حجاز کی آندھی
مصنف عنایت اللہ التمش
قسط نمبر- 2
میں نے جو جاسوسی کرائی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا پہلا خلیفہ ابو بکر خالد بن ولید کو دمشق کی طرف روانہ کر رہا ہے۔‘‘
’’خالد بن ولید کی بات کرتے ہو؟‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ دعا کرو کہ ابو بکر کے بعد خلافت عمر بن الخطاب کو مل جائے۔ ان کے آپس میں اتنے زیادہ اختلافات ہیں کہ خالد بن ولید، ابن خطاب کے ہاتھوں گمنامی میں چلا جائے گا۔‘‘
’’میں نہیں مانتا۔‘‘ اسحاق نے کہا۔’’میں اس وقت مدینہ میں تھا جب عمر کے اُکسانے پر ابو بکر نے خالد بن ولید کو بطاح سے بلایا تھا کیونکہ اس نے ارتداد کے ایک قائد مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی انتہائی خوبصورت بیوی کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ خالد بن ولید جب مدینہ پہنچا تو سیدھا مسجد میں گیا۔عمر وہیں تھا۔ ابن الولید کو دیکھتے ہی عمر اس پر برس پڑا اور اس قدر لعن طعن کی کہ جو بیٹا باپ کی بھی برداشت نہ کر سکے۔ لیکن خالد نے برداشت سے کام لیا کیونکہ عمر اُس سے بڑا تھا اور ابن الولید اسلام کی تعلیمات کا پابند تھا۔ اُس نے اپنی بے عزتی برداشت کر لی لیکن عمر کی عزت رکھ لی۔ اس قوم میں یہ جو خوبی پیدا ہو گئی ہے اسے ختم کرنا محال نظر آتا ہے۔‘‘
’’کیا تم کوئی آسان کام کرنا چاہتے ہو؟‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ اسی محال کو ہم نے آسان کرنا ہے ، باتیں بہت ہو چکی ہیں۔ بہت دنوں سے ہم باتیں ہی کیے جا رہے ہیں۔ یہ حقیقت اپنے سینے پر لکھ لو کہ اسلام کی بیخ کنی کوئی آسان کام نہیں۔ یہ کام ہم میدانِ جنگ میں نہیں کر سکتے نہ فوجیں اسلام کے خلاف کوئی کامیابی حاصل کر سکتی ہیں…… میں کہہ رہا تھا کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کی قیادت کو بدکردار اور بد دیانت بنا دو۔‘‘
’’لیکن کیسے؟ ‘‘اسحاق نے کہا۔’’ میرا نظریہ بھی یہی ہے کہ ان باتوں کی بجائے کوئی عمل کیا جائے۔‘‘
’’کردار میں بدی خوبصورت عورت سے پیدا ہوتی ہے یا شراب سے۔‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ مسلمان شراب نہیں پیتے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا تھا کہ ایک روز ان کے رسول(ﷺ) نے اعلان کیا کہ آج سے شراب حرام ہے تو پانی کی طرح شراب پینے والے اہل ِاسلام نے اسی وقت شراب کے مٹکے اور شراب کی صراحیاں باہر گلیوں میں انڈیل دی تھیں۔
۔وہ پیالے توڑ دیئے تھے جس میں وہ شراب پیتے تھے…… ہم تو یہودی ہیں ،شراب نہیں پیتے۔ ان نصرانی بھائیوں سے پوچھو جو شراب کے رسیا ہیں ۔انہیں کہو کہ شراب کی یہ صراحی اور اپنے سامنے رکھے ہوئے جام اٹھاکر باہر پھینک دیں تو یہ ہنس کر ٹال دیں گے۔ یا یہ کہہ دیں گے کہ ایک دو دنوں بعد ہم شراب سے توبہ کرلیں گے۔ یہ توبہ نہیں کریں گے ۔لیکن مسلمانوں نے آنِ واحد میں توبہ کر کے دکھا دی اور شراب کو اُمّ الخبائث قرار دے دیا۔‘‘
ابو سلمیٰ اس طرح ہنسا جیسے اس کے سامنے بیٹھے ہوئے یہ آدمی کم عقل اور طفلانِ مکتب ہوں۔
