حجاز کی آندھی
(عنایت اللہ التمش)
قسط نمبر 6
مؤرخوں نے مختلف حوالوں سے رائے دی ہے کہ مرتدین نے اپنے عزائم اور مقاصد میں شکست کھائی تو ان میں بہت سے تائب ہو کر سچے دل سے مسلمان ہو گئے تھے ۔جن کو غلام بنا لیا گیا تھا وہ مسلمانوں کے حسن ِسلوک سے متاثر ہو کر ان کے وفادار ہو گئے تھے۔حضرت عمرؓ نے جب دیکھا کہ لوگ مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ محاذوں پر جانے کیلئے تیار نہیں ہو رہے تو انہوں نے اس توقع پر مرتدین کے غلام آزاد کرانے کا حکم دیا تھا کہ وہ خوش ہو جائیں گے اور ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے وہ دعوت ِجہاد قبول کرکے عراق اور شام کے محاذوں پر چلے جائیں گے۔
بعض مبصروں نے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓنے کہا تھا کہ مسلمانوں میں غلام رکھنے کی رسم نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ﷲ نے انسان کو آزاد پیداکیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے صرف اس لئے ان غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم دیا تھا کہ مسلمانوں میں غلامی کا رواج پکا نہ ہوجائے، اور دوسرے اس لیے کہ انسان انسان کا غلام نہ رہے۔
لوگ اس حکم پر اعتراض کر رہے تھے ۔ عمرؓ کی جو درشتی مشہور تھی وہ عود کر آئی۔ انہوں نے کہا:
’’عرب کی مثال ایک اونٹ کی سی ہے جسے نکیل پڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے ساربان کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ یہ دیکھنا ساربان کا فرض ہے کہ وہ اونٹ کو کس طرف لے جاتا ہے۔ رب کعبہ کی قسم !میں عربوں کو راہِ راست پر لا کے چھوڑوں گا۔‘‘
مثنیٰ بن حارثہ نے کسی طرح محسوس کر لیا کہ لوگ فارس کی جنگی طاقت سے خائف ہیں ۔ کسی قبیلے کے سردار نے اس خوف کا اظہار بھی کر دیا تھا۔
’’ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں کہ ہم فارس پر حملہ کریں۔‘‘ اس سردار نے کہا۔’’ فارس کی جنگی طاقت کو کبھی میدانِ جنگ میں دیکھیں پھر بات کریں۔‘‘
مثنیٰ بن حارثہ سے رہا نہ گیا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اُس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ خلیفہ ؓلوگوں سے مخاطب ہیں:
’’اے لوگو!‘‘ مثنیٰ نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا۔’’ وہ کون سا فارس ہے جس کا خوف تمہارے دلوں میں بیٹھ گیا ہے؟کیا تم نہیں جانتے کہ ہم فارس کی جنگی طاقت سے ٹکر لے چکے ہیں؟ہم نے فارس کے باہر اس کی سلطنت کے ایک بہترین حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہم فارسیوں کو کئی لڑائیوں میں شکست دے چکے ہیں۔ ہم نے بابل کے کھنڈرات میں فارسیوں کو شکست دی ہے۔ لیکن یہ مشکل پیش آگئی ہے کہ فارس کے بادشاہ نے اپنی ہاری ہوئی فوج کے لیے کمک بھیج دی ہے۔ مگر ہم کمک سے محروم ہیں۔ کیا تم یہ بھی نہیں کر سکتے کہ جو مجاہدین شہید ہو گئے ہیں ان کی کمی پوری کر دو؟ تمہارے دل اتنے پتھر کیوں ہو گئے ہیں کہ جو اﷲ کی راہ میں کفر کے خاتمے کیلئے لڑتے ہوئے زخمی چھلنی ہو کر بیکار ہو گئے ہیں۔ ان کی خالی جگہ پُر نہیں کرتے؟ خدا کی قسم‘ مسلمان کبھی کسی سے نہیں ڈرے…… میں محاذ سے آیا ہوں۔ نفری کی کمی کی وجہ سے ہم قلعہ بند ہو گئے ہیں۔ ہم اپنے دفاع میں لڑ سکتے ہیں۔ قلعے سے نکل کر پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ کیا تم اس دن کے انتظار میں ہو جس دن تمہارے بھائی اور تمہارے بیٹے محاذ سے بھاگ کر آئیں گے اور تمہیں آکر بتائیں گے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی لاشیں اور تڑپتے کراہتے ہوئے زخمی میدان میں چھوڑ آئے ہیں اور وہ فارسیوں کے گھوڑوں تلے روندے جا رہے ہیں۔‘‘
مجمع پر سناٹا طاری ہو گیا۔ حضرت عمرؓ لوگوں کے چہروں سے ان کے تاثرات اور رد عمل معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مثنیٰ بولتا جا رہا تھا اور لوگوں کے چہروں کے تاثرات بدلتے جا رہے تھے ۔ پھر لوگوں میں بے چینی دیکھنے میں آئی۔ عمرؓ نے بھانپ لیا کہ لوگوں میں جذبہ بیدار ہو رہا ہے ۔انہوں نے مثنیٰ کا اثر قبول کر لیا ہے۔حضرت عمر ؓاُٹھ کھڑے ہوئے ۔مثنیٰ بیٹھ گیا۔
’’اے ایمان والو!‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا۔’’کیا تم حجاز میں ہی قید ہو کر بیٹھ جانا چاہتے ہو؟کیا وہ لوگ تم میں سے نہیں ہیں جو اپنے گھر بار چھوڑ کرکہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں؟وہ اس سر زمین میں پھیل جانے کو چلے ہیں جس کا وعدہ ﷲ نے اپنی کتا ب میں کیا ہے کہ وہ تمہیں اس کا وارث بنائے گا۔ ﷲ تمہارے دین کو بے دین لوگوں کے دلوں پر غالب کرے گا۔ ﷲ اپنے دین کے پیروکاروں کو دوسری قوموں کی میراث عطا کرنے والا ہے۔خدا کی قسم!تم ﷲ کے وعدوں سے بھاگ رہے ہو۔ فارسیوں کی ہیبت تم پر طاری ہو گئی ہے۔ کیا تم میں ﷲ کے معبود ہونے کی شہادت دینے والا کوئی نہیں رہا؟ کیا تم باطل سے ڈرتے ہو‘ اس لیے حق کی تلوار کو بے نیام نہیں کرتے-
لوگوں میں کھسر پھسر سنائی دینے لگی جو بلند ہوتے ہوتے اونچی آوازوں کی صورت اختیار کر گئی۔ پھر یہ آوازیں ایک آواز میں سمٹ گئیں۔
’’خدا کی قسم! ہم نے رسول )ﷺ(کے دکھائے ہوئے راستے پر چل کر ﷲ کے دین کو سر بلند کیا اور اسے عرب کی سرحدوں سے باہر لے جا کر پھیلایا۔ وہ کون سی قوم تھی جس نے ہمیں للکارا اور ہم نے اسے نیچا نہیں دکھایا؟ رسول)ﷺ( ہم سے جدا ہو گئے تو ہم نے خلیفہ ابو بکر کی قیادت قبول کی اور ہر حال میں ان کے ساتھ رہے ۔ﷲ نے ہماری مدد کی۔ ہم میں کسی پر کبھی بھی یہ کیفیت طاری نہیں ہوئی تھی جو آج ہو گئی ہے۔ ہمیں کیا ہو گیا کہ اپنے خلیفہ عمر کی دعوت جہاد پر خاموش بیٹھے ہیں۔‘‘
یہ آواز ابو عبید بن مسعود بن عمرو الثقفی کی تھی۔
’’میں مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ جاؤں گا۔‘‘ ابو عبید بن مسعود نے کہا۔
