حجاز کی آندھی
مصنف. عنایت اللہ التمش
قسط نمبر, 1
مدینہ سے تیس پینتیس میل دور شمال مشرق میں ایک ہرا بھرا نخلستان تھا۔ چھوٹی سی ایک جھیل، جھیل کے کنارے کھجور کے پیڑوں کے جھنڈ اور صحرائی پودے لق و دق تپتے ہوئے اس صحرا میں جنت کا سماں پیدا کیے ہوئے تھے۔ یہ نخلستان ایک ریگزار میں یوں لگتا تھا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں میں ایک پھول کھلا ہو۔ اس کے اردگرد صحرا ایسا بھیانک تھا کہ مسافر اُدھر سے گزرتے گھبراتے تھے اور اگر کوئی بھولا بھٹکا مسافر اُدھر جا بھی نکلتا تو دور سے نخلستان کو دیکھ کر یقین نہیں کرتا تھا کہ یہ نخلستان ہے۔ بلکہ وہ اسے سراب سمجھتا تھا۔ نظر کا دھوکا!
نخلستان تو اس ریگزار میں بہت تھے لیکن اس جیسا کوئی نہ تھا۔ اس کے اس طرف بھی خاصی اونچی پہاڑی تھی۔ جدھر سے سورج طلوع ہوتا تھا اور ایک پہاڑی اُدھر بھی تھی جدھر سورج غروب ہوتا تھا۔ ان پہاڑیوں کی وجہ سے یہ نخلستان دن کا خاصہ حصہ سورج کی جلا دینے والی گرمی سے محفوظ رہتا تھا۔کھجور کے درختوں کے علاوہ جھکے جھکے درختوں کی دوچار قسمیں اور بھی تھیں۔
جونہی سورج غروب ہونے سے پہلے مغرب والی پہاڑی کے پیچھے چلا جاتا۔ اس نخلستان کی محدود سی دنیا ٹھنڈی ہونے لگتی تھی، اور غروبِ آفتاب کے بعد ایسی خنکی کہ آسمان تلے بیٹھنے والا ٹھٹھرنے لگتا تھا۔
اس دلفریب نخلستان میں پانچ چھ خیمے نصب تھے جن میں ایک چوکور اور بڑا تھا ۔اس کے دو طرف دروازے اور دروازوں کے آگے ریشمی پردے لٹکے ہوئے تھے ۔خیمے کے اندر کسی شاہی محل کے کمرے کا گمان ہوتا تھا۔ فرش پر خیمے کی لمبائی اور چوڑائی جتنا ایرانی قالین بچھا ہوا تھا۔ ایک طرف گدے پڑے تھے جن پر ریشمی چادریں بچھی ہوئی تھیں اور گاؤ تکیے پڑے ہوئے تھے ، اوپر رنگارنگ فانوس لٹکے ہوئے تھے ۔ خیمے کے اندر جو کپڑا لگا ہوا تھا وہ بھی ریشمی تھا اور اس کے کئی رنگ تھے۔ اندر کی فضا طلسماتی تھی۔
رات کا پہلا پہر تھا، گدوں پر گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے تین آدمی کچھ بیٹھے کچھ نیم دراز سے تھے۔ ان کے fسامنے مختلف النوع کھانے رکھے تھے ۔ ایک شیشے کی صراحی تھی اور ساتھ کچھ جام بھی تھے۔ ان تین آدمیوں کے ساتھ جو گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ، دو آدمی دائیں اور دو بائیں بیٹھے تھے۔ شراب کے جام صرف ان کے ہاتھوں میں تھے ۔باقی تین آدمی شراب نہیں پیتے تھے۔
ان سب آدمیوں کے لباس بتاتے تھے کہ یہ عربی ہیں اور مالدار عربی ہیں۔ وہ الف لیلیٰ کی داستانوں کے کردار لگتے تھے……شاہی خاندان کے افراد……ان کے سامنے ایک نیم عریاں رقاصہ رقص کی اداؤں سے ان سات آدمیوں کو مسحور کر رہی تھی۔اس کی کمر سے ریشم کے دھاگوں کی بنی ہوئی رنگ برنگی رسیاں لٹک رہی تھیں جو اتنی گھنی اور گنجان تھیں کہ دور سے کپڑا لگتی تھیں ۔ان میں رقاصہ عریاں نہیں لگتی تھی لیکن رقص کرتے اس کی ٹانگیں پاؤں سے کولہوں تک رسیوں سے باہر آجاتی تھیں۔ رقاصہ کے کھلے ہوئے بال بھی جیسے ریشم کے انتہائی باریک تار تھے جو اس کے مرمریں شانوں پر جھول رہے تھے۔
خیمے کے ایک کونے میں سازندے بیٹھے تھے اور ان کے پاس رقاصہ کی عمر کی دو لڑکیاں بیٹھی گا رہی تھیں۔ ایک ادھیڑ عمر عورت دف کی تھاپ پر تالی بجا رہی تھی۔ رقص اچھل کود نہیں تھا نہ دف اور سازوں نے واویلا بپا کر رکھا تھا۔ موسیقی مدھم اور خوابناک سی تھی اور رقص ایسا جیسے رقاصہ پھن دار ناگن کی مانند جھول رہی ہو۔ اس کا تبسم سحر انگیز تھا۔ گیت رومانی تھا۔ اس کے الفاظ اور سرتال ایسی جیسے خیموں سے کچھ دور بیٹھے ہوئے اونٹوں اور بندھے ہوئے گھوڑوں پر بھی وجد طاری ہو ا جا رہا ہو۔
رقص جاری رہا‘ شر اب چلتی رہی۔ خیمے میں بیٹھے یہ سات آدمی جھومتے اور خاموش اشاروں سے داد دیتے رہے اور جب رقاصہ نے جھک کر ہاتھ ماتھے پر رکھا تو گاؤ تکیے کے ساتھ بیٹھے ایک آدمی نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رقص کی محفل برخاست ہوتی ہے۔
