر کی نگاہوں میں عاصمہ کی حیثیت ایک لونڈی جیسی رہی ہی نہیں تھی۔ابو زبیر کی بیویاں بھی عاصمہ کو لونڈی نہیں سمجھتی تھیں۔
عاصمہ نے اپنی شارعیہ بنت عقیل کو اپنے حسن و جمال کے استعمال کے طریقے عملاً ازبر کر دیئے تھے اور اسے یہ اصول ذہن نشین کرایا تھا کہ اپنے جسم کومرد کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بننے دینا اور جسے دام محبت میں لو اس کیلئے بڑاہی دل کش اور صحرا کی رات جیسا ٹھنڈا سراب بنے رہنااور جب وہ تھک کر مایوس ہو کر رکنے لگے تو اسے بازوؤں سے تھا م لینا اور اپنے ان ریشم جیسے نرم و ملائم بالوں اور پھول کی پتیوں جیسے گالوں کے لمس سے اس کے وجود میں نئی روح پھونک کر اسے تروتازہ کر دینا۔
شارعیہ کے بال بھی ریشم کی طرح نرم و ملائم تھے اور گال بھی پھول کی پتیوں جیسے تھے۔ وہ عرب کے حسن کا شاہکار تھی، اور اس نے اپنے حسن و جمال کے دام میں جسے پھانسا تھاوہ اس کے آقا کا ایک نوجوان بیٹا سلمان تھا۔ ابو زبیر نے اپنے بیٹوں کو سختی سے کہہ رکھا تھا کہ وہ عاصمہ اور اس کی بیٹی شارعیہ کے ساتھ بے تکلفانہ مراسم پیدا نہ کریں۔ ابو زبیر شارعیہ کی جوانی اور اس کے حسن کو دیکھ کر خطر ہ محسوس کرتا رہتاتھاکہ اس کا کوئی بیٹا کوئی الٹی سیدھی حرکت کر بیٹھے گا۔ یہ خطرہ صرف اسی صورت میں ختم ہو سکتا تھا کہ عاصمہ اور شارعیہ اسلام قبول کر لیں اور ابو زبیر اپنے کسی ایک بیٹے کی شادی شارعیہ کے ساتھ کردے ۔لیکن عاصمہ اسلام قبول کرنے سے صاف انکار کر چکی تھی۔
ابو زبیر کو معلوم نہیں تھاکہ جب وہ رات کو گہری نیند سویا ہوا ہوتاہے ،اس وقت اس کا بیٹا سلمان اصطبل سے ملحق نوکروں کے کمرے میں شارعیہ کے پاس ہوتا ہے،اور عاصمہ کچھ دیر کیلئے باہر چلی جاتی ہے۔
عاصمہ نے شارعیہ کو کہنا شروع کر دیاتھا کہ اب وہ زبیر کے ہی کسی بیٹے کو یا باہر کے کسی آدمی کو سلمان کا رقیب بنا دے اور ان میں ایسی دشمنی پیدا کر دے کہ مسلمانوں کے دو قبیلے نہیں تو دو خاندان آپس میں ٹکرا جائیں ۔ شارعیہ ماں کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ ابو زبیر کے خاندان سے ہٹ کر ایک اور خاندان کو دیکھ رہی ہے۔
٭
حضرت عمر ؓکے ایک حکم نے اس خطرے کو ختم کر دیا۔ لیکن خطرے میں اضافہ کا امکان بھی تھا ۔ حکم یہ تھا کہ مرتدین کے جن افراد کوغلام اور لونڈیاں بنایا گیا تھا ، انہیں آزاد کرکے ان کے رشتے دروں کے حوالے کر دیا جائے۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس حکم پر ان لوگوں نے اعتراض کیا تھا جن کے پاس غلام اور لونڈیاں تھیں۔ اس کی اجازت خلیفہ اول ابو بکرؓ نے دی تھی۔ لیکن خلیفہ دوم ؓکی سیاست کچھ اور تھی ۔ سالار مثنیٰ بن حارثہ نے بھی)تاریخی روایات کے مطابق( عمر ؓکو مشورہ دیا تھا کہ مرتدین میں بہت سے لوگ تائب ہو چکے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ انہیں اعتماد میں لے لیا جائے اور ان کے عزیز رشتے دار واپس کر دیئے جائیں۔ عمرؓ نے خود بھی یہی سو چا تھا مرتدین اب سچے دل سے مسلمان ہوئے تھے ۔ یہ اسلام کی عسکری طاقت تھے۔
عمر ؓنے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
ابو زبیر نے عاصمہ اور اس کی بیٹی شارعیہ کو اپنے پاس بلایا۔
’’آج سے تم اس گھر کی لونڈیاں نہیں ہو۔‘‘ ابو زبیر نے ا’نہیں کہا۔’’ تم نے خلیفہ کا حکم سن لیا ہے۔ لیکن میں تمہیں گھر سے نہیں نکال سکتا ۔تم یہ بتاؤ کہ میں تمہیں کس کے حوالے کروں؟ اپنا کوئی قریبی رشتے دار بتاؤ ، میں تمہیں وہاں چھوڑ آؤں گا۔‘‘
’’میں ایک دو روز بعد بتا سکوں گی۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’ میرا دور کا ایک رشتے دار مدینہ میں ہے ۔ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اس نے کچھ عرصہ پہلے یہاں سے ایک گھوڑا بھی خریدا تھا۔‘‘