’’اور میں بھی!‘‘ ایک صحابی سلیطؓ بن قیس نے اٹھ کر کہا۔
اور اس کے بعد لبیک لبیک کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔محاذ پر جانے والوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔ حضرت عمرؓ کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ جہاد پر جانے والے یہ تمام رضا کار مدینہ کے رہنے والے تھے ۔ایک عجیب سوال پیدا ہو گیا۔
’’خلیفۃ الرسول)ﷺ(!‘‘ ایک سرکردہ مدنی نے اُٹھ کر کہا۔’’ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ محاذ پر جانے والوں میں اکثریت مدینہ کے انصار اور مہاجرین کی ہے؟‘‘
’’میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا۔’’ اور تم نے یہ بات کیوں کہی ہے؟‘‘
’’اس لیے کہی ہے کہ اس لشکر کا سالار کوئی مدنی ہی ہونا چاہیے۔ مدنی نے جواب دیا۔’’ کسی ایسے مہاجر یا انصاری کو اس کمک کی سالاری دیں جس نے پہلے کبھی میدانِ جنگ میں شجاعت دکھائی ہواور وہ صحابہ کرام میں سے ہو۔‘‘
’’نہیں!‘‘ حضرت عمر ؓنے کہا۔ ’’واﷲ میں کسی مدنی یا کسی صحابی کو سالار نہیں بناؤں گا۔ اﷲ نے تمہیں سر بلندی اس لئے عطا فرمائی تھی کہ تم نے دین کے دشمنوں کے سر کچلنے کیلئے ہمت اور شجاعت کے جوہر دکھائے تھے ، مگر میں تین دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے چہروں پر بزدلی لکھی ہوئی تھی۔تم دشمن کے سامنے جانے سے ڈر رہے تھے۔ تو کیا سالاری اور امارت کیلئے اس شخص نے برتری حاصل نہیں کر لی جو اپنے دین کی حفاظت اور فروغ کیلئے سب سے پہلے آگے آیا؟خد اکی قسم! اس لشکر کا امیر یہی شخص ہو گا۔ ابو عبید اٹھو ‘میں نے تمہیں اس لشکر کا امیر مقرر کیا جو مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ جا رہا ہے۔‘‘
پھر حضرت عمرؓ نے سعدؓ بن عبید اور سلیطؓ بن قیس کو پکارا۔ وہ دونوں اٹھے۔
’’تم ابو عبید کے بعد بولے تھے کہ تم محاذ پر جاؤ گے۔‘‘ عمرؓ نے کہا۔’’ ابو عبید سے پہلے اٹھتے تو لشکر کے امیر تم ہوتے۔‘‘
’’ابنِ خطاب! ‘‘سلیطؓ بن قیس نے کہا۔’’ بیشک دلوں میں جو کچھ ہے وہ ﷲ جانتا ہے۔ میں جہاد پر امارت کیلئے نہیں‘ اﷲ کی خوشنودی کیلئے جا رہا ہوں۔‘‘
اس کمک کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے مثنیٰ کا مدینہ میں رُکے رہنا مناسب نہ سمجھا۔ محاذوں کی صورتِ حال تشویشناک تھی۔
’’ابنِ حارثہ!‘‘ عمرؓ نے کہا۔’’تم ابھی عراق کو روانہ ہو جاؤ، اور محاذ کو سنبھالو۔ کمک ایک دو دنوں میں جنگ کی تیاری مکمل کرکے روانہ ہوگی۔ ایک ایک ساعت ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہاں انتظار نہ کرو……اور ضروری احتیاط یہ ہے کہ جب تک یہ کمک نہ پہنچ جائے، لڑائی سے گریز کرنا ، کسی بھی طرف پیش قدمی کا خطرہ مول نہ لینا۔‘‘
مثنیٰ بن حارثہ مسرور اور مطمئن محاذ کو روانہ ہو گیا۔
٭
دو دنوں بعد کمک بھی روانگی کیلئے تیار ہو گئی۔ کسی بھی تاریخ میں اس کی تعداد نہیں لکھی۔یہ تعداد یقینا دو ہزار کے قریب تھی۔
