حجاز کی آندھی
(عنایت اللہ التمش)
قسط نمبر 5
’’ایسی بات نہ کہو ابنِ کعب! ‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میں نے اسلام کی خاطر اپنا قبیلہ، اپنا گھر، اپنی بیوی اور اپنے چار بیٹے قربان کر دیئے ہیں ۔وہ ایک یہودی کی دوستی تو آسانی سے قربان کر سکتا ہے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں یہودی کی ذہنیت سے واقف نہیں ؟ میں جہاں دیکھوں گا کہ یہودیوں کے ہاتھوں اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے تو اپنے یہودی دوست کے سب احسان بھول کر اسلام کو نقصان سے بچاؤں گا۔‘‘
’’تم شاید یہ نہیں جانتے ابن ِداؤد!‘‘حبیب نے کہا۔’’ یہودیوں نے رسول اﷲ)ﷺ( کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ بھی اس صورت ِحال میں کہ رسول اﷲ)ﷺ( نے یہودیوں کے ساتھ معاہدے کر کے انہیں اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تم نے اسلام قبول کیاہے تو میں چاہتاہوں کہ تمہیں یہودیوں کے متعلق بتادوں کہ وہ اسلام کے کتنے خطرناک دشمن ہیں ۔‘‘
’’یہ تومیں ضرور سننا چاہوں گا۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا ۔’’ میں مدینہ سے بہت دور کا رہنے والا ہوں۔ بہت سی باتوں سے بے خبر ہوں۔‘‘
’’مدینہ میں یہودیوں کے کچھ قبیلے آباد تھے۔‘‘ حبیب ابن ِکعب نے کہا۔’’رسول)ﷺ( نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہودی ایک فتنہ پرداز قوم ہے اور یہ قوم مسلمانوں کی بد ترین دشمن ہے، یہودیوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور انہیں دوستوں کی طرح اپنے ساتھ رکھا ۔لیکن انہوں نے غزوۂ بدر کے بعد معاہدے کی خلاف ورزی کی ۔ اس وقت مدینہ کے اندر اور خصوصاً مضافات میں یہودیوں کی اجارہ داری تھی اور ان کی آبادی بھی زیادہ تھی۔ رسول)ﷺ( نے ان کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ مدینہ پر کوئی دشمن حملہ کرے گا تو یہ یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے اور دشمن کی مدد نہیں کریں گے ۔ اس کے عوض مسلمان یہودیوں کا ہر طرح سے خیال رکھیں گے اور ان کے ساتھ تعاون کریں گے……
پھر جانتے ہو کیا ہوا ابنِ داؤد؟ یہودیوں نے درپردہ قریش مکہ سے رابطہ قائم کر لیا۔یہودیوں کے یہ الفاظ رسول اﷲ)ﷺ( کے کانوں میں پڑے ’قبیلہ لڑنا جانتا ہی نہیں، مسلمان ہم سے لڑتے تو ہم انہیں دکھاتے کہ لڑائی کس طرح لڑی جاتی ہے‘اس کے ساتھ ہی یہودیوں نے اسلام کے خلاف محاذ بنا لیا ۔ ماہ شوال ۲ ہجری میں رسول اﷲ)ﷺ( نے دیکھا کہ یہودیوں نے صلح کا معاہدہ توڑ ڈالا ہے تو آپ)ﷺ( نے یہودیوں کے خلاف جنگی کارروائی کر کے انہیں مدینہ سے نکال دیا، یہودیوں کا یہ قبیلہ بنو قینقاع تھا……
یہودیوں کا دوسرا قبیلہ بنو نضیر تھا۔ چونکہ اس قبیلہ نے معاہدے کا کچھ پاس کیا تھا اس لیے اسے مدینہ میں ہی رہنے دیا گیا۔ دو سال بعد ۴ ہجری میں اس قبیلے کی ذہنیت بھی بے نقاب ہو گئی۔ کوئی ایسا معاملہ یا مسئلہ پیش آگیا جس کے متعلق گفت و شنید کی ضرورت پیش آئی۔ رسول اﷲ)ﷺ( حضرت ابو بکر و عمر کو ساتھ لے کر یہودیوں کے سربراہ کے ہاں گئے ۔ آپ )ﷺ(اس یہودی سربراہ کے ٹھکانے پر پہنچے ہی تھے کہ کسی نے آپ )ﷺ(کو روک لیا اور ایک مکان کی چھت کی جانب اشارہ کیا……
وہ ایک یہودی کا مکان تھا۔ اس کی چھت پر ایک یہودی جس کا نام عمرو بن حجاش تھا، چھپا ہوا تھا۔ اس کے پاس ایک وزنی سل پڑی ہوئی تھی۔ اسے یہودیوں نے یہ کام سونپا تھا کہ جب محمد)ﷺ( اس مکان کے قریب سے گزریں تو آپ )ﷺ(کے سر پر سِل گرا دے ۔ رسول اﷲ)ﷺ( کو اس سازش کی اطلاع ملی تو آپ )ﷺ(وہیں سے واپس آگئے اور یہودیوں کو پیغام بھیجا کہ وہ مدینہ سے نکل جائیں۔ بنو نضیر نے نکلنے کی بجائے لڑنے کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ حضور)ﷺ( کے حکم سے بنو نضیر کو تیاریوں کی حالت میں پکڑا گیا اور یہودی مدینہ سے نکالے گئے……
ان میں کچھ تو شام چلے گئے اور زیادہ تر خیبر میں جا آباد ہوئے۔ تم نے شاید ان کے سرداروں کے نام سنے ہوں گے ۔سلام بن ابی الحقیق، کنانہ بن الربیع اور حیّی بن اخطب مشہور یہودی سربراہ تھے، یہ خیبر میں آباد ہوئے اور رسول)ﷺ( سے انتقام لینے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ یہودی سازش کے ماہر ہیں۔ انہوں نے مکہ جا کر قریش مکہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور وہ دوسرے علاقوں میں بھی گئے اور لوگوں کو مسلمانوں سے یوں خوفزدہ کیا کہ مسلمانوں کو مدینہ میں ہی ختم نہ کیا گیا تو یہ سب کو ختم کر دیں گے……