عاصمہ اسی روز ابنِ داؤد سے ملی۔ ابنِ داؤد ابھی مدینہ میں ہی تھا۔ اب وہ حبیب بن کعب کے گھر نہیں بلکہ ایک دوست کے گھر رہتا تھا۔ اس کا یہ دوست دراصل یہودی تھا۔ جس نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رکھا تھا ۔وہ بڑھئی کا کام کرتا تھا۔ وہ مدینہ کا رہنے والا نہیں تھا۔ کوئی دور دراز کا گاؤں بتاتا تھا جہاں سے وہ روزی کمانے کیلئے مدینہ آیا اور یہیں آباد ہو گیا تھا۔
شارعیہ کی ملاقاتیں عاصمہ نے ابنِ داؤد سے بھی کرائی تھیں ۔ ابنِ داؤد نے شارعیہ کو بتایا تھا کہ اس نے مسلمانوں سے اپنے باپ اور دو ماموؤں کے خون کا انتقام لینا ہے اور اسلام کو تخریب کاری سے تباہ کرنا ہے۔ ابنِ داؤد نے اس لڑکی کو تخریب کاری کے بہت سے طریقے بتائے اور یہ بھی بتایا کہ بنتِ یامین مسلمان نہیں
یہودی ہے۔
’’کیا ابو زبیر کے بیٹے سلمان کے ساتھ عشق و محبت کا ناٹک ٹھیک چل رہا ہے؟‘‘ ابنِ داؤد نے اس سے پوچھا۔
’’وہ تو میرے عشق میں پاگل ہوا جا رہاہے۔‘‘ شارعیہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔’’ لیکن اس کے باپ نے حکم دے رکھا ہے کہ میرے ساتھ اس کا کوئی بیٹا شادی نہیں کر سکتا۔ سلمان کہتا ہے کہ باپ نے شادی کی اجازت نہ دی تو وہ مجھے ساتھ لے کر مدینہ سے ہمیشہ کیلئے نکل جائے گا ۔میں بتا نہیں سکتی کہ اس کی حالت کیا ہو رہی ہے۔‘‘
’’اب ایسے ہی ایک اور نوجوان کو پاگل کردو۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میں تمہیں بتاتا ہوں وہ کون ہے۔ ‘‘ابنِ داؤد نے اسے ایک نوجوان کا نام اور خاندان بتا کر کہا تھا ۔ ’’اسے سلمان سے ٹکرا دو ‘پھر سلمان کے باپ کے کان میں ڈال دو کہ اس خاندان کے اس لڑکے نے تم پر دست درازی کی ہے۔‘‘ ابنِ داؤد نے اسے کچھ اور ہدایات بھی دی تھیں۔
’’تم دیکھتے چلو ابن ِداؤد!‘‘شارعیہ نے کہا تھا ۔’’ میں گھر کی دیواروں کے اندر رہ کر مدینہ میں خون کی ندیاں بہا دوں گی۔‘‘
’’ذہن میں ایک سوچ اور مقصد رکھو۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ مقصد یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو جاہلیت کے ان ہی اندھیروں میں واپس دھکیلنا ہے جہاں سے انہیں محمد )ﷺ(نے نکالا تھا، ان کے آپس میں اختلافات موجود ہیں۔ ہم نے ان اختلافات کو دشمنی کا رنگ دینا اور انہیں آپس میں ٹکرانا ہے تاکہ یہ ایک دوسرے کا خون بہا بہا کر ختم ہو جائیں ۔ ہم کئی اور طریقے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
’’میں جانتی ہوں ۔‘‘ شارعیہ نے کہا۔’’ ماں نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘
اس کے بعد شارعیہ اور بنت ِیامین کی بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ بنت ِیامین نے شارعیہ کو بتایا تھا کہ اس نے حبیب بن کعب کو اپنی مٹھی میں لے کر اس کا دماغ خراب کرنا شروع کر دیا ہے۔
٭
یہودی اسلام میں نظریاتی اور دیگر طریقوں سے تخریب کاری میں لگے ہی رہتے تھے۔ لیکن خیبر کی شکست نے انہیں سانپ اور بچھو بنا دیا تھا ۔ ان کے تین قبیلے بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع ، رسول اﷲﷺ کے ہاتھوں شکست کھا کر منتشر ہو گئے تھے ۔مگر درپردہ اکٹھے ہو کر انہوں نے مسلمانوں کے خلاف زمین دوز کارروائیاں شروع کر دیں بلکہ پہلے سے زیادہ خطرناک اور زیادہ تیز کر دی تھیں۔ انہوں نے تو غزوۂ خیبرکے فوراً بعد ایک یہودن کے ہاتھوں رسولﷺ کو زہر تک دے دیا تھا۔
عاصمہ اور شارعیہ کو ابو زبیر نے آزاد کر کے ابنِ داؤد کے حوالے کر دیا۔ ابن ِداؤد اُنہیں اپنے بڑھئی دوست کے گھر لے گیا ۔ ابو زبیر کا بیٹا سلمان وہاں بھی شارعیہ سے تین چار روز ملتا رہا۔
ان تین چار دنوں میں عاصمہ اور شارعیہ کو ابنِ داؤد نے ابو سلمیٰ ، اسحاق وغیرہ کے متعلق بتایا کہ اس تخریب کاری کی کمان اور ہدایت کاری ان دونوں کے ہاتھ ہے اور وہ فلاں سمت ایک نخلستان میں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ ابنِ داؤد عاصمہ اور شارعیہ کو ایک دو دنوں کیلئے وہاں لے جانا چاہتا تھا۔