’’ابو عبید!‘‘ حضرت عمرؓ نے بوقت رخصت ابو عبید کو آخری ہدایت دی ۔’’ تمہیں محاذ پر رسول)ﷺ( کے کئی صحابہ کرام ملیں گے ۔وہ جو کہیں گے اس پر عمل کرنا ۔ تم کمک کے اس لشکر کے امیرہو اور محاذ پر جا کر تم اس کے سالار ہو گے۔ کوئی کارروائی اور کوئی فیصلہ صحابہ کرام کے مشورے کے بغیر نہ کرنا۔ جلد بازی سے کام نہ لینا۔ تم بہت بڑی بادشاہی کے خلاف لڑنے جا رہے ہو ۔جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہر صورتِ حال کوٹھنڈے دل سے سوچنے کی اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے……الوداع ابو عبید! اﷲ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ کچھ دور تک اس لشکر کے ساتھ گئے ۔ دور جا کر ابو عبید نے پیچھے دیکھا ۔ مدینے کے باہر اور مکانوں کی چھتوں پر مردوں اور عورتوں کے ہاتھ بلند ہو کر ہل رہے تھے۔
کمک کا مسئلہ حل ہو گیا تو حضرت عمر ؓنے اپنے اس حکم پر توجہ مرکوز کر لی کہ ارتداد کے خلاف جہاد کے دوران جن مرتدین کو غلام بنایا گیا تھا اُنہیں آزاد کر دیا جائے۔ ان غلاموں کے آقا اس حکم پر خوش نہیں تھے۔ لیکن عمرؓ اپنے احکام منوانا جانتے تھے ۔انہوں نے اپنے انتظام کے تحت گھر گھر اپنا یہ حکم پہنچایا کہ غلاموں کو آزاد کر دیا جائے۔
لوگ غلاموں کو آزاد کرنے لگے۔
مدینہ کی ایک چھوٹی سی ایک مضافاتی بستی میں اونٹوں اور گھوڑوں کا ایک تاجر رہتا تھا جس کا نام ابو زبیر تھا۔ دولت مند آدمی تھا۔ وہ تھا تو گھوڑوں کا سوداگر ‘اِدھر اُدھر سے گھوڑے لا کر بیچتا تھا ۔لیکن وہ گھوڑوں کے دوسرے سوداگروں سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ وہ گھوڑوں کو جنگی تربیت بھی دیتا تھا۔ اس کے سدھائے ہوئے گھوڑے میدانِ جنگ کیلئے کارآمد اور قابلِ اعتماد ثابت ہوتے تھے۔
ابو زبیر جو اپنے قبیلے کا ایک سرکردہ فرد تھا۔ میدانِ جنگ کا شہسوار تھا اور تیغ زنی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ رسولﷺ کے وصال کے بعد ارتداد کا فتنہ اٹھا تو خلیفہ اول ابو بکرؓ نے مرتدین کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ ابو زبیر بھی اس جہاد میں شریک ہوا۔ اس وقت اس کی عمر ساٹھ سال ہو چکی تھی ۔ مجاہدین کے لشکر میں اُسے کوئی عہدہ حاصل نہ تھا ۔اس کی حیثیت ایک سپاہی کی تھی۔
اس نے دو معرکے لڑے تھے ۔وہ ارتداد کے خاتمے تک کا عزم لے کر گیا تھا ۔لیکن اس کے گھوڑے کی آنکھ میں تیر اُتر گیا۔ گھوڑا اتنی زور سے اچھل کر بھاگا کہ ابو زبیر گھوڑے سے گر پڑا ۔ یہ گھمسان کا معرکہ تھا، کسی اور کے گھوڑے کا پاؤں اس کے کولہے پر پڑا اور وہ اٹھنے کے قابل نہ رہا۔ وہ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو گھسیٹتا معرکے سے نکل گیا ۔ اس کی مرہم پٹی تو ہو گئی لیکن ٹانگ کے جوڑ میں ایسا نقص پیدا ہو گیا کہ وہ صرف چلنے کے قابل رہ گیا اور وہ بھی آہستہ آہستہ۔