تم شاید نہیں جانتے ابنِ داؤد! یہودی کا دماغ سازش کے سوا اور کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ یہ ایسے پر اثر الفاظ اور انداز سے لوگوں کو اکساتے اور مشتعل کرتے ہیں کہ ہر کوئی یہودی کی بات کو اپنے دل کی آواز سمجھنے لگتا ہے۔ انہوں نے قبیلہ قریش اور دوسرے قبائل کے سامنے اپنی مثال پیش کی کہ یہودی پشت در پشت مدینہ میں رہتے چلے آرہے تھے ۔ تم دیکھ رہے ہو کہ انہوں نے یہودیوں کو گھر سے بے گھر اور وطن سے جلا وطن کر دیا ہے اور مدینہ میں وہی چند ایک یہودی رہ گئے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی غلامی قبول کر لی ہے۔‘‘
’’ہاں ابنِ کعب! ‘‘ابنِ داؤد نے معصومیت کے لہجے میں کہا۔’’ میں یہودیوں کی ذہنیت اور اسلام دشمنی کے بارے میں جانتا ہوں۔ لیکن اتنا نہیں جانتا جتنا کہ تم جانتے ہو۔
یہ باتیں مجھے سناؤ۔ میرا اُٹھنا بیٹھنا یہودیوں کے ساتھ رہتا ہے۔ میں ان کی ہر بات کو سچ مان لیا کرتا ہوں۔‘‘
’’کیا تم ساری باتیں سننا پسند کرو گے؟‘‘ حبیب نے پوچھا۔ ’’اُکتا تو نہیں جاؤ گے۔‘‘
’’نہیں ابنِ کعب! ‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میں یہ باتیں سننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ان سے زیادہ تو مجھے یہ باتیں سننے کا شوق ہے۔‘‘ بنتِ یامین نے کہا۔’’ میں جب اسلام کے کسی دشمن کی بات سنتی ہوں تو میرے جسم میں آگ لگ جاتی ہے۔میں کہتی ہوں اسے ابھی قتل کر دوں۔ یہودیوں سے مجھے اسی لیے نفرت ہے۔‘‘
’’تم دونوں سننا چاہو یا نہ چاہو۔‘‘ حبیب نے کہا۔’’میرا دل آج ایسا بھر آیا ہے کہ یہی باتیں کرتے رہنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ باتیں کوئی پرانی باتیں تو نہیں، رسول اﷲ)ﷺ( کے وصال کو ابھی دو سال اور کچھ مہینے ہی گزرے ہیں لیکن حضور )ﷺ(مجھے اپنے سامنے گھومتے پھرتے ، میدانِ جنگ میں گرجتے برستے، مجاہدین کی قیادت کرتے، سالاروں کو ہدایات دیتے نظر آرہے ہیں۔میں نبی)ﷺ( کی قیادت میں جنگ ِخندق میں شامل ہوا تھا۔ تم مدینہ سے دور کے رہنے والے ہو۔ تم نے شاید سنا ہو گا کہ اہل قریش نے دس ہزار کا لشکر اکٹھا کرکے مدینہ پر چڑھائی کر دی تھی۔یہ پانچویں ہجری کا واقعہ ہے ۔ کل کی ہی تو بات ہے۔ ابھی چھ سات سال گزرے ہیں۔‘‘
’’مجھے یاد ہے۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ یہ خبر کچھ عرصے بعد میرے گاؤں تک پہنچی تھی۔ اہلِ قریش ناکام لوٹ گئے تھے۔‘‘
’’ناکام اس لئے لوٹ گئے تھے کہ رسول اﷲ)ﷺ( کے حکم سے مدینہ کے اردگرد خندق کھود دی گئی تھی ۔‘‘ حبیب نے کہا۔’’یہ ماہ شوال ۵ ہجری )۶۲۷ء( کا واقعہ ہے……میں تمہیں سنا رہا تھاکہ یہودی مدینہ سے نکالے گئے تو انہوں نے قبیلہ قریش کو اور دوسرے قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف ایسا مشتعل کیا کہ ابو سفیان دس ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑا۔خندق نے انہیں آگے نہ بڑھنے دیا……
اہلِ قریش اور ان کے ساتھ آئے ہوئے دوسرے قبیلے کے لوگوں نے مدینہ کو پورے ایک ماہ محاصرے میں لئے رکھا۔ انہوں نے خندق عبور کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ کر سکے۔ رسول)ﷺ( نے حکم دیا کہ رات کو خندق کے ساتھ ساتھ پہرہ دیا جائے۔ صرف ایک طرف تھوڑے سے حصے میں خندق نہیں تھی ۔ میں اسی طرف تھا۔ دشمن نے اُدھر سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تھی اور لڑائی بھی ہوئی تھی۔ میں اس لڑائی میں شامل تھا ۔تم نے عرب کے ایک مشہور بہادر آدمی عمرو بن عبدود کا نام سنا ہو گا۔‘‘
’’وہ عمرو بن عبدود جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کی طاقت پانچ سو گھوڑ سواروں کے برابر ہے؟‘‘
’’ہاں ابنِ دااؤد!‘‘ حبیب نے کہا۔ ’’وہ واقعی بہت بہادر تھا۔ وہ اس معرکے میں حضرت علی کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسلام کو مدینہ کے اندر ہی ختم کر دے گا لیکن خود ختم ہو گیا…… جی میں آتی ہے کہ اس وقت کی ایک ایک بات سناؤں۔ لیکن میں تمہیں یہودیوں کی فریب کاریاں سنانا چاہتا ہوں……
میں بتا رہا تھا کہ ایک طرف خندق نہیں تھی۔ اس لئے اس طرف سے ہی حملے کا خطرہ تھا۔ہم اس طرف تیار موجود رہتے تھے۔ مدینہ میں ایک کشادہ مکان تھا۔ رسول اﷲ)ﷺ( کے حکم سے ہم نے عورتوں اور بچوں کو اس مکان میں منتقل کر دیا تھا ۔ یہ ان کی حفاظت کا انتظام تھا ۔ ایک رات ایک آدمی کو اس مکان کے ساتھ مشکوک حالت میں آہستہ آہستہ چلتے دیکھا گیا۔اس کے ہاتھ میں برچھی تھی۔ رسول اﷲ)ﷺ( کی پھوپھی صفیہ کو خبر ہوئی تو وہ ایک موٹا ڈنڈا لے کر باہر نکلیں ۔اس آدمی پر انہوں نے عقب سے حملہ کیا اور سر پر ڈنڈے مار مار کر اسے ختم کر دیا۔‘‘