ابنِ داؤد نے حبیب بن کعب کو یہ بتا رکھا تھا کہ وہ بنت ِیامین کا باپ ہے۔ بنتِ یامین ایک دو دنوں سے حبیب سے کہہ رہی تھی کہ وہ دو چار دنوں کیلئے اپنے گاؤں جانا چاہتی ہے۔ حبیب پر تو وہ جادو بن کر غالب آگئی تھی ۔وہ کہتی تھی کہ اپنے باپ کے ساتھ جائے گی اور اسی کے ساتھ واپس آجائے گی ۔ ابنِ داؤد نے حبیب سے بھی التجا کی کہ وہ اپنی بیٹی کو دو تین دنوں کیلئے گاؤں لے جانا چاہتا ہے۔ حبیب نے اجازت دے دی۔
اگلی صبح ابنِ داؤد دو گھوڑے لے آیا۔ ایک پر خود سوار ہوا دوسرے پر بنتِ یامین سوار ہوئی اور وہ روانہ ہو گئے۔
٭
’’اب گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگا دو۔‘‘ شہر سے کچھ دور جا کر ابنِ داؤد نے بنت ِیامین سے کہا۔’’وہ کچھ دیر پہلے نکل گئے ہیں‘ ہم ان تک پہنچ جائیں گے۔‘‘
دونوں گھوڑوں کی رفتار تیز ہو گئی۔
اُفق سے سورج ابھر رہا تھاجب انہیں ڈیڑھ ایک میل دور تین گھوڑ سوار جاتے دکھائی دیئے ۔ ان کے ساتھ ایک اونٹ بھی تھا جس کی مہار ایک گھوڑے کے پیچھے بندھی ہوئی تھی ۔ ایک پر عاصمہ سوار تھی دوسرے پر شارعیہ اور تیسرا گھوڑسوار ابن ِداؤد کا بڑھئی دوست تھا ۔ اونٹ پر کھانے پینے کا اور کچھ دیگر سامان لدا ہوا تھا۔ ابنِ داؤد اور بنت ِیامین نے گھوڑے دوڑا دیئے اور اُن تک پہنچ گئے۔یہ سب ابو سلمیٰ کے پاس جا رہے تھے ۔ان کی منزل دو دنوں کی مسافت پر تھی۔
انہوں نے شام کو ایک پڑاؤ کیا اور صبح صادق کے وقت چل پڑے۔
اگلی شام اسی جگہ ایک اور قافلہ خیمہ زن ہو رہا تھا کہ ابنِ داؤد کا قافلہ اپنی منزل پر پہنچ گیا۔
منزل وہی تھی جو اس داستان کے آغاز میں بیان ہو چکی ہے۔ مدینہ کے شمال مشرق میں تیس پینتیس میل دور ایک ہرا بھرا نخلستان‘ چھوٹی سی ایک جھیل ‘اس کے ارد گرد کھجور کے پیڑوں کے جھنڈ اور صحرائی پودے ، یہ نخلستان جو تپتے ہوئے صحرا میں دہکتے ہوئے انگاروں پر کھلے ہوئے پھول کی طرح لگتا تھا ، ایسے دشوار گزار اور بھیانک علاقے میں تھا کہ اس علاقے میں کوئی مسافر داخل ہی نہیں ہوتا تھا اور کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس خوفناک علاقے میں اتنا خوبصورت اور ٹھنڈا نخلستان ہو گا۔
اس نخلستان میں ابو سلمیٰ یہودی نے خیموں کی ایک حسین دنیا آباد کر رکھی تھی۔
جس رات ابنِ داؤد اپنے مختصر سے قافلے کے ساتھ یہاں پہنچا۔اس رات انہوں نے آرام کیا۔ اگلی رات ابو سلمیٰ نے ان کے اعزاز میں نشاط کی محفل منعقد کی۔ شراب کی صراحیاں کھل گئیں اور جام حرکت میں آگئے۔ ایک رقاصہ سازوں کی لَے پر بل کھانے لگی۔
وہ قافلہ جو ابنِ داؤد کے چھوڑے ہوئے پڑاؤ والی جگہ پر گذشتہ شام خیمہ زن ہوا تھا۔ وہ اگلی صبح وہاں سے چل پڑا تھا اور وہ ابنِ داؤد کے قافلے کے نقوش پا پر جا رہا تھا۔
رات جب ابو سلمیٰ کے چوکور اور محل کے کمرے جیسے بڑے خیمے میں رقص و شراب اور سازوآواز کی محفل گرم تھی تو کسی نے کہا ’’ایسے لگتا ہے جیسے میں نے گھوڑوں کے ٹاپ سنے ہوں۔‘‘
’’تھوڑی سی اور پی لو۔‘‘ ابو سلمیٰ کے ساتھی اسحاق نے کہا۔’’ تمہارے کان بجنے بند ہو جائیں گے۔‘‘
’’کون ہو؟‘‘ باہر سے کسی کی آواز سنائی دی۔
’’خاموش !‘‘ کسی اور کی آواز آئی‘اس کے ساتھ ہی کسی نے بلند آواز میں کہا۔’’ جہاں ہو وہیں رہو ، تم سب گھیرے میں ہو۔‘‘
بڑے خیمے کے اندر ساز اور دف خاموش ہو گئے۔ رقاصہ جہاں تھی وہیں بت بن گئی۔ ڈراؤنا سا سناٹا طاری ہو گیا۔
’’صحرائی قزاق!‘‘ابو سلمیٰ نے آہستہ سے کہا۔
اس کمرے جیسے خیمے کے دو دروازے تھے ۔ دونوں طرف سے آدمی اندر آنے لگے۔ہر ایک کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی۔ان میں ایک ابو زبیر، ایک اس کا بیٹا سلمان اور تین اور بیٹے تھے۔ حبیب بن کعب تھا اور چار اس کے دوست تھے۔
’’بنتِ یامین! ‘‘حبیب نے اپنی بیوی سے پوچھا۔’’ تم تو اپنے گاؤں جانا چاہتی تھیں، یہاں کیسے آگئیں؟ کیا ابن ِداؤد تمہارا باپ ہے؟ کیا تم مسلمان ہو؟‘‘
بنت ِیامین کا منہ حیرت اور خوف سے کھل گیا تھا ۔ وہ کچھ نہ بول سکی۔حبیب کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ وہ آہستہ آہستہ بنت ِیامین کے قریب گیا۔ فانوسوں کی روشنی میں حبیب کی تلوار آسمانی بجلی کی طرح چمکی اور دوسرے لمحے بنت ِیامین کا سر فرش پر گرا اور دھڑ الگ گرا۔رقاصہ اور اس کی ساتھی لڑکیوں کی چیخیں نکل گئیں۔