وہ مدینے کے قریب اپنے گاؤں واپس آگیا ۔ وہ خالی ہاتھ واپس نہیں آیا تھا ۔ اس کے ساتھ مرتدین کی ایک ادھیڑ عمر عورت اور اس عورت کی بیٹی تھی۔ جس کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ اس کے قبیلے کے چند ایک آدمی اس کے ساتھ جہاد میں شریک تھے ۔ابو زبیر زخمی ہو گیا اور مدینہ کو واپس جانے لگا تو اس کے قبیلے کا ایک آدمی اس ادھیڑ عمر عورت اور اس کی نوجوان بیٹی کو ساتھ لیے اس کے پاس آیا ۔
’’یہ مالِ غنیمت ہے ابو زبیر!‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’ اس کے اہل تم ہی ہو۔ یہ ماں بیٹی لونڈیاں ہیں۔ ہم انہیں کیا کریں گے۔ یہ تم جیسے خوشحال سوداگر کے گھر میں ہی اچھی لگتی ہیں۔‘‘
ابو زبیر کا زخم ٹھیک ہو گیا اور وہ کام کاج کے قابل ہو گیا ۔لیکن میدانِ جنگ کے قابل نہ ہو سکا ۔اب وہ آہستہ آہستہ چلتا تھا ۔اس کی تین بیویاں تھیں جن سے اس کے سات بیٹے تھے۔ سب سے بڑے بیٹے کی عمر تیس سال کے قریب تھی۔ باقی بیٹے جوان اور نو جوان تھے ۔اس نے سب بیٹوں کو اپنے پاس بلایا۔
’’میرے بیٹو!‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں مرتدین کے خلاف لڑنے گیا تھا کہ یہ میرا فرض تھا اور میں یہ لونڈیاں اپنے ساتھ لایا ہوں کہ یہ میرا حق ہے۔ لیکن ان پر میرا اور تمہارا ایسا کوئی حق نہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی انہیں بغیر نکاح کے بیویاں بنا لے اور میں تم میں سے کسی کو اس نوجوان لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ یہ گھر کا کام کاج کریں گی لیکن ان سے اتنا ہی کام لیا جائے گا جتنا یہ کر سکتی ہیں۔‘‘
ابو زبیر نے لونڈی سے صرف ایک بار کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اسلام قبول کرلے تو ماں کی شادی اس کی عمر کے کسی مسلمان سے کر دی جائے گی اور اس کی بیٹی کو وہ اپنی بہو بنا لے گا۔ ابو زبیر اس لڑکی کی شادی اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔
’’ابو زبیر!‘‘ اس عورت نے بڑے ہی پختہ لہجے میں جواب دیا تھا۔’’ میرا جواب ایک ہی بار سن لے۔ میں اسلام قبول نہیں کروں گی۔ تو نے سوچا ہو گا کہ میں تیرے ہاتھوں مجبور اور محتاج ہوں اور تیری ہر بات مان لوں گی۔ نہیں ابو زبیر! تو جانتا ہے کہ میں کسی غریب باپ کی بیٹی نہیں‘ نہ میرا خاوند غریب آدمی تھا۔ وہ قبیلے کے اہم آدمیوں میں سے تھا۔‘‘
’’میں تجھے حکم نہیں دے رہا عاصمہ! ‘‘ابو زبیر نے کہا۔’’ جبر نہیں کر رہا، تیرے بھلے کی بات کی ہے۔‘‘
’’حکم دے کے دیکھ لے۔‘‘ عاصمہ نے کہا’’ جبر کرکے دیکھ لے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں میرا خاوند قتل ہوا‘ میرے دو بھائی قتل ہوئے ہیں‘میرا گھر جلا دیا گیا ہے ‘تو بھی اس لڑائی میں شامل تھا ۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے خاوند اور بھائیوں کا قاتل تو ہی ہو؟‘‘