’’کون تھا وہ؟‘‘ بنتِ یامین نے پوچھا۔
’’وہ یہودی تھا۔‘‘ حبیب نے جوا ب دیا۔’’ بنو قریظہ کا آدمی تھا……عام خیال تو یہ تھا کہ وہ رسول)ﷺ( کو قتل کرنے جا رہا تھا ۔لیکن کچھ دنوں بعد ایک یہودی نے یہ راز کی بات بتائی تھی کہ یہ آدمی بے حد خطرناک سازش کے تحت آیا تھا ۔ وہ ان یہودیوں میں سے تھا جنہیں مدینہ سے نہیں نکالا گیا تھا۔ کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے سامنے غلامانہ انداز اختیار کر لیا تھا اور مسلمانوں کو اُن پر اعتبار آگیا تھا……
سازش یہ تھی کہ یہودی اس مکان میں چلا جائے گا ۔جس میں ہماری عورتیں اور بچے تھے اور یہ ان پر برچھیوں سے حملہ کر دے گا۔ عورتوں اور بچوں نے شوروغل مچانا تھا اور ان میں بھگدڑ بھی بپا ہونی تھی۔ ظاہر ہے ہم سب نے اُدھر دوڑے جانا تھا ۔اس صورتِ حال میں قبیلہ قریش اور دیگر قبیلوں نے راستہ صاف دیکھ کر حملہ کرنا تھا۔ لیکن یہ یہودی پہلے ہی مارا گیا اور دشمنوں کی سازش ناکام ہو گئی۔ تمام حملہ آور قبیلے مایوسی کے عالم میں واپس چلے گئے……
قبیلہ قریش اور ان کے حامی قبیلے تو ہار مان گئے لیکن یہودی شیطانیت کی علمبردار قوم ہے اور ہار نہ ماننا شیطان کی خصلت ہے۔ وہ بدی کو دل سے نکلنے نہیں دیتا۔ یہودیوں کے تین سربراہ سلام بن ابی الحقیق، کنانہ بن الربیع اور حیّی بن اخطب مدینہ سے خیبر چلے گئے۔ جہاں مدینہ کے یہودی جاکر آباد ہوئے تھے۔ ان تین یہودیوں نے ایک عرب قبیلے بنو سعد کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ انہوں نے ایسے ایسے انداز اختیار کیے کہ بنو سعد ان کے جھانسے میں آگئے اور مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گئے……
یہ خندق کے معرکے کے ایک سال بعد کا واقعہ ہے۔ خیبر کی طرف سے آنے والے ایک تاجر نے مدینہ میں آکر کسی سے ذکر کیا کہ خیبر میں بنو سعد مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔ یہ خبر رسول)ﷺ( تک پہنچ گئی۔ حضور)ﷺ( کا یہ اصول تھا کہ دشمن تمہارے خلاف تیاری کر رہا ہو تو اسے تیاری کی حالت میں اس کے گھر جا پکڑو۔ اپنے گھر بیٹھے اس کا انتظار نہ کرتے رہو۔ چنانچہ آپ )ﷺ(نے حضرت علی کو بنو سعد پر حملے کیلئے بھیجا۔ بنو سعد کو اس حملے کی توقع نہیں تھی۔ حضرت علی کے ساتھ کوئی زیادہ لشکر نہیں تھا۔ لیکن بنو سعد پر حملہ ایسا اچانک تھا کہ وہ بھاگ نکلنے کے سوا کچھ بھی نہ کر سکے۔ حضرت علی مجاہدین کے لشکر کے ساتھ مدینہ واپس آئے تو ان کے ساتھ بنو سعد کے پانچ سو اونٹ تھے۔
’’کیا تم بھی حضرت علی کے ساتھ گئے تھے؟ ‘‘ابن ِداؤد نے کہا۔
’’نہیں!‘‘ ابنِ کعب نے کہا۔’’ میں دوسرے لشکر کے ساتھ گیا تھا اور یہی خیبر کی اصل لڑائی تھی ۔ میں اس لڑائی کی ساری باتیں نہیں سناؤں گا۔ میں تمہیں یہودی کی اسلام دشمن ذہنیت سے خبردار کر رہا ہوں…… بنت ِیامین !کیا تم ناگن پر اعتبارکر لو گی کہ تمہیں نہیں ڈسے گی؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’تم ناگن پر اعتبار کر سکتی ہو۔‘‘ حبیب نے کہا۔ ’’تم ایک طرف ہو جاؤ گی تو وہ تمہارے قریب سے گز رجائے گی ۔لیکن کسی یہودن پر کبھی اعتبار نہ کرنا۔ اسے جونہی پتا چلے گا کہ تم مسلمان ہو تو وہ تمہیں ڈس لے گی…… بنو سعد کو ان یہودیوں نے بھڑکا کر مسلمانوں سے مروایا تو انہوں نے ایک اور قبیلے کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا ۔ یہ تھا قبیلہ بنو غطفان جو بنو سعد سے زیادہ طاقتور تھا ۔ اس قبیلے نے مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں اور اس کی بھی خبر مدینہ پہنچ گئی……
اب رسول اﷲ)ﷺ( خود خیبر کو روانہ ہوئے ۔ ہجرت کا ساتواں سال شروع ہو چکا تھا۔ میں ان چودہ سو پیادوں کے ساتھ تھا جو خیبر پر حملہ کرنے گئے تھے ۔ ہمارے ساتھ صرف دوسو گھوڑ سوار تھے ۔ یہودیوں نے تھوڑے سے عرصے میں قلعے بنا لیے تھے۔ مجھے ان کے نام یاد ہیں۔ ناعم، قموص، صعب، وطیح، اور سلالم……ان میں وطیح اور سلالم بہت ہی مضبوط قلعے تھے۔ باقی سب قلعے فتح ہو گئے ،لیکن ان دو قلعوں کو فتح کرنا بہت ہی مشکل کام تھا۔ تم نے شاید ایک آدمی کا نام نہیں سنا ہو گا۔ یہ عمرو بن عبدود جیسا بہادر آدمی تھا۔ اس کا نام مرحب تھا اور یہ دونوں قلعے اسی کے تھے۔‘‘
’’نہیں!‘‘ ابنِ داؤد نے جواب دیا۔’’ میں نے اس کا نام کبھی نہیں سنا۔ تم اس کی بہادری کی باتیں سناؤ، مجھے تمہاری باتیں اچھی لگ رہی ہیں۔‘‘