’’مسلمانوں نے شراب چھوڑ دی ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ عورت کا نشہ برقرار رکھا ہے۔ ایک ایک آدمی خصوصاً سرداروں نے کئی کئی بیویاں رکھی ہوئی ہیں اور وہ خوبصورت اور جوان لڑکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہ نہ بھولو کہ خوبصورت اور جوان لڑکی ایک ایسی طاقت ہے جس نے بڑے بڑے جابر اور جنگجو بادشاہوں کے تاج اپنے قدموں میں رکھ لئے ہیں۔ ہم مرد کی اس کمزوری کو استعمال کریں گے…… اور یہ بھی دماغ میں بٹھا لو کہ جولذت بدی میں ہوتی ہے وہ نیکی میں نہیں ہوتی۔ مسلمان اپنے رسول (ﷺ)کے اس وعدے پر نیک اور پاک ہو گئے ہیں کہ اگلے جہان انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ جہاں حسن و جمال والی حوریں ملیں گی اور شہد سے میٹھی شراب ملے گی۔ ہم ان لوگوں کو دنیا میں جنت دکھا دیں گے۔‘‘’’بات آپ کی ہی درست معلوم ہوتی ہے۔‘‘ ایک اور نصرانی نے کہا۔’’ لیکن مسلمانوں پر جنگ و جدل کا جنون طاری ہو چکا ہے ۔ یوں پتہ چلتا ہے کہ جیسے ان کا کسی اور طرف دھیان ہی نہ ہو۔ کرنا ہے تو یوں کریں کہ یہودیوں اور نصرانیوں کو تیار کریں کہ وہ ظاہری طور پر اسلام قبول کر کے ان کی فوج میں شامل ہو جائیں اور میدانِ جنگ میں اُنہیں دھوکا دیں اور ان کی شکست کا باعث بنیں ۔لیکن مجھے یہ کام کچھ آسان نظر نہیں آتا کیونکہ ان مسلمانوں میں صرف جوشِ جہاد اور شوق ِشہادت ہی نہیں بلکہ ان پر جہاد کا جنون طاری ہے۔ میدان ِجنگ میں اگر ان کا آدھے سے زیادہ لشکر مارا جائے تو باقی لشکر بھاگتا نہیں بلکہ پہلے سے دگنی طاقت استعمال کر کے اپنے مرے ہوئے آدھے لشکر کی کمی پوری کر دیتا ہے۔‘‘
’’یہ کام بھی وقت طلب ہے۔ ‘‘ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ یہ بھی آگے چل کر کریں گے ۔یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے کئی آدمی مسلمانوں میں نظریاتی تخریب کاری میں مصروف ہیں ۔ مسلمان اپنے رسول(ﷺ) کی احادیث کے شیدائی ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ اُنہیں کہیں سے پتا چلتا ہے کہ محمد(ﷺ) نے یہ بات کہی تھی تو لوگ فوراً لکھ لیتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے یہ آدمی جن کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ مسلمانوں میں من گھڑت احادیث مشہور کر رہے ہیں اور لوگوں نے اُنہیں صحیح احادیث میں شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم نے بنی اسرائیل کے کچھ پڑھے لکھے آدمیوں کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ وہ قرآن کا مطالعہ کریں اور دور دراز کے مقامات پر جا کر مسجدوں کے امام بن جائیں اور مسلمانوں کے ذہنوں میں قرآن کی غلط تفسیریں ڈالیں۔ ہم یہ محاذ کبھی کا کھول چکے ہیں۔ اب ہم عورت کو استعمال کریں گے ۔تم جانتے ہو کہ ساتھ والے خیمے میں جو تین لڑکیاں ہیں ہم انہیں تیار کر چکے ہیں ۔ میں آج تمہیں یہی بتانا چاہتا تھا کہ یہ مہم فوراً شروع کرنی ہے ۔اس لڑکی کو ابنِ داؤد مسلمان کے روپ میں اپنے ساتھ لے جائے گا
ذرا ٹھہرو‘ میں اس لڑکی کو یہیں بلاتا ہوں ۔ تم سب اس کے ساتھ باتیں کرکے مجھے یہ بتانا کہ یہ لڑکی یہ کام کر سکے گی یا نہیں اور ہم نے اسے جو تربیت دی ہے وہ اس نے ذہن نشین کر لی ہے یا نہیں۔‘‘
فوراً بعد ایک لمبوترے قد اوربڑے ہی دلکش جسم والی لڑکی خیمے میں داخل ہوئی۔ اس کے نقش و نگار میں مسحور کن جاذبیت تھی اور اس کے چلنے کے انداز میں بھی جادو کا سا اثر تھا۔