رقاصہ یوں خیمے سے جھکی جھکی باہر نکلی کہ اس نے پیٹھ ان آدمیوں کی طرف نہ کی۔ گانے والیوں کا اور سازندوں کا انداز بھی یہی تھا۔
٭’’اب کام کی کچھ باتیں ہو جائیں۔ ‘‘گاؤ تکیے کے ساتھ لگے درمیان والے آدمی نے گاؤ تکیے سے آگے ہو کر کہا۔ ’’دن کو ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے ، ہم خوش تھے کہ محمد(محمدﷺ)کے اس دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد مسلمان پھر قبیلوں میں بٹ کر بکھر جائیں گے اور ہم اُنہیں ایک بار پھر ایک دوسرے کا دشمن بنا کر جاہلیت کے اسی دور میں پہنچا دیں گے جہاں سے اُنہیں ان کے رسول(ﷺ) نے نکالا تھا۔پھر ان کے خلاف ہر طرف بغاوت شروع ہو گئی تھی‘ جسے یہ لوگ ارتداد کہتے ہیں۔ ہم اس وقت اور زیادہ خوش ہوئے کہ اب اسلام ان باغیوں کے ہاتھ ہمیشہ کیلئے عرب کی ریت میں دفن ہو جائے گا، لیکن اس بوڑھے ابو بکر نے ایسا طوفان کھڑا کیا کہ مسیلمہ اور مالک بن نویرہ جیسے طاقتور باغی ان چند ایک مسلمانوں سے شکست کھا گئے۔
’’ابو سلمیٰ!‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔’’ اسلام کے یہ باغی اگر بغاوت سے پہلے متحد ہو جاتے تو کبھی شکست نہ کھاتے۔‘‘
’’نہیں ابنِ داؤد!‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔ ’’وہ متحد ہوتے ‘تو بھی شکست کھا جاتے۔ یہ کہو کہ مسلمانوں کے پاس خالد بن ولید اور ابو عبیدہ نہ ہوتے تو یہ باغی شاید کامیاب ہو جاتے……خدائے یہودہ کی قسم! اگر ہمارا منصوبہ ان لوگوں نے قبول کرلیا اور ہماری باتیں مان لیں تو اسلام کا نام و نشان نہیں رہے گا۔‘‘
’’میں ایک بات کہوں ابو سلمیٰ! ‘‘ایک اور آدمی بولا۔’’ تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ تم یہودی ہو اور تمہاری تاریخ میں صرف منصوبے ملتے ہیں ……سازشوں کے منصوبے ، قتل کرانے اور بھاگ نکلنے کے منصوبے…… تمہیں میری بات سے رنج نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہ سمجھنا کہ میں نصرانی ہوں اس لئے یہودیوں کے خلاف بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’تم کھل کر بات کرو اسحاق!‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ ہم اس صورت میں ہی کامیاب ہو سکتے ہیں کہ ایک دوسرے کی خامیوں اور نقائص کی نشاندہی کریں ۔ یہاں سوال میری ذات یا بنی اسرائیل کی توہین کا نہیں ، ہمیں اسلام کا خاتمہ کرنا ہے۔ جس کیلئے بہترین وقت یہی ہے ……تم چاروں نصرانی ہو اور ہم تین یہودی ہیں ۔ میں اس وقت کو تصور میں لا رہا ہوں جب نصرانیوں اور یہودیوں میں اتحاد ہو گا ۔ اب بات کرو۔‘‘
’’میرا مقصد کسی کی توہیں نہیں۔ ‘‘اسحاق نے کہا۔’’ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بنی اسرائیل جنگ سے گریز کرتے ہیں اور میدانِ جنگ سے دور رہتے ہیں۔ اگر ہم نصرانیوں کی طرح تم لوگ بھی جنگجو ہو جاؤ اور یہودی اور نصرانی متحد ہو جائیں تو یہی ایک ذریعہ ہے اسلام کے خاتمے کا۔‘‘
’’بہت وقت چاہیے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ کئی سال لگ جائیں گے دونوں قوموں کو قریب لاتے۔ ہمارے دانشمند بزرگ کہہ گئے ہیں کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کی قیادت کو بدکردار بنا دو اور جو کردار سے دستبردار نہیں ہوتا اسے ایسے خفیہ طریقے سے قتل کردو کہ قاتل کا سراغ نہ ملے۔‘‘
’’کس کس کو قتل کرو گے؟‘‘ ایک اور نصرانی بولا۔’’ ابو بکر کو میں نے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا ہے‘ وہ اتنا بوڑھا ہو چکا ہے کہ دنیا سے جلد ہی اُٹھ جائے گا۔ اسے قتل کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اگر اس کے بعد ابن الخطاب آگیا تو مسلمانوں کا محاذ او ر مضبوط ہو جائے گااور اسلام شام کی سرحدوں سے بھی آگے نکل جائے گا۔ میں نے جو جاسوسی کرائی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا پہلا خلیفہ ابو بکر خالد بن ولید کو دمشق کی طرف روانہ کر رہا ہے۔‘‘
Post a Comment