’’میں تو کہتا ہوں۔‘‘ حبیب نے کہا۔ ’’دن ہو یارات ، یہی باتیں سناتا رہوں۔ ہوا یوں کہ رسول اﷲ)ﷺ( نے ابو بکر کو سپہ سالار مقرر کرکے ان دو قلعوں کو فتح کرنے کیلئے بھیجا۔ میں بھی اس لشکر کے ساتھ تھا۔ لشکر کیا تھا چودہ سو پیادے اور دو سو گھوڑ سوار۔ ان میں کچھ زخمی ہو کر بیکار ہو چکے تھے اور چند ایک شہید بھی ہو گئے تھے۔ غطفان کے آدمیوں نے باہر آکر اتنا سخت مقابلہ کیا کہ ہم ہار گئے۔ ہمارے سالار ابو بکر لشکر کو پیچھے لے آئے……
رسول اﷲ)ﷺ( نے حضرت عمر کو سالار مقرر کر کے عَلَم ان کے سپرد کیا۔ حضرت عمر بن الخطاب نے ہمیں دو دن لڑایا مگر میں غطفان والوں کی بہادری کی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے قدم نہ جمنے دیئے۔ عمر بھی ناکام لوٹ آئے۔‘‘
’’وہ تو بہت ہی بہادر تھے۔‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ جنہوں نے مسلمانوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔وہ یقینا دلیر اور نڈر تھے۔‘‘
’’کچھ وہ دلیر اور نڈر تھے اور کچھ ہم تعداد میں تھوڑے تھے۔‘‘ حبیب ابنِ کعب نے کہا۔’’ اور ہم پہلی لڑائیوں کے تھکے ہوئے بھی تھے۔ ان کی اصل طاقت مرحب تھا۔ وہ ان کی جرأت اور جاں نثاری کی علامت بنا ہوا تھا۔ ہمارے سالار کہتے تھے کہ مرحب کو مار لیا جائے تو یہ دونوں قلعے لیے جا سکتے ہیں……
ابو بکر اور عمر بن الخطاب جیسے جری اور نامور سالار ناکام ہو گئے تو باقی تمام صحابہ کرام ہتھیاروں کو چمکا کر اور سج دھج کر رسول)ﷺ( کے حضور پیش ہوئے۔ ہر ایک عَلَم اور سپہ سالاری کی التجا کرنے لگا۔ مجھے وہ مسکراہٹ تا قیامت یاد رہے گی جو رسول اﷲ)ﷺ( کے مبارک لبوں پر تھی۔ ان صحابہ کرام میں حضرت علی بھی تھے۔ رسول اکرم)ﷺ( نے علم اٹھایا اور حضرت علی کے ہاتھ میں دے دیا……
عمر نے اس موقع پر کہا کہ میں نے علم اور سالاری کی کبھی خواہش نہیں کی تھی۔ اﷲ نے یہ فخر علی کی قسمت میں لکھ رکھا تھا……علی گئے اور مرحب کو للکارا۔ مرحب اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ پہلے کی طرح اس بار بھی وہ مسلمانوں کو پسپا کر دے گا۔ وہ علی کے ہاتھوں مارا گیا ۔اس کا عَلَم گر پڑا اور اس کے ساتھ ہی اہلِ غطفان میں بھگدڑ بپا ہو گئی۔ اس طرح وطیح اور سلالم بھی فتح ہو گئے……
یہاں یہودیوں نے ایک اوچھا وار کیا۔ ایک یہودن زینب بنت الحارث نے رسول اﷲ)ﷺ( کو گوشت میں زہر ملا کر پیش کیا۔ حضور)ﷺ( نے پہلی بوٹی منہ میں ڈالتے ہی اُگل دی مگر آپ)ﷺ( کے ساتھ ایک ساتھی صحابی بشر بن الباراء تھے۔ انہوں نے ایک بوٹی کھالی اور وہیں وفات پا گئے……
باتیں بہت ہیں ابنِ داؤد! مگر ہیں بہت لمبی۔ کب تک سنو گے۔ میں تمہیں اور بنت ِیامین کویہودیوں سے خبردار کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ یہودی جب تمہیں دھوکا دینے آئے گا تو وہ تم پر ظاہر نہیں ہونے دے گا کہ وہ یہودی ہے۔ وہ زاہد اور پارسا مسلمان کے روپ میں مظلوم بن کر یا تمہارا مونس و غمخوار بن کر آئے گا اور تم اس کے جال میں آجاؤ گے…… کیا اب ہمیں سو نہیں جانا چاہیے؟‘‘
صبح سویرے حبیب اپنے روز مرہ کے معمول کے مطابق نکل گیا۔ وہ کئی دنوں کی غیر حاضری کے بعد مدینہ واپس آیا تھا۔ اس لیے بنتِ یامین اور ابو داؤد سے کہہ گیا تھا کہ وہ شام تک ہی واپس آسکے گا۔
’’ابن داؤد! ‘‘حبیب کے جانے کے بعد بنت ِیامین نے کہا۔’’ کیسا پتھر میرے حوالے کردیا ہے۔ کیا میں اس پتھر کو موم کر سکوں گی؟نہیں……نہیں!‘‘
’’کیوں نہیں؟ ‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ پتھروں کو ہی موم کرنا ہے بنتِ یامین! اس شخص کو قتل کرنا ہوتا تو یہ بہت ہی آسان کام تھا۔تم جانتی ہو کہ اس کے ہاتھ سے قتل کروانے ہیں۔‘‘
’’سب سے پہلے ہم دونوں اس کے ہاتھوں قتل ہوں گے۔‘‘ بنتِ یامین نے کہا۔ ’’اسے جوں ہی پتا چلا کہ ہم دونوں یہودی ہیں تو یہ مجھے طلاق دے کر گھر سے نہیں نکال دے گا بلکہ مجھے قتل کرکے میری لاش باہر پھینک دے گا۔ پھر تمہیں تلاش کر کے تمہیں قتل کرے گا ۔ کیاتم نے دیکھا نہیں کہ اس کے دل میں یہودیوں کے خلاف کتنی نفرت بھری ہوئی ہے۔ اس کی اتنی لمبی بات کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہودی اسلام کا بد ترین دشمن ہے اور یہودی کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔‘‘
’’کیا تم سارے سبق بھول گئی ہو؟‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ کیا تم اپنی اصلیت کو چھپا نہیں سکو گی؟کیا تم اسے یقین نہیں دلا سکو گی کہ تم رسول)ﷺ( کی عاشق اور اسلام کی قندیل پر جل کر راکھ ہونے والا پروانہ ہو؟‘‘
’’یہ یقین دلانا تو میں نے شروع کر دیاہے۔‘‘ بنت ِیامین نے کہا۔’’ کیا میں نے اسے یہ نہیں کہا کہ مجھے جہاد پر جانے کا بے حد شوق ہے؟‘‘