’’بنتِ یامین! ‘‘ابو سلمیٰ نے اس لڑکی سے کہا۔’’اس وقت سے تم مسلمان ہو اور تمہارا نام یہی ہو گا۔ تم ایک مسلمان کی بیوی بننے جا رہی ہو۔‘‘
بنتِ یامین نے فوراً وہ چادر جو اس نے کندھوں پر پھیلا رکھی تھی ‘دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر اس سے اپنا سر ڈھانپ لیا اور پھر یہ چادر اس طرح لپیٹ لی کہ اس کا سینہ اور اوپر ناک تک کا جسم ڈھانپا گیا۔صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ پیشانی پر بھی اس نے چادر لے لی تھی اور پھر اس نے سر جھکا لیا۔‘‘
خیمے میں بیٹھے ہوئے ہر آدمی نے اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی بات کی۔ لڑکی نے ہر سوال اور ہر بات کا موزوں جواب دیا اور جواب دینے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ شرم و حیا سے مری جا رہی ہو۔ پھر اس سے سوال پوچھا گیا کہ ایک مسلمان کی بیوی بن کر وہ کیا کرے گی؟ اس نے جو تربیت حاصل کی تھی اس کے مطابق تفصیلی جواب دیا۔
’’میرے ساتھ زیادہ باتیں نہ کریں۔‘‘ بنتِ یامین نے کہا۔’’ آپ کے تمام سوالوں کے جواب میرے عمل سے ملیں گے ‘جس کیلئے میں بالکل تیار ہوں۔‘‘
ابو سلمیٰ نے اسے اشارہ کیا کہ وہ چلی جائے۔ اس نے فوراً سر سے چادر اتاری اور پہلے کی طرح کندھوں پر پھیلا دی اور وہ اٹھ کر باہر چلی گئی۔’’کیا خیال ہے؟ ‘‘ابو سلمیٰ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔
’’باتوں کی حد تک لڑکی ہوشیار معلوم ہوتی ہے۔‘‘ اسحاق نے کہا۔ ’’اس خیمے میں تو ہمیں اس نے ہمیں مطمئن کر دیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان کے خیمے میں جا کر یہ کیا کرے گی یا کیا کر سکے گی۔‘‘
’’اتنی حسین لڑکی کسی بھی مسلمان پر جادو کی طرح چھا سکتی ہے۔ ‘‘ابو سلمیٰ نے کہا۔
’’ہمیں تمہاری ہر بات سے اتفاق ہے ابو سلمیٰ!‘‘ ایک نصرانی نے کہا۔’’ ہمیں خوش فہمیوں میں مبتلا نہیں ہو نا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے پچھلے ناکام تجربوں کو سامنے رکھیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ہماری ہر سازش ناکام ہوئی ہے، مجھے خیبر کا معرکہ یاد ہے ۔ مسلمانوں کی قیادت ان کے اپنے ر سول(ﷺ) کے ہاتھ تھی اور مسلمانوں نے فتح حاصل کر لی تھی ۔ بنی اسرائیل کی ایک عورت زینب بنت الحارث نے جو سلام بن شکم کی بیوی تھی، محمد(ﷺ) کو قتل کر نے کا کتنا اچھا طریقہ آزمایا تھا۔‘‘
اس نصرانی نے غزوہ خیبر کے فوراً بعد کا واقعہ سنایا۔ اس یہودن نے رسول کریمﷺ کے پاس جا کر عقیدت مندی کا اظہار والہانہ طریقے سے کیا اور عرض کی کہ وہ رسولﷺ کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرنا چاہتی ہے۔ حضور ﷺنے اس یہودن کی جذباتیت سے متاثر ہو کر دعوت قبول کر لی تھی اور اسی شام اس یہودن کے گھر چلے گئے۔ آپﷺ کے ساتھ بشر ؓبن الباء تھے۔
زینب بنت الحارث نے سالم دنبہ بھونا تھا ۔جو اس نے حضورﷺ کے آگے رکھ کر پوچھا کہ آپﷺکو دنبے کا کون سا حصہ پسند ہے۔ آپﷺ نے دستی پسند فرمائی۔ زینب نے دستی کا ٹ کر آپﷺ کے آگے رکھ دی۔ بشر ؓبن الباء نے ایک بوٹی کا ٹ کر منہ میں ڈال لی اور چبانے لگے۔ رسول کریمﷺ نے ایک بوٹی کاٹی اور منہ میں ڈالتے ہی اگل ڈالی ۔فرمایا’’ ابن الباراء! اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔‘‘