’’شارعیہ! ‘‘ابو زبیر نے کہا۔’’ تم ان سے الگ ہٹ جاؤ……اِدھر آجاؤ۔‘‘
شارعیہ تیز تیز چلتی ابو زبیر کے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔
’’بد طینت لڑکی! ‘‘ابنِ داؤد نے دانت پیستے ہوئے شارعیہ سے کہا۔’’ اِنہیں تو یہاں لائی ہے؟ یہ کرتوت تیری ہی ہو سکتی ہے۔‘‘
’’کیا یہ سچ ہے؟ ‘‘عاصمہ نے شارعیہ سے پوچھا۔’’ کیا تو نے مخبری کی ہے؟کیا تو نے اپنی ماں کو بھی دھوکا دیا ہے……غدار!‘‘وہ درندوں کی طرح پنجے آگے کر کے اور غصے سے دانت نکال کر شارعیہ کی طرف بڑھی۔’’ میں تیرا گلا گھونٹ دوں گی۔‘‘
وہ شارعیہ پر جھپٹنے ہی لگی تھی کہ ابو زبیر کی تلوار کے بھرپور وار نے اس کے سر اور جسم کا رشتہ کاٹ دیا۔
’’باقی سب سن لو۔ ‘‘شارعیہ نے کہا۔’’ ان سب کو میں یہاں لائی ہوں۔ ابن ِداؤد نے سارا راز مجھے دے دیا تھا۔‘‘
’’تم بد قسمت ہو لڑکی!‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ تمہیں جو دولت ہم سے ملنی تھی وہ تمہیں ان لوگوں سے نہیں مل سکتی۔‘‘
’’مجھے جو دولت ان لوگوں سے ملی ہے وہ تم نہیں دے سکتے تھے۔ ‘‘شارعیہ نے کہا۔’’ میری ماں ان کی لونڈی تھی ، میں ان کی لونڈی تھی۔ ابو زبیر اور اس کے بیٹے ہمارے ساتھ جو سلوک کرنا چاہتے کر سکتے تھے۔لیکن انہوں نے ہمیں حقیر نہ جانا‘ بلکہ اپنے گھر کے افراد جیسی عزت دی۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ غلاموں کے ساتھ آقا کیا سلوک کرتے ہیں؟……مجھ جیسے خوبصورت اور جوان لونڈی کو نہ ابو زبیر نے نہ اس کے بیٹوں نے بری نظر سے دیکھا۔ یہ سلمان کھڑا ہے ‘میں اِسے چاہنے لگی۔ ہم راتوں کو ملتے رہے ۔میرا جسم تو غلام تھا ہی ‘میرا دل بھی اس کا غلام ہو گیا۔ لیکن اس نے میرے جسم کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں رکھی ۔یہ کہتا تھا کہ مسلمان ہو جاؤ‘ پھر میں باپ سے اجازت لے کر تمہارے ساتھ شادی کروں گا۔‘‘
شارعیہ جو ش و خروش سے بولے جا رہی تھی اور سب خاموشی سے سن ہے تھے۔ صحرا کی خنک رات گزرتی جا رہی تھی۔
’’اور ایک تم ہو جو میرے حسن و جوانی سے اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہو۔‘‘ شارعیہ کہہ رہی تھی۔’’ ابنِ داؤد کو میں اپنا باپ سمجھتی تھی…… اس نے دو بار مجھے ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن میں نے اسے ٹال دیا۔ میں بہت دن پہلے مسلمان ہو چکی ہوتی مگر میری ماں نے مجھے کسی اور راستے پر چلانے کی باتیں شروع کر دیں اورابنِ داؤد نے مجھے سبق دینے شروع کر دیئے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ ان سے سارے راز لے لوں پھر کچھ کر کے دکھاؤں گی اور اسلام قبول کرکے سلمان کی بیوی بن جاؤں گی۔ میں نے راز لے لیا۔اس جگہ کا فاصلہ معلوم کر لیا سمت پوچھ لی اور سلمان کو بتایا ۔ سلمان نے اپنے باپ کو بتایا پھر حبیب کو بتایا کہ وہ جال میں آیا ہوا ہے ۔‘‘ اس نے ابو زبیر کی طرف دیکھا اور بولی ۔’’ اب تمہیں میری وفا کا یقین ہوا؟……میں مسلمان ہوں۔ میرے دل نے اسلام قبول کر لیا ہے۔‘‘
’’ختم کرو اِنہیں ۔‘‘ ابو زبیر نے کہا۔’’ اپنے دین کے دشمنوں کو جلا کر راکھ کر دو۔‘‘
صحرا کی رات میں کچھ شوروغل ہوا۔ دو تین نسوانی چیخیں اٹھیں اور رات پھر خاموش ہو گئی۔
ان خیموں میں جوکوئی بھی تھا، اسے قتل کر دیا گیا۔ سب کی لاشیں بڑے خیمے میں ایک جگہ ڈھیر کی گئیں۔ ان پر شراب انڈیل کر آگ لگا دی گئی۔ تمام خیموں کو آگ لگائی گئی۔ ان کے اونٹ اور گھوڑے ساتھ لے کر ابو زبیر کا قافلہ مدینہ کو چل پڑا۔ شارعیہ ان کے ساتھ تھی ۔اس قافلے میں سب سے زیادہ قابل ِاحترام حیثیت شارعیہ کی تھی۔
ڈیڑھ دو میل دور جا کر ابو زبیر نے گھوڑا روک کر پیچھے دیکھا ۔ نخلستان کی سمت آسمان کا رنگ قرمزی ہو اجا رہا رتھا۔ صحرا کی رات دور دور تک روشن تھی اور اس کی روشنی میں سپیدی مائل دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔
’’کفر جل رہا ہے۔‘‘ حبیب ابنِ کعب نے کہا۔
’’نہیں ابنِ کعب!‘‘ ابو زبیر نے کہا۔’’چند ایک کفار جل رہے ہیں۔ کفر کو جلا کر راکھ کر نے کیلئے بہت قربانیاں دینی پڑیں گی ۔ کفر صرف میدانِ جنگ میں فتح حاصل کرلینے سے ختم نہیں ہو سکتا۔اس کیلئے تو بہت سے محاذوں پر جہاد کی ضرورت ہے۔ معاشرے کا محاذ ہے ، گھر بھی ایک محاذ ہے اور فرداً فرداً ذاتی محاذ پر کفر کی شکست و ریخت کی جدوجہد کی جا سکتی ہے ۔جس طرح اس لڑکی شارعیہ نے کی ہے ۔ اس نے اپنی ماں کو قربان کر دیا ہے۔
’’تم یہاں پڑاؤ کرنے کی تو نہیں سوچ رہے!‘‘ کسی نے پیچھے مڑ کر ابو زبیر اور حبیب کو رکا ہوا دیکھ کر کہا۔
’’نہیں بھائی نہیں۔ ‘‘ابو زبیر نے بلند آواز سے جواب دیا۔’’ جہنم کی اس آگ کو دیکھ رہے ہیں جو شارعیہ نے بھڑکا کر جنت میں اپنا گھر بنا لیا ہے……چلتے چلو، ہم آرہے ہیں، اس خوفناک علاقے سے نکل کر کہیں آرام کیلئے رکیں گے۔‘‘
آدھی رات کے بہت بعد یہ قافلہ رُکا اور سب آرام کیلئے لیٹے اور سو گئے۔
٭
اگلے روز یہ قافلہ فاتحانہ چال سے مدینہ کی سمت چلا جا رہا تھا ۔ شام تک انہیں مدینہ پہنچ جا نا تھا۔ سورج سر پر آگیا تھا ۔ چھوٹا سا ایک نخلستان قریب آگیا جس سے یہ سب واقف تھے۔ قافلہ کھانے پینے کیلئے رُک گیا۔ ابو زبیر کا بیٹا سلمان حبیب بن کعب کے پاس جا بیٹھا۔
’’ابنِ کعب!‘‘ سلمان نے حبیب سے کہا۔’’راستے میں شارعیہ مجھے تین بار کہہ چکی ہے کہ وہ مدینہ پہنچتے ہی اسلام میں داخل ہو جائے گی۔ یہ پوچھتی ہے کہ اسلام قبول کرنے کا کوئی خاص طریقہ ہے یا اس کا یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ آج سے وہ مسلمان ہے؟‘‘
’’کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام کی قبولیت کا طریقہ کیا ہے؟‘‘ حبیب نے کہا۔’’ اگر یہ لڑکی اتنی بیتاب ہے تو یہ کام یہیں ہو سکتاہے۔‘‘حبیب اُٹھ کھڑا ہوا اور قافلے سے مخاطب ہو کر پوچھا۔’’اس قافلے کا امیر کون ہے؟‘
’’اس کی کیا ضرورت آپڑی ہے؟‘‘ ایک آدمی نے پوچھا۔
’’یہ لڑکی اسلام قبول کرنے کو بیتاب ہے۔‘‘ حبیب نے جواب دیا۔’’ یہ کارِ خیر امیرِ کارواں ہی کر سکتا ہے۔‘‘
تقریباً سب کی نظریں ابو زبیر کی طرف اٹھیں۔
’’خدا کی قسم !‘‘ حبیب کے ایک دوست نے کہا۔’’جس قافلے میں ابو زبیر ہو وہاں اورکون کارواں کی امارت کا دعویٰ کر سکتا ہے؟‘‘
’’اور یہاں شاید کوئی بھی نہیں جو ابو زبیر کی امارت کی مخالفت کرے گا۔‘‘ کسی اور نے کہا۔
سب نے فرداً فرداً ابو زبیر کو قافلے کا امیر تسلیم کر لیا۔ حبیب بن کعب نے شارعیہ کو اس کے سامنے بٹھا کر کہا کہ اسے مسلمان کر لیں۔ امیرامام بھی ہوتا تھا‘ نماز با جماعت کی امامت کے فرائض اس کے ذمے ہوتے تھے۔
’’شارعیہ !‘‘ابو زبیر نے پوچھا۔ ’’کیا تو اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہی ہے؟‘‘
’’اپنی رضا و رغبت سے! ‘‘شارعیہ نے جوا ب دیا۔
’’کیا ﷲ کے سوا تجھ پر کسی انسان کا خوف طاری ہے؟‘‘ ابو زبیر نے پوچھا۔’’ کسی مسلمان نے تجھ پر تشدد تو نہیں کیا؟……کسی نے کوئی لالچ تو نہیں دیا؟‘‘
’’نہیں!‘‘
ابو زبیر نے اس وقت کے طریقے کے مطابق شارعیہ کو حلقہ بگوش اسلام کر لیا۔
’’امیر ِکارواں نکاح بھی پڑھا سکتا ہے۔‘‘ ابو زبیر نے کہا۔
’’بیشک! بیشک! ‘‘کئی آوازیں اٹھیں۔
ابو زبیر نے اپنے بیٹے سلمان کو بلا کر شارعیہ کے پاس بٹھایا اور ان کا نکاح پڑھا دیا۔
٭
اس وقت دو گھوڑ سوار مدینہ سے عراق کے محاذ کو جا رہے تھے ۔ تاریخوں میں ان کے نام محمیہ بن زنیم اور شدّاد بن اوس لکھے ہیں۔ وہ خلیفہ حضرت عمر ؓکا ایک انتہائی ضروری پیغام ابو عبیدہ کے نام لے جا رہے تھے ۔ اس وقت ابو عبیدہ ؓشام کے محاذ پر سالار تھے اور سپہ سالار خالدؓ بن ولید تھے ۔پیغام کے الفاظ جو تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں، وہ یہ ہیں:
’’خلیفہ عمر بن الخطاب کی طرف سے ابو عبیدہ کے نام:
v