’’تم عقل اور ہوش ٹھکانے رکھ کر اس کے گھر میں رہو۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ جتنے دن اس کے پاس اکیلی ہو ‘اسے شیشے میں اتارنے کی کوشش کرو۔ خد ا نے تمہیں حسن دیا ہے۔ ہم نے تمہیں حسن کے استعمال کے طریقے سکھائے ہیں۔ اس کی دو بیویاں ہیں۔ ایک بیوی گاؤں میں بیمار پڑی ہے اور دوسری کو یہ اس کی تیمارداری کیلئے چھوڑ آیا ہے۔ اس تنہائی سے فائدہ اٹھاؤ اور اس پر جادو کی طرح غالب آجاؤ۔‘‘
’’اور تم کیا کرو گے؟ ‘‘بنت ِیامین نے پوچھا۔
’’ضروری نہیں کہ میں تمہیں تفصیل سے بتاؤں کہ میں کیا کروں گا۔‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میرا کام مجھ تک رہنے دو، تم ہر وقت یہ اصول سامنے رکھو کہ ہم یہودی ہیں اور ہمارا ہر قول اور ہر فعل یہودیوں کیلئے وقف ہے…… ایک بات تمہیں بتا دوں۔ یہ تمہیں پہلے بتائی جا چکی ہے‘ وہ یہ کہ نیا خلیفہ عمر فارس کے خلاف لشکر بھیجنا چاہتا ہے لیکن یہاں کے مسلمان فارسیوں سے خائف ہیں اور آگے نہیں آرہے ۔‘‘
’’خائف کیوں ہیں؟ ‘‘بنت ِیامین نے پوچھا۔
’’مختلف لوگوں نے مختلف وجوہات پیدا کر رکھی ہیں۔‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ جنگی امور اور مسائل کو سمجھنے والے کہتے ہیں کہ ہم عراق اور شام کے محاذ پر لڑ رہے ہیں اور وہاں رومی اتنا سخت مقابلہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ یہ مسلمان ہیں اور پسپائی کو انتہائی ذلت سمجھتے ہیں۔ ان کی جگہ کسی اور قوم کی فوج ہوتی تو وہ کچھ عرصہ پہلے ہی پسپا ہو چکی ہوتی۔ دانشمند مسلمان کہتے ہیں کہ ان حالات میں ایک اور محاذ نہیں کھولنا چاہیے۔ فارسی رومیوں جیسی بڑی جنگی طاقت ہیں……
یہ تو دانشمندوں کی رائے ہے‘ جو بالکل صحیح ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کو یہ بتایا گیاہے کہ فارسی رومیوں سے زیادہ طاقتور اور خوفناک ہیں ۔ مسلمانوں نے فارسیوں سے لڑائیاں لڑی ہیں اور ہر لڑائی میں فتح حاصل کی ہے ۔لیکن ان کا جانی نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ جو زخمی ان لڑائیوں میں سے آئے ہیں وہ بڑی خوفناک باتیں سناتے ہیں ۔ ہم نے یہ کام کرنا ہے کہ مدینہ کے اندراور مضافاتی علاقوں میں مسلمانوں میں مسلمان بن کر فارسیوں کی طاقت اور خونخواری کی ایسی باتیں مشہور کرنی ہیں کہ کوئی مسلمان اس محاذ پر جانے کیلئے تیار ہی نہ ہو۔‘‘
’’اگر انہیں جبراً بھرتی کر لیا گیا تو……‘‘
’’نہیں بیوقوف!‘‘ابن ِداؤد نے بنتِ یامین کو اس سے آگے بولنے نہ دیا اور کہا۔’’ مسلمانوں کی کوئی فوج نہیں ۔ یہ باتیں تمہیں بتائی جا چکی ہیں اور تم بھولتی جا رہی ہو۔ یہ لوگ لشکر اس طرح بناتے ہیں کہ خلیفہ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ فلاں محاذ پر اتنے ہزار آدمیوں کی ضرورت ہے ۔ لوگ فوراً اکٹھے ہو جاتے اور منظم لشکر کی صورت اختیارکر لیتے ہیں۔ ان پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہوتی کہ یہ تنخواہ دار ہیں اس لیے محاذ پر نہ جانے یا محاذ سے بھاگ آنے پر انہیں سزا ملے گی۔‘‘
’’میں یہاں عورتوں کو خائف کروں گی۔‘‘ بنتِ یامین نے کہا۔
’’تمہارے ساتھ میرا رابطہ رہے گا۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ دو تین دن تو میں اسی گھر میں رہوں گا ۔ یہاں اپنے دو تین آدمیوں سے ملنا ہے ۔ یہ تو تم جانتی ہو کہ اس مہم میں ہم دونوں ہی نہیں اور بھی آدمی یہی کام کر رہے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو تربیت دی جا رہی ہے‘ انہیں سر کردہ مسلمانوں کی بیویاں بنایا جائے گا۔‘‘
اسی مدینہ میں جہاں بنی اسرائیل اسلام کے خلاف سازشوں کا جال بچھا رہے تھے۔ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ ذہن اور اعصاب پر ایسابوجھ اٹھائے ہوئے تھے جسے وہی برداشت کر سکتے تھے ۔یہ ان مسائل کا بوجھ تھا جو اُمت ِرسول)ﷺ( کے اتحاد کو پارہ پارہ کر سکتے تھے۔ ایک مسئلہ تو یہ تھا کہ عمرؓ کی خلافت کو سب لوگ تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔اگر کرتے ہیں تو کیا سچے دل سے کرتے ہیں یا رسمی طور پر۔
اس سوال کا جواب عمرؓ کو مل چکا تھا۔ ان کے مخالفین کی کمی نہیں تھی ۔لیکن ان کے پہلے خطبے نے مخالفین پر اچھا اثر کیا تھا۔ ان کے دلوں سے مخالفت نکل گئی تھی۔ایک تو یہ خطبہ تھا جو سب نے سنا اور ذہنوں سے وسوسے نکل گئے لیکن خطبے کے بعد آگے بیٹھے ہوئے لوگوں نے عمرؓ کی زبان سے کچھ اور الفاظ بھی سنے تھے۔
’’خدا کی قسم! ‘‘مسجد سے باہر آکر لوگ ایک دوسرے کو بتا رہے تھے۔’’ میں نے خلیفہ کو دیکھا ہے‘ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔‘‘