بشرؓ بن الباراء بوٹی چبا رہے تھے جو انہوں نے اُگل تو دی لیکن زہرلعابِ دہن کے ساتھ حلق میں اتر چکا تھا۔
’’اے یہودن!‘‘ حضورﷺ نے بنتِ الحارث سے فرمایا۔’’ خدا کی قسم! تو نے اس گوشت میں زہر ملایا ہوا ہے۔‘‘
آپﷺ غصے سے اٹھے تو یہودن نے فوراً تسلیم کر لیا کہ اس نے گوشت میں سریع الاثر زہر ملا رکھا ہے۔
’’اے محمد!‘‘ زینب بنت الحارث نے بڑی دلیری سے کہا۔’’ خدائے یہودہ کی قسم! یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔ آج میں ناکام ہوگئی تو کل کوئی اور کامیاب ہو جائے گا۔‘‘
بشرؓ بن الباراء اپنے حلق پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے اور چکرا کر گر پڑے۔ زہر اتنا تیز تھا کہ اس نے بشر ؓکو پھر اٹھنے نہ دیا۔ وہ زہر کی تلخی سے تڑپے اور فوت ہو گئے۔
رسولﷺ نے زینب بنت الحارث اور اس کے خاوند کے قتل کا حکم دیا اور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ آپﷺ نے جو مشفقانہ رویہ اختیار کیا تھا وہ منسوخ فرمایا اور حکم دیا کہ یہودیوں پر اعتماد نہ کیا جائے اور ان کے ہر قول و فعل پر نظر رکھی جائے
مؤرخ ابن اسحاق لکھتے ہیں مروان بن عثمان نے مجھے بتایا تھا کہ رسولﷺ آخری مرض میں مبتلا تھے ۔ آپﷺ نے وفات سے دو تین روز پہلے اُمّ بشر الباراء سے جب وہ آپﷺ کے پاس بیٹھی تھیں فرمایا تھا۔ ’’اُمّ بشر !میں آج بھی اپنے جسم میں اس زہر کا اثر محسوس کررہا ہوں جو اس یہودن نے گوشت میں ملایا تھا ۔میں نے گوشت چبایا نہیں اُگل دیا تھا مگر زہر کا ثر آج تک موجود ہے۔‘‘ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ رسولﷺ کی آخری بیماری کا باعث یہی زہر تھا۔
نصرانی نے یہ واقعہ ابو سلمیٰ ، ابنِ داؤد اور سب کو سنایا۔
’’مجھے یہ واقعہ یاد ہے۔‘‘ ابو سلمیٰ نے کہا۔’’ مجھے اپنے تمام تجربات یاد ہیں جن میں ہم ناکام رہے تھے ۔ مدینہ پر قریش کا حملہ کوئی پرانی بات تو نہیں، مسلمانوں نے مدینہ کے اردگرد خندق کھود ڈالی تھی ۔ بنی اسرائیل مدینہ میں تھے ۔انہوں نے محمدﷺ کو اپنی وفاداری کا یقین دلا رکھاتھا اور مسلمان ان پر اعتماد کرتے تھے ۔ہم نے اس اعتماد سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی……
مسلمانوں نے اپنی عورتوں کو اور بچوں کو ایک قلعہ نما مکان میں اکٹھا کر لیا تھا۔ ہمارا ایک آدمی محمد)ﷺ( کے قتل کیلئے رات کے وقت جا رہا تھا ، وہ اس مکان کے قریب رُک گیا تو اسے حسان نے دیکھ لیا اور محمد)ﷺ( کی پھوپھی صفیہ کو بتایا کہ ایک یہودی مشکوک انداز سے کھڑا ہے ۔ وہ بنو قریظہ کا آدمی تھا ، اس کے پاس برچھی تھی……
صفیہ ایک ڈنڈا لے کر باہر نکلیں اور عقب سے اس آدمی کے قریب جا کر للکارا۔ ہمارے آدمی نے گھوم کر دیکھا اور صفیہ پر وار کرنے کیلئے برچھی تانی مگر صفیہ نے فوراً اس کے سر پر ڈنڈا مارا‘ وہ تیورا کر گرا۔ صفیہ نے ڈنڈے کی ضربوں سے اس کی کھوپڑی کچل ڈالی……
ہم نے تو اُن مسلمانوں پر جو مدینہ میں خندق کے اندر کی طرف رات کو سوئے یا بیٹھے ہوئے تھے ، حملہ کرنے کی بھی سوچی تھی لیکن اس آدمی کے قتل سے یہ راز کھل گیا کہ ہماری نیت ٹھیک نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محمد ﷺ کے حکم سے یہودیوں کو قتل کر دیا گیا۔‘‘
Post a Comment