’’ہو سکتا ہے۔ ‘‘ابو زبیر نے کہا۔’’ تو کیا ایسانہیں ہو اکہ تیرے خاوند اور بھائیوں کے ہاتھوں میرے کتنے ہی ساتھی زخمی اور قتل ہوئے ہوں۔ یہ لڑائی تھی عاصمہ! دونوں طرف کے آدمیوں کوزخمی اور قتل ہونا ہی تھا۔ اگر تیرا خاوند قبیلے کے سردار وغیرہ دھوکا نہ دیتے تو تو آج میرے گھر میں لونڈی نہ ہوتی۔‘‘
’’جسے تم لوگ دھوکا کہتے ہو وہ ہمارے بزرگوں کی ایک چال تھی۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’ ہم اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ لیکن دو بدو جنگ کیلئے ہمارے پاس طاقت نہیں تھی۔ ہمارے سرداروں نے یہ چال چلی کہ مسلمان ہو گئے۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ تم لوگ ہمیں اپنا سمجھنے لگے اور ہم لوگ در پردہ تمہارے خلاف جنگ کی تیاریاں کرنے لگے ۔ ہمارے بزرگ موزوں موقع ڈھونڈنے لگے۔‘‘
’’اور تم لوگوں کے بزرگوں کو وہ موقع مل گیا۔‘‘ ابو زبیر نے عاصمہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’ ہمارے رسول)ﷺ( انتقال فرما گئے ۔تمہارے بزرگ اور سردار خوش ہوئے کہ اب مسلمان……‘‘
’’ہاں ابو زبیر!‘‘ عاصمہ درمیان میں بول پڑی۔’’ تو ٹھیک کہتا ہے……تم لوگ جیت گئے ۔لیکن میں اسلام قبول نہیں کروں گی۔ میں اپنے دشمنوں کا مذہب قبول نہیں کروں گی۔ میں تیری لونڈی ہوں۔ میری بیٹی تیری لونڈی ہے۔ ہم دونوں سے تجھے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ تیری کسی بیوی کو کوئی شکایت نہیں ہو گی۔‘‘
’’اور تجھے اس گھر کے کسی فرد سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔‘‘ ابو زبیر نے کہا۔’’ میرا کوئی بیٹا تیری اتنی خوبصورت بیٹی کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا ۔ تیری شادی نہیں ہوئی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ تیری بیٹی کی شادی ہو جانی چاہیے ۔‘‘
’’شادی کیلئے میں اسے مسلمان نہیں ہونے دوں گی۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’ میں لڑکی کے باپ کے قاتلوں کو لڑکی نہیں دوں گی۔‘‘
ابو زبیر دیندار مسلمان تھا۔ وہ اس ماں بیٹی کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق سلوک کررہا تھا۔ اس نے عاصمہ کی طنزیہ اور جلی کٹی باتوں پر کسی الٹے پلٹے رد عمل کا اظہار نہ کیا ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب عاصمہ اور اس کی بیٹی کو یہاں آئے ہوئے ابھی چند ہی دن ہوئے تھے ، اس کے بعد ابو زبیر نے اسے اسلام قبول کرنے کیلئے کبھی نہیں کہا۔
عاصمہ کو ابو زبیر کے گھر آئے ہوئے دو تین مہینے گزر گئے تھے ۔ وہ ایک روز کسی کام سے اصطبل میں گئی تو ابو زبیر ایک آدمی کو گھوڑے دکھا رہا تھا۔ اس آدمی کی عاصمہ کی طرف پیٹھ تھی۔ یہ شخص گھوڑا خریدنے آیا تھا ۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو عاصمہ کو اس کا چہرہ نظر آیا۔ وہ چونک پڑی۔اس شخص کا رد عمل بھی کچھ ایسا ہی تھا۔اس کے چہرے پر حیرت کا گہرا تاثر آ گیا
جاری ہے
Post a Comment