’’خلیفہ نے ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔‘‘
’’اور ان کی نظریں آسمان کی طرف تھیں۔‘‘
عمر ؓکی یہ دعا جن لوگوں نے سنی ‘وہ باہر آکر سب کو سنا دی ۔ خطبے کے بعد عمر ؓہاتھ اٹھائے نظریں آسمان کی طرف کیے ہوئے کہہ رہے تھے:
’’یا اﷲ! میں سخت ہوں ‘مجھے نرم کر دے۔ میں کمزور ہوں مجھے قوت عطا کر۔ یا اﷲ میں بخیل ہوں مجھے سخی بنا۔‘‘
پھر آگے بیٹھے ہوئے لوگوں نے جو عمر ؓکی آواز سن سکتے تھے ، باہر آکر سب کو سنایا کہ خلیفہؓ خاموش ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر سر جھکا لیا۔ بیٹھے بیٹھے لوگوں کی طرف مڑے ۔ خطبہ ختم ہو چکاتھا جو حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر دیا تھا۔ وہ بیٹھ گئے تو مسجد میں موجود تمام آدمیوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئی تھیں۔ اس وقت عمرؓ نے یہ بھی کہا تھا:
’’اﷲ نے میرے دو عظیم رفیقو ں کے بعد مجھے یہ ذمہ داری سونپ کر میرے ساتھ تم سب کو بھی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ خدا کی قسم !تمہارا مسئلہ اور جومعاملہ میرے سامنے آئے گا اسے میں ہی سلجھاؤں گا اور جو لوگ اوران کے مسئلے مجھ سے دور ہوں گے‘ ان کی بھی کفایت اور امانت کو ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا اور مسئلے مجھ سے کتنی ہی دور ہوئے‘ میں ان تک پہنچوں گا ۔اگر لوگوں نے میرے ساتھ بھلائی کا رویہ رکھا تو میں یقینا ان کے ساتھ بھلائی کروں گا اور جو لوگ برائی سے باز نہیں آئیں گے میں انہیں عبرتناک سزا دوں گا۔
یہ تو ایک مسئلہ تھاجو ایک حد تک حل ہو گیا تھا۔ لوگوں نے مسجد سے باہر آکر خلیفہ عمر ؓکی باتیں سنیں جو وہ ان کی زبان سے نہیں سن سکے تھے‘ تو جن کے دلوں میں کچھ مخالفت باقی رہ گئی تھی انہوں نے بھی دل صاف کر لیے اور عمرؓ کی خلافت کو دل و جان سے تسلیم کر لیا.
دوسرا مسئلہ جو پہلے بیان ہو چکا ہے وہ محازوں کا تھا۔ شام کے محاذ پر رومیوں نے قدم جما لیے تھے اور مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہو گئی تھی۔ سب سے بڑی دشواری یہ پیش آرہی تھی کہ رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی تھی ۔ رومیوں کے ایک نامور جرنیل ہرقل نے بے انداز لشکر اکٹھا کر لیا تھا۔ ادھر تاریخ کے نامور سپہ سالار ابو عبیدہؓ بن الجراح، عمر ؓبن العاص، یزیدؓ بن ابی سفیان، مثنیٰ بن حارثہ اور خالدؓ بن ولید موجود تھے۔ جنہوں نے کئی معرکوں میں رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے تھے۔ لیکن نفری کی کمی پریشان کرنے لگی تھی۔ خلیفہ اول ابو بکرؓ ابھی زندہ تھے تو محاذ سے مثنیٰ بن حارثہ آئے اور خلیفہ ؓکو محاذ کی صورتِ حال سے آگاہ کرکے درخواست کی کہ کمک کی ضرورت اتنی شدید ہو گئی ہے کہ اس کے بغیر فتح ممکن نہیں رہی۔ مثنیٰ اس وقت ابو بکرؓ کے ہاں پہنچے تھے جب وہ بسترِ مرگ پر تھے ۔ انہوںؓ نے اسی وقت حضرت عمرؓ کو بلایا۔
’’ابن ِخطاب! ‘‘ابو بکرؓ نے نحیف سی آواز میں کہا۔’’ ابنِ حارثہ مدد مانگنے آیا ہے۔ یہ جو کہتا ہے ایسا ہی کر اور اسے فوراً مدد دے کر محاذ پر بھیج دے……اور اگر میں اس دوران فوت ہو جاؤں تو یہ میری وصیت ہے کہ محاذ کو کمک بھیجنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔‘‘
اسی شام یا ایک دو روز بعد ابو بکر ؓفوت ہو گئے ۔ ان کی وصیت عمرؓ کے سینے پرلکھی ہوئی تھی۔ خلافت کے پہلے خطبے کے بعد عمر ؓنے مسلمانوں سے کہا کہ عراق اور شام کے محاذوں پر مدد کی شدید ضرورت ہے۔ اس لیے لوگ ایک لشکر کی صورت میں منظم ہو کر مثنیٰ کے ساتھ محاذ پر جائیں۔ عمرؓ کو یہ دیکھ کر مایوسی ہو رہی تھی کہ لوگوں میں محاذ پر جانے کیلئے ہچکچاہٹ سی نظر آرہی تھی ۔اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں میں کچھ اس قسم کا تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ رومی اور فارسی دو بہت بڑی جنگی طاقتیں ہیں ۔ ان کے ہتھیار بھی بہتر قسم کے ہیں اور ان کی نفری بھی بہت زیادہ ہے۔
مدینے اور گردونواح کے لوگ اس لئے بھی محاذ پر جانے میں پس و پیش کر رہے تھے کہ حضرت عمرؓ کی نظر رومیوں کے بجائے فارسیوں پر زیادہ تھی ۔ عمرؓ فارس پر فوج کشی میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور خلیفہ بننے سے پہلے وہ اپنے اس ارادے کا ذکر کرتے رہتے تھے ۔اس کی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ عمرؓ رسول اﷲﷺ کا ایک فرمان پورا کرنے کیلئے بیتاب تھے۔ رسول اﷲﷺ نے مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو مراسلے روانہ کیے تھے کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔اس دعوت نامے کے جواب میں بیشتر بادشاہ خاموش رہے تھے یا کسی ایک آدھ نے طنزیہ سا جواب دے دیا تھا ۔لیکن فارس کے بادشاہ خسرو پرویز کا جواب سخت توہین آمیز تھا۔ اس کے دربار میں جب رسول کریمﷺ کا قاصد پیغام لے کر گیا تو خسروپرویز نے قاصد کے ہاتھ سے پیغام لے کر پڑھا اور آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے قاصد کی بے عزتی کی اور پیغام پھاڑ کر اس طرح ہوا میں اُچھال دیا کہ اس کے ٹکڑے اس کے دربار میں بکھر گئے۔