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
میں تجھے ﷲ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں ۔ ﷲ لا زوال ہے اور اﷲ ہی ہے جو ہمیں گمراہی سے بچاتا ہے اور اندھیرے میں روشنی دکھاتا ہے۔ میں تجھے خالد بن ولید کی جگہ وہاں کے تمام لشکر کا سپہ سالار مقرر کرتا ہوں ۔ فوراً اپنی جگہ سنبھالو……ذاتی مفاد کیلئے مومنین کو کسی مشکل میں نہ ڈالنا۔ انہیں اس پڑاؤ میں نہ ٹھہرانا جس کے متعلق تو نے پہلے دیکھ بھال نہ کر لی ہو۔ کسی بھی لڑائی میں دستوں کو اس وقت بھیجنا جب وہ پوری طرح منظم ہوں اور کوئی فیصلہ ایسا نہ کرنا جس سے مومنین کا جانی نقصان ہو ۔ اﷲ نے تجھے میری آزمائش اور مجھے تیری آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے۔ دنیاوی لالچوں سے بچے رہنا۔ دنیا کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لوورنہ یہ تجھے بھی اسی طرح ہلاک کر دے گی جس طرح تجھ سے پہلے کے لوگوں کو ہلاک کیا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح تجھ سے پہلے کے لوگ تباہ ہوئے ہیں ‘تو بھی طمع سے تباہ ہو جائے ۔ تو جانتا ہے وہ اپنے رُتبے سے کس طرح گرے ہیں۔‘‘
اس پیغام کا مطلب صاف تھا ۔ حضرت عمر ؓنے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی حضرت خالدؓ بن ولید کو سپہ سالاری سے معزول کر دیا تھا اور ابو عبیدہؓ کو جو خالدؓ بن ولید کے ماتحت سالار تھے، سپہ سالار بنا دیا تھا۔
اس پیغام سے چار پانچ روز پہلے عمرؓ کا ایک اور پیغام عراق کے محاذ کو جا رہا تھا۔ یہ خلیفہ اول ابو بکرؓ کی وفات کی اطلاع تھی جو ایک حبشی مسلمان یرفا لے جا رہا تھا۔ یرفا حضرت عمر ؓکا غلام ہوا کرتا تھا۔ عمرؓ غلامی کو پسند نہیں فرماتے تھے اس لیے انہوں نے یرفا کو آزاد کر دیا تھا۔
خالدؓ بن ولید کی معزولی کا پیغام لے جانے والے دو قاصد بہت کم پڑاؤ کرتے اور تیز رفتار سے چلے جا رہے تھے۔ اس لیے وہ چار پانچ دن بعد چلے ہوئے اس دن عراق کے محاذ پر پہنچے جس دن یرفا پہنچا۔ اس طرح ابو بکرؓ کی وفات کی اطلاع اور حضرت عمرؓ کا خالدؓ بن ولید کی معزولی کا حکم منزل پر اکٹھے پہنچے۔ چونکہ یہ پیغام ابو عبیدہؓ کے نام تھا اس لیے یہ ان ہی کو دیا گیا ۔انہوں نے دونوں پیغام پڑھے اور جیب میں ڈال کر قاصدوں کو رخصت کر دیا۔ ان دنوں خالدؓ بن ولید رومیوں کے خلاف لڑ رہے تھے اور اُنہوں نے دمشق کو محاصرے میں لے رکھا تھا۔
٭
اکتوبر ۶۳۴ء کے اوائل میں خالدؓ بن ولید نے بڑی ہی خونریز اور طویل لڑائی لڑ کر دمشق فتح کر لیا۔رومیوں نے ہتھیار ڈال دیئے‘ اور دمشق پر مسلمانوں کا قبضہ مستحکم ہو گیا۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے پہلا کام یہ کیا کہ خلیفہ اول ابو بکر صدیق ؓکے نام پیغام لکھوایا، اس میں دمشق کی فتح کی خوشخبری تھی اور اس جنگ کی تفصیل لکھوائی جو انہوں نے جانوں کی بے دریغ قربانیاں دے کر جیتی تھی۔مالِ غنیمت کی بھی تفصیل لکھوائی اور یہ بھی لکھوایا کہ مال ِغنیمت کا پانچواں حصہ خلافت کیلئے چند دنوں میں بھیج دیا جائے گا۔ پیغام لکھوا کر خالدؓ نے قاصد کو دیا اور اسے رخصت کر دیا۔
یہ پیغام ابو بکرؓ کے نام یکم اکتوبر ۶۳۴ء) ۲ شعبان ۱۳ ہجری (کے روز بھیجا جا رہا تھا ۔ ابو بکرؓ ایک مہینہ آٹھ روز پہلے ہی ۲۲ اگست ۶۳۴ء )۲۲ جمادی الثانیہ (کی شام فوت ہو چکے تھے۔
قاصد پیغام لے کر جا چکا تھا۔ ابو عبیدہؓ خالدؓ بن ولید کے خیمے میں داخل ہوئے ۔ خالدؓ فتح ونصرت کی خوشی سے اچھل کر اٹھے اور ’’دمشق مبارک ہو ‘‘کا نعرہ لگا کر ابو عبیدہؓ کے گلے لگ گئے۔ابو عبیدہؓ کا انداز اور رویہ سرد ساتھا ۔ خالد ؓپیچھے ہٹ گئے ۔ حضرت ابو عبیدہؓ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’وﷲ! یہ آنسو خوشی کے ہی ہو سکتے ہیں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔
’’نہیں ابن ِولید! ‘‘ابو عبیدہؓ نے غمناک لہجے میں کہا۔’’ خلیفۃ الرسول)ﷺ( ابو بکر فوت ہو گئے ہیں اور اب عمر الخطاب خلیفہ ہیں۔‘‘