قاصد نے واپس آکر رسول کریم ﷺکر بتایا کہ خسرو پرویز نے پیغام پھاڑ کر اس کے ٹکڑے بکھیر دیئے تھے۔
’’اس کی سلطنت سی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔‘‘رسول اﷲﷺ نے فرمایا اور خاموش ہو گئے۔
اب حضرت عمر ؓخلیفہ تھے اور لوگوں کو وہ وقت یاد آرہا تھا جب رسول کریمﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلے تھے ۔عمر ؓاس وقت وہاں موجود تھے۔ فارس کے بادشاہ کی اس حرکت پر عمرؓ کو جو غصہ آیاتھا وہ ان کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا ۔ اب فارس کا بادشاہ خسرو پرویز تو نہیں تھا لیکن عمر ؓفارس کی طاقتور سلطنت کے ٹکڑے کر کے بکھیر دینے کا عزم لیے ہوئے تھے۔
مسلمانوں پر فارسیوں کی کچھ زیادہ ہی دہشت طاری تھی۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ فارسیوں کے پاس ہاتھی تھے جنہیں جنگ کی خصوصی ٹریننگ دی گئی تھی ۔ یہ ہاتھی سندھ سے بھیجے گئے تھے اور ہاتھی بھیجنے والا سندھ کے راجہ داہر کے خاندان کا تھا۔ فارس کی فوج کے ساتھ مسلمانوں کی مختلف محاذوں پر ٹکر ہو ئی تھی۔ مجاہدین نے ہر معرکے میں فارسیوں کو شکست دی تھی ۔لیکن انہیں بہت زیادہ دشواریاں پیش آئی تھیں۔
محاذوں سے جو شدید زخمی واپس آتے تھے خصوصاً وہ جن کے اعضاء کٹ جاتے تھے اُنہیں دیکھ کر لوگ ڈرتے تھے ۔ یہ ڈر اس نوعیت کا نہیں تھا جو بزدلی کی پیداوار ہوتا ہے ، نہ ہی زخمی مجاہدین لوگوں کو آکر ڈراتے تھے۔ وہ ایسے ڈرپوک ہوتے تو محاذوں پر جاتے ہی نہ۔ وہ دراصل شاکی تھے۔ شکوہ یہ تھاکہ اپنی نفری بہت کم تھی اور بیک وقت دو بہت ہی طاقتور بادشاہیوں سے جنگ شروع کر دی گئی تھی۔ وہکہتے تھے کہ پہلے ایک کو ختم کرکے پھر دوسرے کے ساتھ نبردآزمائی کی جاتی۔
مؤرخ جن میں مصر کے محمد حسنین ہیکل خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓظہر کی نماز کے بعد باہر نکلے تو لوگوں کا ہجوم تھا ۔ عمرؓ نے ایک بار پھر کہا کہ رفیقِ رسول)ﷺ( اور خلیفہ او ل کی وصیت کا احترام کریں اور مثنیٰ بن حارثہ کو مایوس واپس نہ جانے دیں۔ محاذوں کے حالات تشویشناک ہوتے جا رہے ہیں۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہجوم پر سناٹا طاری ہو گیا اور لوگ ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔ لوگوں نے کھسر پھسر شروع کر دی اور کچھ ایسی آوازیں بھی سنائی دیں۔’’ جس مصیبت میں ہمارے بھائی گرفتار ہیں ‘کیایہ ضروری ہے کہ ہم بھی اسی مصیبت میں جا پھنسیں؟‘‘
روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کو وہ وقت یاد آیا جب حضرت ابو بکرؓ نے لوگوں کو شام پر لشکر کشی کی دعوت دی تھی تو قبیلوں کے سربراہوں پرایسی خاموشی طاری ہو گئی تھی۔
’’اے مسلمانو!‘‘ حضرت عمر ؓنے اُنہیں یوں خاموش دیکھا تو گرج کر بولے۔’’ ہو کیا گیا ہے تمہیں؟ خلیفۃ الرسول اﷲ)ﷺ( کو تم جواب کیوں نہیں دیتے؟ یہ تمہیں اس جہاد کی طرف بلا رہے ہیں جو مسلمان کی زندگی ہے اور جس میں موت ابدی زندگی ہے۔‘‘
تب مسلمان آگے بڑھے اور دعوت ِجہاد پر لبیک کہا تھا۔
اب وہی صورت ِحال عمرؓ کی خلافت کے آغاز میں ہی پیدا ہو گئی تھی۔ عمرؓ پریشانی کے عالم میں اپنے گھر چلے گئے۔
حضرت عمرؓ نے وہ رات بھی جاگتے گزاردی ۔وہ اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں رہے اور اس پریشانی سے نجات حاصل کرنے کے طریقے سوچتے رہے۔اُنہیں پریشانی یہ دیکھ کر ہو رہی تھی کہ سر کردہ افراد جو قائدین کا درجہ رکھتے تھے ‘وہ گو مگو کی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ ظاہر ہے کہ قبیلوں کے قائد کسی کام میں پس و پیش کرنے لگیں تو عوام آگے آنے کے بجائے دس قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
صبح عمر ؓنماز کیلئے مسجد میں گئے۔ امامت کے فرائض سر انجام دیئے اور بیعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو بیعت کیلئے اُمڈ آیا تھا ۔ اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا تھا۔ عمرؓ نے مسجد میں کھانا کھایا اور ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا۔
حضرت عمرؓ نے امامت کرائی اور نماز سے فارغ ہوتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے ۔
’’اے لوگو !‘‘ حضرت عمرؓ نے بلند آواز میں کہا۔’’ اﷲ تم پر کرم کرے۔ میں خلیفہ کی حیثیت سے پہلا حکم یہ جاری کرتا ہوں کہ جن مرتدین کو تم نے غلام اور لونڈیاں بنا کہ رکھا ہوا ہے‘ انہیں آزاد کر کے ان کے رشتہ داروں کے حوالے کردو۔ میں اسے بہت برا سمجھوں گا کہ مسلمانوں میں غلامی کی رسم جڑ پکڑ لے۔ اﷲ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔‘‘
یہ حکم لوگوں کیلئے غیر متوقع تھا ، اور غیر معمولی طور پر جرأت مندانہ۔ لوگوں نے مرتدین کو اپنی مرضی سے غلام بنا کر نہیں رکھا تھا بلکہ یہ خلیفہ اولؓ کا حکم تھا جو انہوں نے ارتداد کے خلاف جہاد کے آغاز میں ہی دے دیاتھا۔ حکم یہ تھاکہ مرتدین اگر سچے دل سے اسلام قبول کرتے ہیں تو انہیں بخش دیا جائے اور جو کوئی انکار کرے اسے پکڑ لیا جائے اور جو لڑے اسے قتل کر دیا جائے۔ اس کے گھر کو آگ لگا دی جائے اور اس کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔
یہ حکم بہت ہی سخت اور ظالمانہ معلوم ہوتا ہے۔ اسلام میں ایسے حکم کم ہی ملتے ہیں لیکن مرتدین کا جرم ایسا گھناؤنا تھا کہ وہ اسی سزا کے حقدار تھے ۔یہ بہت سے قبیلے تھے کہ جنہوں نے رسولﷺ کی زندگی میں اسلام قبول کر لیا تھا اور انہیں وہ تمام مراعات حاصل ہو گئی تھیں جو مسلمانوں کے حقوق میں شامل تھیں۔ اُنہیں سب سے بڑا اعزاز تو یہ ملا کہ اﷲ کے رسولﷺ کا اعتماد حاصل ہو گیا تھا۔
رسولﷺ رحلت فرما گئے تو اس کے ساتھ ہی بہت سے قبیلوں کے سردار اسلام سے نہ صرف منحرف ہو گئے بلکہ اسلام کے خلاف تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے پہلا کام تو یہ کیا کہ زکوٰۃ دینے سے صاف انکارکر دیا۔یہی نہیں بلکہ ان میں سے رسالت اور نبوت کے دعویدار بھی اٹھنے لگے۔
خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ زکوٰۃ کے معاملے میں بہت ہی سخت تھے۔ ان کے یہ الفاظ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں:
’’اگر یہ لوگ رسول اﷲ)ﷺ( کی خدمت میں اونٹ باندھنے والی صرف ایک رسّی بطور زکوٰۃ دیاکرتے تھے اور اب اس سے انکار کرتے ہیں تو خدا کی قسم !میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘
ان لوگوں کا دوسرا جرم تو اور زیادہ سنگین تھا۔انہوں نے خاتم النبینﷺ کے بعد رسول کھڑے کر دیئے تھے ۔ ان کامقصد یہ تھا کہ اسلام کا چہرہ مسخ کرکے اس مذہب کو ختم کر دیا جائے۔ وہ مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے مسلمان ہوئے تھے۔ تخریب کاری کے آغاز کیلئے انہوں نے نہایت موزوں وقت دیکھا‘ یعنی رسول اﷲﷺ کی رحلت کا وقت۔ مرتدین نے سوچا تھا کہ مدینہ ماتم کدہ بنا ہو اہو گا اور مسلمانوں کا حوصلہ اور جذبہ ختم نہ ہو اتو اتنا کمزور ضرور ہو گیا ہو گا کہ ان میں لڑنے کی ہمت نہیں ہو گی۔
ابو بکرؓ یہ جرائم معاف کرنے والے نہیں تھے۔انہوں نے خالدؓ بن ولید اور عمروؓ بن العاص جیسے نامور اور تاریخ ساز سالاروں کو مرتدین کی سرکوبی کیلئے بھیجا ۔ ان سالاروں کو خونریز لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں بنو اسد، قضاعہ، اور بنو تمیم جیسے طاقتور اور سرکش قبیلوں کو تہ تیغ کر لیا۔
حضرت ابو بکرؓ نے مرتدین کی بیخ کنی کیلئے بڑے ہی سخت احکام جاری کیے تھے ۔ان کے آدمیوں ،عورتوں اور بچوں کو غلام تک بنا لیا تھا ۔لیکن عمر ؓنے حکم جاری کر دیا کہ ان غلاموں کو آزاد کرکے ان کے رشتہ داروں کے حوالے کر دیا جائے۔
مدینہ کے لوگوں کو یہ حکم پسند نہ آیا ۔ مجمع میں مختلف آوازیں ا’ٹھیں ، کوئی کہہ رہا تھا کہ ہم نے خلیفہ اولؓ کے حکم سے غلامی میں رکھاتھا ، کسی نے کہا خلیفہ اول ؓکے حکم کی خلاف ورزی ان کی وفات کے بعد اچھا اقدام نہیں۔
مؤرخوں نے مختلف حوالوں سے رائے دی ہے کہ مرتدین نے اپنے عزائم اور مقاصد میں شکست کھائی تو ان میں بہت سے تائب ہو کر سچے دل سے مسلمان ہو گئے تھے ۔جن کو غلام بنا لیا گیا تھا وہ مسلمانوں کے حسن ِسلوک سے متاثر ہو کر ان کے وفادار ہو گئے تھے۔حضرت عمرؓ نے جب دیکھا کہ لوگ مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ محاذوں پر جانے کیلئے تیار نہیں ہو رہے تو انہوں نے اس توقع پر مرتدین کے غلام آزاد کرانے کا حکم دیا تھا کہ وہ خوش ہو جائیں گے اور ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے وہ دعوت ِجہاد قبول کرکے عراق اور شام کے محاذوں پر چلے جائیں گے۔
جاری ہے....
Post a Comment