’’ابو بکرکب فوت ہوئے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔
’’۲۲جمادی الثانی کی شام!‘‘
’’ہمیں اطلاع اتنے دنوں بعدکیوں دی گئی ؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’ کیا قاصد کو یہاں پہنچتے ایک مہینے سے……‘‘
’’قاصد تو جلد ہی آگیا تھا ۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’ قاصد آیا تھا تو اس نے دیکھا کہ ہم نے دمشق کو محاصرے میں لے رکھا ہے تو اس نے اس خیال سے یہ پیغام ہمیں نہ دیا کہ خلیفۃ الرسول)ﷺ( کی وفات کی اطلاع کا محاصرے پر بہت برا اثر پڑے گا۔ اس نے مجھے اتنا ہی پیغام دیا کہ مدینہ میں خیریت ہے اور کمک آرہی ہے۔ اس نے یہ مراسلہ مجھے دو روز بعد دیا۔ پھر میں نے یہ جانکاہ اطلاع روک لی کہ دمشق کا فیصلہ ہو جائے تو تجھے اور لشکر کو یہ خبر بد سناؤں گا۔‘‘
ؒخالد پر تو سکتے کی کیفیت طاری ہو گئی تھی جیسے وہ دنیا سے لا تعلق ہو گئے ہوں۔
’’خلیفہ عمر کا ایک حکم نامہ بھی آیا ہے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے بوجھل سی آواز سے کہا۔’’ یہ بھی میں نے دمشق کی جنگ ختم ہونے کے بعد تجھ تک پہنچانا بہتر سمجھاتھا۔‘‘
ابو عبیدہؓ نے پیغام خالدؓ بن ولید کو دے دیا ۔ خالدؓ نے پیغام پڑھا اور ان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی ۔ اس مسکراہٹ میں مسرت نہیں تھی۔ یہ ملول اور رنجیدہ مسکراہٹ تھی۔
’’ﷲ کی رحمت ہو ابو بکر پر! ‘‘خالدؓ نے آہ بھر کر کہا۔’’ ابو بکر زندہ رہتے تو میں اس انجام کو نہ پہنچتا۔‘‘
٭
خالدؓ بن ولید کی معزولی حضرت عمرؓ کا ایک اور جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔ اس سے قبل ان کاایک ایسا ہی فیصلہ تھا کہ مرتدین کے جن رشتے داروں کو غلام اور لونڈیاں بنا کر رکھا گیا ہے ، ان سب کو آزاد کر کے ان کے گھروں کو بھیج دیا جائے۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ غلام اور لونڈیاں خلیفہ اول ابو بکر صدیق ؓکے حکم کے مطابق رکھی گئی تھیں۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ کے فیصلے پر اعتراض کیا تھا۔ بعض نے احتجاج بھی کیا تھا لیکن عمرؓ اس حکم پر بہت مضبوط دلائل رکھتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے اپنا فیصلہ منوا لیا۔
چند دنوں بعد ہی لوگوں نے دیکھ لیا کہ عمرؓ کے اس فیصلے کے کتنے خوشگوار نتائج سامنے آئے تھے۔ وہ اس طرح کہ سالار مثنیٰ بن حارثہ عراق کے محاذ پرمجاہدین کی کمی پوری کرنے کیلئے کمک لینے مدینہ ا ٓئے تھے مگر ہر کوئی جانے سے ہچکچا رہا تھا ۔آخر ابو عبید اٹھے اور محاذ پر جانے کا اعلان کیا ۔ ان کے بعد رضاکار سامنے آنے لگے تو دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تعداد ایک ہزر ہو گئی۔ یہ تعداد کافی نہیں تھی۔ آگے چل کر تفصیل سے ذکر ہو گاکہ جن مرتدین کے عزیزوں کو غلامی سے آزاد کرایا گیا تھا وہ حضرت عمرؓ کے اس فیصلے سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ بھی سچے دل سے مسلمان ہو کر کمک میں شامل ہو گئے اور محاذ پر چلے گئے۔ تب مسلمانوں کو احساس ہوا کہ حضرت عمرؓ کا فیصلہ کس قدر دور رس نتائج کا حامل تھا۔
خالدؓ بن ولید کی معزولی کا فیصلہ ایسا تھا کہ بیشتر لوگوں نے اسے پسند نہ کیا۔ سب جانتے تھے کہ خالدؓ بن ولید کو سیف ﷲ کا خطاب رسول اﷲﷺ نے دیاتھا اور آپ ﷺنے یہ خطاب بلا جواز نہیں دیا تھا۔ خالدؓ واقعی اﷲ کی تلوار تھے۔ رومیوں کو ہر میدان میں شکست دینے والے خالد ؓہی تھے۔ حضرت عمرؓبھی تسلیم کرتے تھے کہ خالد ؓنہ ہوتے تو رومیوں کو جو اس وقت بہت بڑی قوت تھے شکست نہ دی جا سکتی۔ اس کے ساتھ یہ مشکل بھی پیدا ہو گئی کہ محاذ پر مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہو گئی۔ اس صورتِ حال کو سنبھالنے کی اہلیت خالدؓ بن ولید میں ہی تھی ۔ یہ کمزوری ابو عبیدہؓ کی ایک غلطی سے پیدا ہوئی تھی لیکن حضرت عمرؓ نے خالد ؓبن ولید کو اس طرح سپہ سالاری سے معزول کیا کہ اُنہیں اُن کے ایک ماتحت سالار ابو عبیدہؓ کو سپہ سالار بنا کر خالد ؓکو ان کے ماتحت کر دیا۔
زیادہ تر لوگ یہ رائے دیتے تھے کہ خالدؓ کی پیہم فتوحات اور لوگوں میں اُن کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے عمر ؓخدشہ محسوس کرنے لگے تھے کہ خالدؓ بن ولید مفتوحہ علاقوں کے حکمران نہ بن بیٹھیں۔
لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ عمرؓ اور خالدؓ کے درمیان پرانے اختلافات موجود تھے ۔ ایک واقعہ تو سب کو یاد تھا ۔ مرتدین کے خلاف جنگ میں خالدؓ بن ولید نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی تھیں ۔ ان کا ایک معرکہ مرتدین کے ایک سردار مالک بن نویرہ سے ہوا۔ مرتدین نے جم کر مقابلہ کیا لیکن خالدؓ کی جارحانہ قیادت اور مجاہدین کی بے جگری کے سامنے مرتدین ٹھہر نہ سکے۔ ان کا سردار اور سالار مالک بن نویرہ گرفتار ہوا۔ خالد ؓنے اُسے قتل کروادیا۔ مالک بن نویرہ کی ایک بیوی جوان اور غیر معمولی طور پر حسین تھی۔ خالدؓ نے اُس کے ساتھ شادی کرلی۔ اس جوان عورت کانام لیلیٰ تھا۔
اس شادی کی خبر مدینہ پہنچی تو حضرت عمر ؓکو بہت غصہ آیا۔ اس وقت خلیفہ ابو بکرؓ تھے۔ مدینہ میں خبر پہنچی تھی کہ خالد ؓنے مالک بن نویرہ کو اس کی حسین و جمیل بیوی لیلیٰ کے ساتھ شادی کرنے کیلئے قتل کیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے خلیفہ ابو بکرؓ سے کہا کہ خالدؓ کو معزول کرکے واپس مدینہ بلا لیا جائے۔ ابو بکرؓ نہیں مانے تھے ۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ اس وقت یہ دیکھیں کہ خالد ؓنے میدانِ جنگ میں کتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور یہ بھی دیکھیں کہ یہ جنگ کیسی ہے۔ یہ فتنہ ارتداد کی سرکوبی کی جنگ ہے ۔ان مرتدین نے مسلمان ہو کر اسلام سے انحراف کیا اور انہوں نے اپنے نبی کھڑے کر دیئے۔ خالد ؓنے اس جہاد میں ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں کہ اس نے ایک شادی کر لی ہے تو اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔حضرت عمر ؓکی تشفی نہ ہوئی۔ وہ خاموش تو ہو گئے لیکن ان کے دل میں خالدؓ کے خلاف ناراضگی قائم رہی ۔حقیقت یہ تھی کہ مالک بن نویرہ نے اسلام قبول کر لیا تھا وہ اپنے قبیلے کا سردار تھا۔ یہ تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا تھا۔ رسول اﷲﷺ رحلت فرما گئے تو مالک بن نویرہ نے لوگوں سے وصول کی ہوئی زکوٰۃ اور محصولات کی رقم مدینہ بھیجنے کے بجائے لوگوں کو واپس کر دی اور سب کو اسلام کے خالف بغاوت پر آمادہ کر لیا۔
اس کے علاوہ مرتدین میں سے ایک عورت نے نبوت کا دعویٰ کیاتو مالک بن نویرہ نے نا صرف یہ کہ اس کی نبوت کو تسلیم کیا بلکہ اپنے قبیلے اور اپنے زیرِ اثر دوسرے قبیلوں سے کہا کہ وہ سجاع کو نبی تسلیم کریں۔ یہ عورت عراق کے رہنے والے الحارث کی بیٹی تھی۔ اسے اُم سادرہ بھی کہا جاتا تھا۔
مالک بن نویرہ کا سب سے بڑا جرم تو یہ تھا کہ اس کے علاقے میں مسلمانوں کی جو بستیاں تھیں ۔اُنہیں نذرِ آتش کر دیا تھا۔ مؤرخوں کے مطابق خالدؓ بن ولید نے اسے شکست دے کر گرفتار کیا اور اس کے یہ تمام جرائم اس کے آگے رکھے۔ اُس نے ان جرائم کا اعتراف کیا۔تب خالدؓ نے اسے کہا کہ وہ ایسے آدمی کو معاف نہیں کر سکتے جس نے مسلمانوں کو قتل کیا اور ان کی بستیاں جلائی ہوں۔
مالک بن نویرہ کو قتل کر کے خالدؓ نے اس کی بیوی لیلیٰ کو لونڈی بنانے کے بجائے اسے بیوی بنا لیا۔ خلیفہ ابو بکرؓ نے تو خالدؓ کی اس شادی کو جرم نہیں سمجھا لیکن عمر ؓنے اُنہیں معاف نہیں کیا۔ یہ شادی دسمبر ۶۳۲میں ہوئی تھی۔ اب اگست ۶۳۴ء کے آخری دنوں میں عمرؓ اُنہیں معزول کر رہے تھے ۔ مبصر لکھتے ہیں کہ تسلیم نہیں کیا جا سکتاکہ دو سال پرانے ایک واقعہ کو جواز بنا کر عمرؓ جیسے مدبر اور دور اندیش خلیفہ نے حضرت خالد ؓبن ولید جیسے تاریخ ساز جرنیل کو معزول کر دیا ہو۔
جاری ہے.

Post a Comment

Previous Post Next Post